گزشتہ برس پاکستان سے 200 افراد کو ایکسچینج پروگرام پر امریکا بھیجا، امریکی قونصل جنرل
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
امریکی قونصل جنرل اسکاٹ اربام(فائل فوٹو)۔
امریکی قونصل جنرل اسکاٹ اربام نے کہا ہے کہ ایکسچینج پروگرام کے تحت ہزاروں پاکستانی امریکا گئے ہیں۔
کراچی میں یو ایس المنائی کی سالانہ تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی قونصل جنرل اسکاٹ اربام کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات اہم ہیں۔ 2024 میں پاکستان سے 200 لوگوں کو امریکا ایکسچینج پروگرام میں بھیجا گیا۔
امریکی قونصل جنرل نے کہا کہ میں اور میری بیوی خود ٹیچر رہے ہیں، اس لیے تعلیم کے معاملے کو سمجھ سکتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیے یوایم ٹی میں پاکستان امریکہ تعلقات پرسیمینار پاک امریکا تعلقات ایسے نہیں کہ پابندیاں لگائی جائیں، دفتر خارجہانہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کے میدان میں چیلنجز ہیں، تعلیم کے شعبے میں امریکی حکومت پاکستان کی مدد کر رہی ہے۔
امریکی قونصل جنرل اسکاٹ اربام کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے معاشی طور پر بھی اہم تعلقات ہیں، ٹریڈ کو آگے لے جانا دونوں ملکوں کےلیے اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی سے ملنے کراچی چیمپبر، ایف پی سی سی آئی اور دیگر باڈیز میں جاوں گا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) سے ایک بار پھر علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ 31 دسمبر 2026 سے مؤثر ہوگا، اور اس کی وجہ فلسطین کی یونیسکو میں رکنیت اور امریکی خارجہ پالیسی کے ساتھ تنازعات کو قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ یونیسکو کی پالیسیز اور سرگرمیاں امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ یونیسکو تقسیم پیدا کرنے والے سماجی اور ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور اس کا جھکاؤ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی جانب ہے، جنہیں انہوں نے ’عالمی ایجنڈا‘ اور ’سب سے پہلے امریکا پالیسی سے متصادم‘ قرار دیا۔
فلسطین کی رکنیت پر اعتراضٹیمی بروس نے 2011 میں یونیسکو کی جانب سے فلسطین کو مکمل رکنیت دیے جانے کو ’انتہائی مسئلہ انگیز‘ اور امریکی پالیسی کے خلاف قرار دیا، اور کہا کہ یہ اقدام تنظیم میں ’اسرائیل مخالف بیانیے‘ کو تقویت دیتا ہے۔
پہلے بھی 2 بار علیحدگی
یہ تیسری مرتبہ ہے جب امریکا نے یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ اس سے پہلے 1984 میں صدر رونالڈ ریگن کے دور میں یونیسکو پر سیاسی رنگ غالب ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر علیحدگی اختیار کی گئی۔
2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنظیم پر ’اسرائیل مخالف تعصب’ اور ناقص انتظام کا الزام لگا کر علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
2023 میں صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں امریکا دوبارہ رکن بنا، مگر اب موجودہ حکومت نے ایک بار پھر علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔
یونیسکو کی سربراہ کا ردعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے امریکی فیصلے پر ’ شدید افسوس‘ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ’ کثیرالجہتی کے اصولوں کے منافی‘ ہے۔ انہوں نے امریکا کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے یونیسکو کی جانب سے ہولوکاسٹ کی تعلیم اور یہود دشمنی کے خلاف اقدامات کا حوالہ دیا۔
ازولے نے واضح کیا کہ تنظیم نے 2018 کے بعد اصلاحات کی ہیں، مالیاتی نظام کو متنوع بنایا ہے اور اب امریکی تعاون یونیسکو کے کل بجٹ کا صرف 8 فیصد ہے، جب کہ تنظیم کی رضاکارانہ مالی امداد دوگنی ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے اقوام متحدہ کی ماہر فرانچیسکا البانیز کو امریکی پابندیوں کا سامنا، اسرائیلی مظالم کی نشاندہی ’جرم‘ ٹھہری
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی ملازمتیں ختم نہیں کی جائیں گی اور یونیسکو امریکی نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا فلسطین یونیسکو