جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جنوری 2025ء) شامی دارالحکومت دمشق سے بدھ 15 جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق شامی وزیر خارجہ الشیبانی نے کہا کہ ماضی میں شام میں خونریز خانہ جنگی کے باعث یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں پناہ لینے والے لاکھوں شامی باشندے وہاں محفوظ ہیں اور انہیں بہت جلد بازی میں ابھی شام نہیں لوٹنا چاہیے۔
شامی باشندے اب جرمنی سے واپس جائیں، سابق جرمن وزیر خزانہ
اسعد الشیبانی نے یہ بات جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک ایسے وقت پر کہی جب وہ شام کے دورے پر گئی ہوئی جرمنی کے ترقیاتی امور کی وفاقی وزیر سوینیا شُلسے سے ملاقات کرنے والے تھے۔
اس گفتگو میں الشیبانی نے کہا کہ جن شامی مہاجرین کو جرمنی نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے، وہ دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک میں پھیلے ہوئے شامی پناہ گزیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر حالات میں ہیں۔
(جاری ہے)
نصف سے زیادہ شامی بچے تعلیم سے محروم
جرمنی میں شامی پناہ گزیوں کی تعداد تقریباﹰ ایک ملینجرمنی میں مقیم شامی باشندوں کی موجودہ تعداد تقریباﹰ ایک ملین بنتی ہے۔ ان قریب نو لاکھ 75 ہزار شامی شہریوں کی بڑی اکثریت مہاجرین کے طور پر جرمنی آئی تھی۔
ترکی سے وطن لوٹنے والے شامی پناہ گزینوں کی نئی جدوجہد
ان کی اپنے وطن سے رخصتی کی وجہ وہ خونریز خانہ جنگی بنی تھی، جو ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی تھی اور جس میں مجموعی طور پر لاکھوں انسان مارے گئے تھے۔
وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر ابھی حال ہی میں یہ تجویز دے چکی ہیں کہ جرمنی میں مقیم شامی پناہ گزینوں کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ حسب خواہش ایک بار اس طرح واپس اپنے وطن جا کر لوٹ سکیں کہ یوں ان کی جرمنی میں پناہ گزینوں کی موجودہ حیثیت متاثر نہ ہو۔
کچھ شامی باشندوں کو جرمنی سے جانا پڑ سکتا ہے، وزیر داخلہ
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق وہ شامی مہاجرین کو یہ اجازت دیے جانے کی حامی اس لیے ہیں کہ ایسے شامی باشندے واپس جا کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ ان کے ملک میں موجودہ مجموعی صورت حال کیسی ہے۔
برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق نینسی فیزر کی اس تجویز کی روشنی میں اب متعلقہ حکام کے لیے ان ہدایات کو حتمی شکل دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جنہیں ایسے شامی مہاجرین کی سفری درخواستوں پر فیصلے کرنا ہوں گے، جو واپس شام جا کر وہاں کے موجودہ حالات کا ذاتی طور پر جائزہ لینا چاہتے ہوں۔
م م / ع ا (ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شامی پناہ
پڑھیں:
غیر ملک کو اپنا بنائیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) 2024 ءکے ڈیٹا کے مطابق جرمنی میں تقریبا 20 فیصد آبادی تارکین وطن کی ہے۔ جرمن حکومت کی طرف سے نئے آنے والے افراد کی آباد کاری بہت پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں۔ مگر اکثر خاندان اپنی لاعلمی کی وجہ سے زبان اور ہنر سیکھنے یا حلقہ احباب بنانے اور اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے مواقع گنوا دیتے ہیں۔
اکثر اوقات گھریلو خواتین کے لیے بیرون ملک رہنا زیادہ دشوار ثابت ہوتا ہے۔ گھر کی ذمہ داری اور اپنوں سے دوری بہت سے ذہنی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ نئی جگہ پر جلد ایک سماجی حلقہ بنانا، زبان، نئے اصول و ضوابط سیکھنا اور سب سے بڑھ کر اپنے شوہر کے ساتھ زندگی صفر سے شروع کرنا اکثر سوچ سے زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
ایسی صورتحال میں خواتین کا خود اپنا اکیلا پن دور کرنے کے لیے اور نئے کلچر اور ملک میں جگہ بنانے کے لیے فعال کردار ادا کرنا نہایت اہم ہے۔
