Express News:
2025-11-05@02:45:01 GMT

ناریل

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

واہ کینٹ:

ناریل کا نباتاتی نام ( Cocos nucifera) ہے۔

تاریخی پس منظر

ناریل دیگر پھلوں سے منفرد ہے، کیوںکہ اس کے اینڈوسپرم میں واضح مائع کی ایک بڑی مقدار موجود ہوتی ہے، جسے ناریل کے پھل یا رس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ناریل کا پانی، دودھ، گودا اور حاصل ہونے والا تیل سبھی کارآمد ہیں۔ اس پھل کا خول سخت ہوتا ہے۔ اس پر بھورے رنگ کی بھوسی ہوتی ہے جو سجاوٹ، پودے لگانے اور مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ ناریل کا پھل تین تہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب سے باہر والی تہہ کو ایکسو کارپ ( Exocorp) جو ہموار اور سبز رنگ کی ہوتی ہے۔ دوسری تہہ کو جو ریشوں اور بھوسی پر مشتمل ہوتی ہے اسے میسو کارپ ( Masocorp ) کہتے ہیں، جب کہ اندرونی تہہ کو اینڈو کارپ (Endocorp) کہتے ہیں جو سخت اور بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔

ایک ناریل پکنے میں تقریباً 11 سے 12 ماہ لگتے ہیں۔ ناریل کو سب سے پہلے آسٹرونیشیائی لوگوں نے جزیرہ جنوب مشرقی ایشیا میں پالا تھا۔ اس کے درخت تقریباً 30 میٹر یعنی 100 فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک درخت تقریباً 75 پھل پیدا کرتا ہے۔ اوسطاً ایک درخت پر تقریباً 30 سے زائد ناریل لگتے ہیں۔ اس کے پودے سردی برداشت نہیں کر سکتے، بلکہ وہ زیادہ بارشوں اور روشنی میں پرورش پاتے ہیں۔ ناریل کی بہت معاشروں میں ثقافتی اور مذہبی اہمیت بھی ہے۔ خاص طور پر مغربی بحرالکاہل کی آسٹرونیشیائی ثقافتوں میں جہاں ان کے افسانوں، گانوں اور زبانی روایات میں نمایاں ہے۔ اسے ہندو مت کی مذہبی رسومات میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً شادی اور پوجا کی رسومات میں۔

اقسام

کھجور کی طرح ناریل کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ناریل کی تقریباً 100 سے زائد اقسام ہیں۔ تاہم قابل کاشت تقریباً 15 ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ناریل ایک سُپرفوڈ ہے، جس کا گودا، رس اور تیل سبھی قابل استعمال ہیں۔ اس کی چند اقسام پر روشنی ڈالتے ہیں۔

 ایسٹ کوسٹ ٹیل کوکونٹ

یہ قسم سائز میں تقریباً 30 میٹر یعنی 90 فٹ تک لمبی ہوتی ہے۔ اس کی نشوونما کے لیے سورج، روشنی اور پانی لازمی اجزاء ہیں۔ یہ کاشت کاری میں زیادہ قابل اعتبار قسم ہے۔ اس کا پھل عام طور پر بہت سخت ہوتا ہے۔ یہ قسم 6 سے 8 سال بعد پھل پیدا کرتی ہے۔ اس پودے کو تقریباً ہر سال 60 سے 70 ناریل لگتے ہیں۔

 ویسٹ کوسٹ ٹیل کوکونٹ

یہ قسم سائز میں تقریباً 33 میٹر یعنی 100 فٹ تک لمبائی میں جاتی ہے۔ اس کے پودوں کو بڑھنے کے لیے مناسب روشنی، زرخیز مٹی اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ناریل کی ایسی قسم ہے جو عموماً خشک سالی برداشت کر لیتی ہے۔ ماہرین اس قسم کو سب سے زیادہ لمبی سمجھتے ہیں۔ اس کے پھل میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

