پشاور؛ سی این جی اسٹیشن 19 جنوری تک بند کردیے گئے
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
پشاور:
پشاور میں سوئی گیس پریشر میں کمی کے باعث دفعہ 144 کے تحت سی این جی اسٹیشنز کھولنے پر پابندی عائد کردی گئی، 19 جنوری تک سی این جی اسٹیشن بند رہیں گے۔
ڈپٹی کمشنر پشاور کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق گھریلو صارفین کو سوئی گیس پریشر میں کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، گھریلو صارفین کو سوئی گیس فراہمی کے لیے شہر میں سی این جی اسٹیشنز پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
دفعہ 144 کے تحت سی این جی اسٹیشن کھولنے پر پابندی ہوگی اور سی این جی اسٹیشن 19 جنوری تک بند رہیں گے، خلاف ورزری پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب سی این جی اسٹیشن بند ہونے سے رکشہ ڈرائیورز نے سلنڈر گیس کا استعمال شروع کردیا ہے جس کے باعث رکشہ کے کرائے بڑھا دیے ہیں۔
سی این جی اسٹیشن بند ہونے سے شہر میں سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کا رش بھی کم رہا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سی این جی اسٹیشن
پڑھیں:
پشاور، ڈرگ فری مہم میں مبینہ بے قااعدگیوں کا انکشاف
پشاور:ڈرگ فری پشاور مہم میں مبینہ بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے اور محکمہ سماجی بہبود کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی معطل کر دیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ ڈرگ فری پشاور مہم میں مبینہ بے قاعدگیوں سے متعلق رواں سال ستمبر میں انکوائری شروع کی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق ڈرگ فری پشاور مہم پر پہلے مرحلے پر 32 کروڑ، دوسرے اور تیسرے مرحلے پر 16 کروڑ روپے کے اخراجات آئے تھے جبکہ مہم کو سابق صوبائی وزیر اور ڈپٹی کمشنرکے دور اقتدار میں شروع کیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈرگ فری پشاور منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں اور کرپشن پر مزید ملازمین کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی، ملازمین پر ڈرگ فری پشاور مہم میں من پسند نجی تنظیموں کو ٹھیکے دینے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
سیکریٹری سماجی بہبود نذر محمد کے مطابق منصوبے کی مجموعی لاگت 515 ملین تھی، منصوبہ تین فیز پر مشتمل تھا اور اسے مالی سال 23-2022 میں شروع کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ منصوبے کے تحت 4 ہزار 485 افراد کاعلاج کیا گیا ہے، منصوبے میں نجی بحالی سینٹرز اور نجی اسپتالوں کے ساتھ معاہدے طریقہ کار کے تحت کیے گئے، جس کے لیے باضابطہ مختلف ڈپارٹمنٹس کے نمائندہ افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تھی، انہوں نے باضابطہ وزٹ کرکے بحالی سینٹرز اور اسپتالوں کو منتخب کیا۔
سیکریٹری کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق صرف ایک سینٹر میں سینیٹیشن اور وینٹیلیشن کا مسئلہ تھا تاہم کسی قسم کی سرکاری پیسوں کی ادائیگی نہیں کی گئی، ادائیگی بہت سے کیسز میں معائنہ اور تصدیق کرکے ایڈجسٹمنٹ کے بعد کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمے کا آڈٹ اور ذمہ داری کا ربوسٹ سسٹم ہے، حتمی ادائیگی عائد کردہ جرمانوں کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد کی جاتی ہے۔
سیکریٹری نے تردید کرتے ہوئے وضاحت کی کہ پیسوں کی کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی ہے تاہم صرف پروسیجرل مسئلے ہیں۔