مودی کے خواب چکنا چور ہوگئے؛ بھارتی نژاد خاتون کینیڈا کی وزیر اعظم کی دوڑ سے باہر
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
کینیڈا(نیوز ڈیسک)جسٹن ٹروڈو کے مستعفی ہونے کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم کے لیے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر بھارتی نژاد انیتا آنند سامنے آئی تھیں جو اس وقت وزیر ٹرانسپورٹ بھی ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملنے پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے جنم لیا تھا۔دونوں مما لک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی تقریباً معطل ہیں۔ ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔
ایسے میں سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد دنیا کے سامنے لانے والے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو مستعفی ہوگئے۔مودی سرکاری کی خوشی اُس وقت دوبالا ہوگئی جب ایک بھارتی نژاد خاتون انیتا آنند جو وزیر ٹرانسپورٹ بھی ہیں اس عہدے کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔بھارتی وزیراعظم نے امیدیں باندھ لی تھیں کہ انیتا آنند کے وزیراعظم بن جانے سے سکھ رہنما کے قتل کیس دب جائے گا اور کینیڈا کے ساتھ تعلقات دوبارہ بحال ہوجائیں گے۔تاہم انیتا آنند نے وزارت عظمٰی کی دوڑ سے باہر ہونے کا اعلان کرتے ہوئے مودی کی امیدوں پر پھیر دیا۔
انیتا آنند نے کہا کہ وہ ایم پی کے طور پر دوبارہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی اورساری توجہ اپنی پیشے درس و تدریس پر مرکوز رکھیں گی۔اپنے بیان میں انیتا آنند نے مستعفی وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ٹیم میں جگہ دینا اور اہم ذمہ داریاں سونپنا مجھ پر اعتماد ہے۔انتیا آنند نے اپنے حلقے کے عوام کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے دو بار کینیڈا کے ہاؤس آف کامنز کے لیے رکن منتخب کیا۔بھارتی نژاد انہوں نے کہا کہ وہ اگلے انتخابات تک بطور وزیر اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں گی تاہم آئندہ الیکشن میں حصہ لیا۔خیال رہے کہ انیتا آنند نے 2019 میں سیاست میں قدم رکھا تھا اور وہ جسٹن ٹروڈو کی کابینہ میں دفاع، خزانہ، عوامی خدمات اور ٹرانسپورٹ کی وزیر رہی ہیں۔ انیتا آنند سیاست میں آنے سے قبل وکیل اور یونیورسٹی میں استاد رہ چکی ہیں۔
علی امین گنڈا پور سلمان اکرم راجا اور شیر افضل کے درمیان اختلافات ختم کرانے کے لیے سرگرم
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حالات غیر مستحکم، مقبوضہ کشمیر مودی کے کنٹرول سے باہر
مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔
آرٹیکل370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے۔
یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہآرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگی امن ویکساں حقوق ملیں گے۔
حالات نے ثابت کردیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے۔
مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماؤں کو نظر بند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔
مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں ۔
مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020 اور 2021 میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ’فیک انکاؤنٹر‘ میں مارے گئے۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔
انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019 سے فروری 2020 تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج ہیں اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں مودی کےجبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے۔