 جامائیکن ٹیل کوکونٹ

اس قسم کے درختوں کی لمبائی بھی عموماً 33 میٹر یعنی 100 فٹ تک چلی جاتی ہے۔ انہیں بھی بڑھنے پھولنے کے لیے سورج کی توانائی، زرخیز مٹی اور مناسب پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نسل کے درخت قدآور ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔ یہ تیزی سے بڑھتے ہیں۔ عموماً 80 سال تک زندہ رہتے ہیں۔ ان کے اوپر کا حصہ چھتری نما گھنے اور سرسبزوشاداب پتوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ یہ قسم سال میں تقریباً 200 ناریل پیدا کرتی ہے۔

 پاناما ٹیل کوکونٹ

اس قسم کے پودے بھی سائز میں تقریباً 30 میٹر یعنی 90 فٹ تک بڑھتے ہیں۔ انہیں پرورش پانے کے لیے مناسب درجۂ حرارت ، زرخیز مٹی اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قسم اپنی لمبائی اور سختی کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ ہوا کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے۔ پاناما ٹیل ان جگہوں کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے جہاں اکثر طوفان آتے ہیں۔ اس کی شکل جمائیکن ٹیل سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے درخت چھتری نما ہوتے ہیں۔

  ٹپٹور ٹیل کوکونٹ

اس قسم کا اصلی وطن ہندوستان ہے۔ اس قسم کو بھی پرورش پانے کے لیے سورج کی روشنی، زرخیز مٹی اور مناسب پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب سے آسانی سے اگنے والی قسم ہے۔ اسے ایک بار لگانے کے بعد کسی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ قسم تقریباً ہر سال 70 سے 80 ناریل پیدا کرتی ہے۔ ماہرین نباتات کے مطابق یہ قسم ہر سال قابل اعتماد فصل پیدا کرتی ہے۔

 ڈیورف کوکونٹ پامز

ناریل کی یہ قسم قدوقامت میں چھوٹی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹی عمر اور سائز میں پھل پیدا کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس قسم کے پودے صرف ایک یا دو میٹر یعنی 10 فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔

 کنگ کوکونٹ

اس قسم کے پودے سائز میں تقریباً 10 میٹر یعنی 34 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ ان پودوں کو بڑھنے کے لیے مناسب درجۂ حرارت، مناسب مٹی اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

 یہ سری لنکا میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سری لنکا اور ہندوستان کی سڑکوں پر قریب سے نظر آتے ہیں۔ ناریل ان ممالک کی خوراک کا اہم حصہ ہیں۔ یہ قسم دیکھنے میں خوش نما چمک دار اور نارنجی رنگ پر مشتمل ہوتی ہے۔ ناریل کی اس قسم میں دیگر اقسام کے علاوہ پانی بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کنگ ناریل میں شوگر کی زیادہ مقدار ڈی ہائیڈریشن کے زوال پذیری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا پانی پینے سے تازگی کا احساس ملتا ہے۔

  فجی ڈیورف کوکونٹ

یہ قسم سائز میں تقریباً 8 میٹر یعنی 25 فٹ تک لمبی ہوتی ہے۔ اس کا اصل وطن فجی ہے۔ 1970 کی دہائی میں فلورائیڈا اور کیروبین میں ناریل کی لمبی کس میں زرد ہونے کی وجہ سے مہلک بیماری کا شکار ہوگئی تھی۔ صرف چند دہائیوں میں اس کی ساری نسل تباہ ہو کر رہ گئی تھی۔ اس لیے متبادل قسم کی اشد ضرورت تھی۔ یہ پودا بھی چھوٹی عمر میں پھل دیتا ہے۔ اس پودے کو زیادہ تر اونچائی میں پھل لگتا ہے۔

 ملیان ییلو ڈیورف کوکونٹ

اس نسل کے پودے 20 میٹر یعنی 30 سے 60 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ اس قسم کو بھی حسب معمول سورج کی روشنی، زرخیز مٹی اور مناسب پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قسم زیادہ تر ملائیشیاء میں پائی جاتی ہے۔ یہ بہت پرانی قسم ہے جو تقریباً 1800 کی دہائی کے آخر میں کاشت کی گئی تھی۔ یہ چند سال بعد پھل دینا شروع کردیتی ہے۔ ملیان کا پھل پوری دنیا میں خاص طور پر تھائی لینڈ، براذیل اور بحرالکاہل کے جزائر میں پائے جاتے ہیں۔