پاکستان سے آنے سے پہلے ہی اپنا مکمل ہوم ورک کر کے جس قدر ممکن ہو زبان اصول اور قانون سیکھ لینے چاہییں۔ جرمن حکومت کی طرف سے دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے شہریوں کے لیے انٹیگریشن یا انظمام کے بہت سے پروگرام موجود ہیں مگر زیادہ تر لوگ ان کا علم نہیں رکھتے۔تقریبا تمام شہروں میں فیملی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ یہ خاندانی مراکز شہر میں موجود کنڈر گارٹن، ڈے کیئر اور مختلف بے بی گروپ کے منتظمین ہیں۔
یہ مراکز دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے خاندانوں کے لیے بہت سے مواقع فراہم کرتے ہیں جن میں سب سے اہم جرمن لینگویج کیفے کا انتظام ہے۔ جہاں ایک پرسکون ماحول میں مل کر بیٹھنا اور زبان سیکھنے کا بالکل مفت موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف مشاغل کی بنیاد پر مل کر کھانا بنانا، سلائی سیکھنا، ورزش کے کورس، اکٹھے سیر پہ جانا وغیرہ ان مراکز کی پیشکش میں شامل ہے۔ ایک بہت اہم پروگرام جس کا علم رکھنا ہر چھوٹے بچوں والے خاندان کے لیے ضروری ہے وہ ہیں بچوں کے بے بی گروپ جو پیدائش سے تین سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ گروپ نا صرف والدین خاص تر ماؤں کو مل بیٹھنے، زبان سیکھنے اور سوشلائز کرنے کے مواقع دیتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ماہرین چھوٹے بچوں کی نشونما میں آنے والے اہم سنگ میل سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ تمام پروگرام بالکل مفت ہیں۔جرمنی میں بڑھتی ہوئی ایک مثبت تبدیلی مختلف مذہبی تہوار کا انتظام بھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کرسمس کے علاوہ کسی بھی تہوار کے لیے خاص انتظام دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے یہی فیملی سینٹر عید الفطر جسے جرمن میں سکرفیسٹ کہا جاتا ہے، کا باقاعدہ انتظام کرتے ہیں۔ کچھ سکولوں یا کنڈر گارٹن میں رمضان میں ایک دفعہ افطار کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
مل کر بیٹھنا مہندی لگانا، دوستانہ ماحول میں مختلف تہذیبوں سے متعلق سیکھنا بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے تمام مواقع ایک دوسرے کے لیے احترام اور برداشت پیدا کرتے ہیں اس لیے بہت ضروری ہے کہ اگر جرمن حکومت ہمیں بتا رہی ہے کہ ہم مسلمان اہمیت رکھتے ہیں تو ہم اس کوشش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے مذہب اور اپنے ملکوں سے جڑے متعصبانہ خیالات کو جڑ سے ختم کریں۔اسی طرح یہ علم رکھنا ضروری ہے کہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے کیا کیا مدد ممکن ہے۔ مختلف مشاغل اور سپورٹس کے بہت سے مواقع ہیں، جن کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے تارکین وطنوں کے لیے خاص ایکٹو کارڈ بھی جاری کیے گئے ہیں جن کے ذریعے وہ زیادہ تر سیر و تفریح اور سپورٹس کے پروگرام پر خاص رعایت حاصل کر سکتے ہیں۔
مختلف فیس بک گروپس پر دیسی کمیونٹی سے جڑ کر رہا جا سکتا ہے اور اس طرح بہت سی معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
گھر سے نکل کر تازہ ہوا میں سانس لینا اور ایک قابل بھروسہ دوستانہ حلقہ ہونا بہت ضروری ہے ورنہ تنہائی کا احساس اکثر منفی سوچ کو جنم دیتا ہے۔ یہاں یہ نقطہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے لوگوں سے روابط میں ضرور رہیں مگر اپنا سماجی حلقہ صرف پاکستانیوں تک محدود نہ کریں۔ اپنے سماجی حلقے اور اپنی سوچ دونوں کو اتنا وسیع ضرور کریں کہ کچھ نیا سیکھنا اور آگے بڑھنا ممکن رہے۔مثبت رویہ قائم رکھنے کے لیے اور اپنی ذہنی صحت بہتر بنانے کے لیے فعال طور پر بہت سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو ایک دوسرے کو اسپیس دینے اور اپنی زندگی خود کامیاب اور خوشگوار رکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