 گولڈن ملیان ڈیورف کوکونٹ

یہ قسم بھی ملائشیا میں پائی جاتی ہے۔ عموماً اس قسم کے پودے 10 سے 20 میٹر یعنی 30 سے 60 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ یہ پیلے رنگ کی بجائے نارنجی رنگ کے ناریل پیدا کرتے ہیں۔ یہ سائز میں قدر بڑے ہوتے ہیں۔

 گرین ڈیورف کوکونٹ

یہ ناریل کی ایک الگ قسم ہے۔ پچھلی دو اقسام کی طرح اس کا اگانا کافی آسان ہے۔ یہ قسم سبز ناریل پیدا کرتی ہے۔ اس میں پانی کم اور گودا زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا پھل دوسری اقسام کی طرح لمبا ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر ملائیشیا میں پیدا ہوتی ہے۔

 میکا پونو کوکونٹ

میکاپونو ناریل کی ایک نئی قسم ہے جو 1930 کی دہائی میں جینیاتی تبدیلی کی وجہ سے اگائی گئی تھی۔ تبدیلی کی وجہ سے پھل کا اینڈو سپرم غیرمعمولی طور پر نشوونما پاتا ہے، جس کی وجہ سے ناریل میں پانی نہیں ہوتا۔ اس کا گودا ناقابل یقین حد تک نرم، رس دار اور میٹھا ہوتا ہے۔ یہ نسل زیادہ تر فلپائن میں پیدا ہوتی ہے۔

 چندر کلپا کوکونٹ

اس قسم کا بھی اصلی وطن ہندوستان ہے۔ اسے نشوونما کے لیے سورج مٹی اور پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ قسم مٹی کی معمولی قسموں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ بہت مشہور قسم ہے۔ ہر سال سو سے زائد قابل اعتماد ناریل پیدا کرتی ہے۔ اس کے پودے ہر قسم کی مٹی میں بڑھ سکتے ہیں۔ نمی کو آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں۔

 چوگاٹ اورنج ڈیورف کوکونٹ

یہ قسم تقریبا تین سے چار سال بعد پھل پیدا کرنا شروع کردیتی ہے۔ اوسطاً 50 سال تک زندہ رہتی ہے۔ یہ بڑے نارنجی ناریل پیدا کرنے کے لیے مشہور ہے۔ یہ قسم اپنے سائز اور ذائقے کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس کے درخت 5 میٹر یعنی 16 فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر کیرالہ بھارت میں پیدا ہوتے ہیں۔

 میپان کوکونٹ

یہ قسم اپنی قدوقامت میں 20 میٹر یعنی 60 فٹ تک لمبی ہوتی ہے۔ ان پودوں کو مناسب نشوونما کے لیے سورج مٹی اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قسم ایک بیماری کے نتیجے میں کاشت کی گئی۔ اس قسم نے بیماری کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔  

مجموعی پیداوار

2022 کے اعدادوشمار کے مطابق ناریل کی سپلائی کا تقریباً 73 فی صد حصہ انڈونیشیا، انڈیا اور فلپائن کے پاس موجود ہے۔ اس کی عالمی پیداوار 62 ملین ٹن ہے۔ مجموعی صورت حال کچھ یوں ہے:

ملک کا نام / پیداوار ملین ٹن

٭   انڈونیشیا ……………………      17.

2

٭   فلپائن ……………………        14.9

٭   انڈیا ……………… ……          13.3

٭   برازیل ……………… ……      2.7

٭   ویت نام ……………… …       1.9

٭   کل پیداوار …………………    62.4

غذائی حقائق

یو ایس ڈی اے (USDA) کی رپورٹ کے مطابق ناریل میں مندرجہ زیل غذائی اجزا پائے جاتے ہیں:

٭   کیلوریز ……………………       354

٭   ٹوٹل فیٹ…………………      33 گرام

٭   شوگر………………………       6 گرام

٭    کولیسٹرول…………………     0 ملی گرام

٭    سوڈیم ……………………        20 ملی گرام

٭    پوٹاشیم ……………………       356 ملی گرام

٭    ٹوٹل کاربوہائیڈریٹس ……………        15 گرام

٭   ڈائٹری فائبر …………………  9 گرام

٭    پروٹین ……………………       3.3 گرام

٭    وٹامن سی …………………      5 %

٭    آئرن ……………………        13 %

٭    وٹامن بی سکس ………………  5 %

٭    مگنیشیم ……………………       8 %

٭    کیلشیم ……………………         1 %

٭    وٹامن ڈی…………………     0 %

فائٹو کیمیکل کمپاؤنڈ

ناریل میں مندرجہ ذیل فائٹو کیمیکل مرکبات پائے جاتے ہیں:

٭   Flavonoids

٭    Saponins

٭    Tannis

٭    Phenols

٭    Steroids

٭    Alkaloids

٭    Anthraquinones

٭    Phytosterols

٭    Triterpenes

٭    Leucoanthocyanidins

طبی فوائد

طبی ماہرین کے مطابق ناریل کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں:

 دل کو صحت مند رکھنے کے لیے

ناریل ایچ ڈی ایل اور ایل ڈی ایل دونوں قسم کے کولیسٹرول کے لیے مفید ہے۔ ایسے افراد جو ہائی بلڈ پریشر کا شکار رہتے ہیں ان کے لیے ناریل کا پانی رحمت ایزدی ہے، کیوںکہ اس میں پوٹاشیم خاصی مقدار میں پایا جاتا ہے، جو دل کی صحت اور بڑھے ہوئے بلڈپریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔

 ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے

ناریل کے تقریباً ایک کپ میں 19 گرام کیلشیم پایا جاتا ہے جو ہڈیوں کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جو لوگ روز مرہ زندگی میں کیلشیم کی مقدار نہیں لیتے ان کی ہڈیاں کم زور ہوجاتی ہیں۔ ایسے لوگوں میں عموماً قبل ازوقت آسٹیو پراسس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

 بڑھی ہوئی تیزابیت

معدے میں بڑھی ہوئی تیزابیت سے نجات پانے کے لیے ناریل کا پانی نعمت خداوندی ہے۔ اس پانی میں پائی جانے والی الکلائن جسم میں موجود پی ایچ لیول کو متوازن رکھتی ہے۔ اس کے باقاعدہ استعمال سے پی ایچ کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ناریل کے پانی میں دیگر خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں جو کئی پاک پیچیدہ مسائل سے نجات دلاتی ہیں۔

 جلدی امراض سے چھٹکارا

ناریل جلدی امراض اور خاص طور پر خشکی جیسے مسائل کا تدارک بھی کرتا ہے، چوںکہ ناریل کا پانی جلد کی دل کشی اور چمک میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خشکی اور متعلقہ امراض سے چھٹکارا پانے کے لیے ناریل کا پانی ایک بہترین حل ہے۔

 شوگر کے مرض میں

ناریل کے پانی میں یہ خصوصیت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ شوگر کے لیول کو متوازن رکھنے میں عام کردار ادا کرتا ہے، چوںکہ اس کے پانی میں مگنیشیم پایا جاتا ہے جو شوگر کے ٹائپ ٹو مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔

 اعصابی کم زوری دور کرنے کے لیے

پوٹاشیم ایک ضروری اور اہم منر الیکٹرولائٹ ہے۔ یہ پٹھوں کو صحت مند بناتا ہے۔ انہیں توانائی فراہم کرتا ہے۔ ناریل کے پانی میں چوںکہ پوٹاشیم کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے، لہٰذا اسے باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے اعصابی کم زوری دور ہوجاتی ہے۔

  انرجی ڈرنکس کا بہترین متبادل

بہت سے لوگ مُٹاپے سے نجات حاصل کرنے کے لیے سخت ورزش کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں زیادہ انرجی کی ضرورت پڑتی ہے۔ انرجی کی سطح بڑھانے کے لیے لوگ مصنوعی مشروبات کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر مصنوعی مشروبات کی جگہ ناریل کا پانی استعمال کرلیا جائے تو زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں، کیوںکہ ناریل کا پانی مذکورہ فوائد کے ساتھ ساتھ جسم میں پانی کی کمی بھی دور کرتا ہے۔ اس لیے مصنوعی انرجی ڈرنکس کی جگہ ناریل کا پانی پینا زیادہ سودمند ہے۔

 ہائی بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کے لیے

ایسے افراد جو ہائی بلڈپریشر کا شکار رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی روزمرہ زندگی میں ناریل کا پانی بکثرت استعمال کریں تو ان کی نہ صرف خون کی گردش بہتر ہوجائے گی بلکہ ان کا بڑھا ہوا بلڈ پریشر بھی نارمل رہے گا، کیوںکہ نارمل بلڈ پریشر سے دل کی بیماریوں کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔

 جسمانی صحت

ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سو ملی گرام ناریل کے پانی میں تقریباً چھے ملی گرام مگنیشیم پایا جاتا ہے۔ مگنیشیم جسم کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ پروٹین بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اعصابی نظام میں بہتری لاتا ہے۔ بلڈشوگر کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ جب جسم میں مگنیشیم کی کمی ہوتی ہے تو جسم میں کم زوری ، تھکاوٹ اور متلی جیسی علامات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ جسم میں مگنیشیم کی مقدار بڑھ بھی جائے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوںکہ یہ آسانی کے ساتھ پیشاب کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے۔

 نظام انہضام کی بہتری کے لیے

ناریل کے پانی کو پیٹ کا سکون بخشنے والا مشروب تصور کیا جاتا ہے۔ اسے باقاعدگی سے استعمال کرنے سے کھانا جلد ہضم ہوجاتا ہے۔ قبض جیسے سنگین مسائل سے نجات مل جاتی ہے۔ ناریل کا پانی زیادہ تر ان لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے جو کسی بیماری کا شکار ہیں یا وہ کسی بھی قسم کی سرجری کے مراحل سے گزرے ہیں، کیوںکہ اس میں وٹامنز اور منرل خاصی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

 گردوں سے پتھری کا اخراج

گردوں کی پتھری سے چھٹکارا پانی کے لیے ناریل کا پانی بہت مفید مشروب ہے۔ گردوں میں پتھری عموماً اس وقت بنتی ہے جب آکزلیٹ اور کیلشیم اور کئی دوسرے مرکبات مل کر کرسٹل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور پھر گردوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر یا پتھریاں بن جاتی ہیں۔ طبی تحقیق کے مطابق ناریل کا پانی پیشاب کے ذریعے کلورائڈ، پوٹاشیم اور سائٹرایٹ زیادہ مقدار میں خارج کرتا ہے جس کی وجہ سے گردوں میں پتھری بننے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔   

احتیاطی تدابیر

ناریل کا استعمال کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

٭   اس کے زیادہ استعمال سے ہائی بلڈپریشر بڑھ سکتا ہے۔ خون میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔ نبض بے قاعدہ ہو سکتی ہے۔

٭   کچھ لوگوں کو متلی یا قے کی شکایت ہو سکتی ہے۔

٭   گردوں کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

٭   جو لوگ الرجی کا شکار ہیں انہیں ناریل کا پانی پینے سے گریز کرنا چاہیے۔

٭   ناریل کا زیادہ پانی پینے سے اس اسہال یا ڈائریا ہو سکتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق ناریل اس قسم کے پودے زرخیز مٹی اور ناریل کا پانی پانے کے لیے کرنے کے لیے کے لیے سورج میٹر یعنی ناریل میں کی وجہ سے کی مقدار میں پانی زیادہ تر میں پیدا ناریل کی ناریل کے گئی تھی کرتا ہے کا شکار کے ساتھ ہوتا ہے کے درخت قسم ہے ہر سال رنگ کی

پڑھیں:

بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟

راولپنڈی کے علاقے گلبرگ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں موجود گھر کے صحن میں قدم رکھتے ہی ایک چھوٹی مگر جاندار دنیا نے میرا استقبال کیا۔ کالی، بھوری، سفید اور سرمئی رنگ کی بلیاں صحن میں چھلانگیں لگاتیں، ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتیں اور کبھی کھیل کے نشے میں ایک دوسرے پر جھپٹتی نظر آئیں۔ ہر بلی کی حرکات میں ایک الگ شخصیت چھپی ہوئی تھی۔

کچھ بلیاں میری طرف لپکیں، جیسے یہ مجھے برسوں سے جانتی ہوں، اور کچھ اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں میں مصروف، جیسے دنیا کی ہر خوشی ان کی آنکھوں میں بسی ہو۔

مزید پڑھیں: بلیاں گھاس کیوں کھاتی ہیں؟ طویل تحقیق کے بعد حیران کن وجہ سامنے آگئی

ایک سرمئی بلی ایک کونے میں بیٹھی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی، بالکل جیسے صحن کی نگرانی کررہی ہو، اور ہر چھوٹی حرکت پر نظر رکھ رہی ہو۔ ایک سفید بلی معصومیت کی حد تک کھیل رہی تھی، اس کے چھوٹے چھوٹے قدم، نرم چھلانگیں اور بے ساختہ حرکات دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ لمحہ اس کے لیے وقت کا سب سے بڑا تحفہ ہو۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب ایک بلی میرے قریب آئی، اس کی آنکھوں میں ایک خاموش رفاقت تھی، ایک ایسا تعلق جو برسوں کی پہچان کی طرح محسوس ہوا۔ اس کے نرم لمس اور پرسکون انداز نے مجھے یہ یاد دلایا کہ بلیاں صرف جانور نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے احساسات اور یادوں کی حامل ایک جاندار دنیا ہیں۔

اس صحن میں قریباً 25 بلیاں موجود تھیں، لیکن ان میں سے ہر ایک کی اپنی الگ شخصیت تھی، ہر بلی کی حرکات، انداز اور کھیلنے کا طریقہ مختلف تھا۔ کچھ شرارتی اور چلبلی، کچھ معصوم اور پرسکون، اور کچھ بالکل خود میں مگن۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال اُبھرا کہ آخر وہ کون سی بلیاں ہوتی ہیں جو انسانوں کی سب سے جلدی دوست بن جاتی ہیں؟

’ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی‘

کیونکہ یہ واضح تھا کہ ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ سب بلیاں برابر فرینڈلی یا محبت بھری نہیں ہوتیں۔ یقیناً کچھ بلیاں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے قریب آنا پسند کرتی ہیں۔

کیونکہ کچھ اپنی دنیا میں مگن تھیں، اور میرے لاکھ چاہنے اور قربت دکھانے پر بھی کسی قسم کی نرمی برتنے کو تیار نہیں تھیں۔

ڈاکٹر قرۃ العین شفقت جو ان بلیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے، اسی طرح جانوروں کے رویے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ بلیاں فرینڈلی ہوتی ہیں۔ اور کچھ فرینڈلی نہیں ہوتیں۔

’کسی کو ٹچ کرنا اچھا لگتا ہے، اور کسی بلی کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ کسی کو گھلنا ملنا اچھا لگتا ہے، اور کسی کو زرا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ تو اس طرح ہر بلی کی اپنی پرسنالٹی ہوتی ہے۔ کسی کو صرف دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی بلی انسان دوست ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسی لیے جب کوئی ہمارے پاس بلی اڈاپٹ کرنے آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں بلی دے دیں۔ ہم انہیں کبھی بھی یوں نہیں دیتے بلکہ یہ بولتے ہیں کہ آپ آئیے ان کے ساتھ وقت گزاریں، جو بھی بلی آپ کے ساتھ گھل مل رہی ہے، ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔

’ہر نسل کی بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے‘

انہوں نے مزید کہاکہ کسی ایک بریڈ کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بریڈ ہیومن فرینڈلی ہے، کیونکہ ہر بریڈ کی ہر بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے۔ اگر ایک بریڈ کی بلی آپ کے ساتھ فوراً گھل مل گئی ہے، تو اس کا یہ ہرگرز مطلب نہیں ہے کہ اس بریڈ کی باقی بلیاں بھی اتنی ہی فرینڈلی ہونگی۔

’لوگ کہتے ہیں کہ ’جنجر کیٹس‘ فوراً آ جاتی ہیں، جبکہ بلیک کیٹس ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتیں، جبکہ ہمارے ہاں بلیک اور جنجر کیٹس دونوں ہیں۔ کچھ جنجر کیٹس بڑی خطرناک ہیں، جبکہ کچھ بلیک کیٹس بہت ہی زیادہ فرینڈلی، ہر کسی کی اپنی پرسنالٹی ہے، اور اسی بنیاد پر کوئی آپ کو ہاتھ لگانے دیتا ہے اور کوئی نہیں، ان کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔‘

بلیوں کی نسل اور ان کی شخصیت کے درمیان تعلق پر کئی سائنسی مطالعات موجود ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلسنکی کے محققین نے قریباً 5 ہزار 700 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا اور پایا کہ مختلف نسلوں کی بلیوں میں سرگرمی، شرمیلاپن، جارحیت اور سماجی میل جول میں واضح فرق ہوتا ہے۔

یہ فرق جزوی طور پر موروثی بھی ہیں، یعنی نسلوں کے درمیان یہ خصوصیات جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہیں۔

ایک اور مطالعہ، جو ’جرنل آف ویٹرنری بیہیویئر‘ میں شائع ہوا، میں 14 مختلف نسلوں کی 129 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا گیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بعض نسلیں انسانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور رفاقتی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سفنکس (Sphynx) نسل کی بلیاں سب سے زیادہ فرینڈلی پائی گئی ہیں، جبکہ مین کوون (Maine Coon) اور پرسین (Persian) نسلیں بھی انسانوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے میں مشہور ہیں۔

’بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش کا گہرا اثر ہوتا ہے‘

عام طور پر انسان دوست اور فرینڈلی بلیوں میں سفنکس، مین کوون، پرسین، برمی اور سیامی شامل ہیں۔ سفنکس بلیاں اپنی محبت اور توجہ کے لیے مشہور ہیں، مین کوون بڑی اور نرم مزاج ہونے کے باوجود اپنے مالک کے ساتھ گہرا رشتہ قائم کرتی ہیں، جبکہ پرسین پرسکون اور آرام پسند بلی ہے۔ برمی اور سیامی نسلیں بھی انسانی تعلقات میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں اور مالک کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں۔

لیکن قرۃ العین کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ صرف نسل ہی ہیومن فرینڈلی بلی کی ضمانت نہیں دیتی، بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش، اس کے بچپن سے سماجی تربیت اور انسانوں کے ساتھ تجربات بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا بلیاں بو سونگھ کر مالک اور اجنبی میں فرق کرسکتی ہیں؟

’لہٰذا، ایک فرینڈلی اور محبت کرنے والی بلی حاصل کرنے کے لیے نسل کے ساتھ ساتھ محبت اور مناسب تربیت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان بلیوں کی فیملی ہسٹری بھی بہت زیادہ معنی رکھتی ہے، کہ اس نے بچن سے بڑے ہوتے تک کیا کچھ دیکھا اور اس معاشرے میں محسوس کیا، یہ اس کی پرسنالٹی کا حصہ بن جاتا ہے، جس کو مد نظر رکھنا نہایت اہم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انسان دوست بلیاں بلیاں راولپنڈی قرۃ العین گلبرگ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ملک بھرمیں انڈسٹریل خام مال کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا،عاطف اکرام شیخ
  • عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید
  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • سینیٹ: 27ویں آئینی ترمیمی بل 7 نومبر کو پیش کیا جائے گا
  • سینیٹ: 27ویں آئینی ترمیمی بل 7 نومبر کو پیش کیا جائے گا
  • انگلینڈ اور ویلز کی جیلوں میں قید تقریباً 40 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انکشاف
  • ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم صبح 27ویں ترمیم لا رہے ہیں: رانا ثناء اللّٰہ
  • اسمارٹ فون کیلئے 2 کلو وزنی کیس متعارف، کمپنی نے وجہ بھی بتادی
  • بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات