Express News:
2025-09-18@00:25:59 GMT

سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

2008 میں جنرل پرویزکی صدارت میں پیپلز پارٹی 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں 1993 کے بعد اقتدار میں آئی تھی اور اس نے سندھ میں اپنی واضح اکثریت سے حکومت بنائی تھی اور پی پی نے مسلم لیگ (ن) سے مل کر حکومت بنائی تھی جو چند ماہ ہی چل سکی تھی اور آصف زرداری نے (ن) لیگ کی علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو ملا کر گیلانی حکومت بنائی اور راجہ پرویز اشرف کی حکومتوں کی مدت پوری کرائی تھی۔

بلوچستان میں پی پی کا اور کے پی میں اے این پی کے ساتھ اتحاد سے وزیر اعلیٰ تھے جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حکومت تھی اور پی پی کی سندھ حکومت واضح اکثریت سے مضبوط حکومت تھی، بعد کے تینوں انتخابات میں پی پی سندھ میں واضح اکثریت سے حکومتیں بناتی رہی اور موجودہ سندھ حکومت بھی واضح اکثریت کی حامل ہے جہاں 2018 میں پی ٹی آئی کا اپوزیشن لیڈر تھا اور اب ایم کیو ایم کا اپوزیشن لیڈر ہے اور سولہ برسوں میں قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنتے رہے اور چار حکومتوں میں وزارت اعلیٰ صرف سیدوں کو ملتی رہی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر دور میں سید قائم علی شاہ اور عبداللہ شاہ کے علاوہ ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، آفتاب شعبان میرانی بھی وزیر اعلیٰ پی پی حکومتوں میں رہے مگر سیدوں کو زیادہ اہمیت بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے سب سے زیادہ دی اور سندھ کا زیادہ اقتدار سیدوں کے پاس رہا اور مراد علی شاہ پی پی کی حکومتوں میں تیسرے سید وزیر اعلیٰ ہیں اور سب سے زیادہ عرصہ اقتدار بھی سیدوں کا ہے جو شاید آصف زرداری کی ذاتی پسند ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کا چوتھا اقتدار بھی بے حد مضبوط ہے اور سندھ کے ایک مضبوط سسٹم کے ساتھ چل رہا ہے اور موجودہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے سندھ سسٹم قرار دیا ہے۔

جمعہ دس جنوری کا سندھ اجلاس وہ منفرد اجلاس تھا جو میڈیا کے مطابق ایجنڈے کی کارروائی کے بغیر اسپیکر نے اس لیے ملتوی کر دیا کہ اس اجلاس میں صرف دو تین ارکان ہی موجود تھے جب کہ ایوان میں صرف پی پی ہی کے تقریباً ایک سو ارکان ہیں اور باقی ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے بھی کچھ ارکان ہیں مگر جمعہ کو بہ مشکل دو تین ارکان آئے اور کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مختصر وقت میں کورم کے باعث ملتوی ہوا۔

 سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کے وی لاگ کے مطابق ایسا نہیں تھا اور کافی ارکان ایوان میں موجود تھے جہاں اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی جو اسپیکر نے نہیں دی اور کورم نہ ہونے کے جواز پر اجلاس ملتوی کر دیا جس کے بعد ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر نے مقررہ مقام پر ارکان کے ہمراہ میڈیا ٹاک کی۔ ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سندھ اسمبلی کو وہ اسمبلی قرار دے چکے ہیں کہ جہاں اپوزیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی نہ انھیں ایوان میں بولنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔

موجودہ سندھ حکومت میں یوں تو کئی سینئر وزیر ہیں مگر تمام میں صرف ایک سینئر وزیر شرجیل انعام میمن ہی میڈیا میں چھائے نظر آتے ہیں جو سندھ کے وزیر اطلاعات ہونے کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور ایکسائز کے وزیر بھی ہیں۔ وزیر ٹرانسپورٹ کی حیثیت سے انھوں نے کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے بعض دیگر بڑے شہروں میں سندھ حکومت کی طرف سے مختلف بسیں چلوائی ہیں اور اب انھوں نے کراچی میں ڈبل ڈیکر بسیں چلوانے کا بھی اعلان کیا ہے اور وہ پی ٹی آئی سے متعلق دیگر وزیروں کے مقابلے میں زیادہ بیانات دیتے ہیں جن کی یہ بھی منفرد اہمیت ہے کہ وزیر اعظم کراچی آمد پر پہلی بار سینئر وزیر شرجیل میمن کے گھر انھیں دادا بننے کی مبارکباد دینے گئے۔

  سندھ حکومت میں پہلے بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو مشیر قانون اور حکومت سندھ کا ترجمان رکھا گیا اور انھوں نے موثر طور سندھ حکومت کی ترجمانی کی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پیپلز پارٹی کے پہلے میئر ہیں جنھیں سندھ حکومت نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود خصوصی طور پر میئر منتخب کرایا تھا جنھیں جماعت اسلامی منتخب نہیں مانتی اور انھیں قبضہ میئر قرار دیتی ہے جن کے پاس اکثریت نہیں تھی اور پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین میئر الیکشن والے دن غیر حاضر ہونے کے باعث وہ میئر منتخب ہو گئے تھے اور موجودہ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اکثریت حاصل کرنے کے لیے ممبران توڑ لینا عام بات ہے۔

سندھ حکومت نے ایک خاتون کے ساتھ سکھر کے اپنے میئر کو بھی اپنا ترجمان مقرر کیا ہوا ہے ، وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی اور دیگر سرکاری عہدیداروں نے بھی اپنے اپنے بندے رکھے ہوئے ہیں انھیں گاڑیاں اور سہولتیں ان کے اداروں سے مل جاتی ہیں مگر تنخواہیں کہاں سے ملتی ہیں اس کا پتا نہیں مگر پیپلز پارٹی اپنی حکومتوں اور ماتحت اداروں میں ملازمتیں دینے میں ہمیشہ فراغ دل رہی ہے۔ بجٹ اور جگہیں ہوں نہ ہوں مگر پی پی اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کرتی اور اسی لیے تمام بلدیاتی اور حکومتی اداروں میں ملازمین کی بھرمار ہے اور ہر جگہ فاضل عملہ رکھا جاتا ہے جنھیں ماضی میں (ن) لیگ کی حکومت فارغ بھی کردیتی تھی۔

ایم کیو ایم پی پی کی ملازمتیں دینے کی اس فیاضی کو جانبدارانہ اور مخصوص قرار دیتی ہے اور اپنے لوگوں کو ملازمتیں نہ دینے پر احتجاج کرتی ہے جواب میں پی پی کے وزیر یہی الزام ایم کیو ایم پر دہرا دیتے ہیں کہ ماضی میں انھوں نے بھی یہی کیا تھا اور اپنے ماتحت اداروں میں اپنے لوگ بھرے تھے۔ سندھ میں سولہ برسوں سے پیپلز پارٹی کو اقتدار ایسے ہی نہیں مل رہا وہ اپنوں کو ہمیشہ نوازتی رہی ہے یہ خوبی مسلم لیگ (ن) میں تو ہے ہی نہیں وہ اپنوں کو نوازنے پر کم اور کارکردگی پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ سندھ کے قوم پرست بھی پی پی کی اسی فیاضی پر خوش ہیں اور تنقید نہیں کرتے مگر پی پی حکومت کی مجموعی کارکردگی پر مطمئن نہیں اور تنقید کرتے آ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر واضح اکثریت پیپلز پارٹی ایم کیو ایم سندھ حکومت وزیر اعلی پی ٹی آئی انھوں نے پی پی کی علی شاہ سندھ کے تھی اور ہیں مگر ہونے کے ہیں اور ہے اور میں پی

پڑھیں:

سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں ڈاکو راج کے خاتمے اور امن قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں سے بات کرنے کے بجائے آپریشن تیزکرنے کا فیصلہ عوام کے ساتھ مذاق ہے۔سندھ کے عوام نے بدامنی اور ڈاکو راج کے خلاف کشمور سے کراچی اور اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کیے لیکن حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی جو کہ بیڈگورننس اور بے حسی کی انتہا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ سالانہ بجٹ میں سیکورٹی اورپھر ڈاکوئوں کے خاتمے کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے عوام امن کو ترس رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ پانی کم ہوا تو آپریشن کیا جائے گا، اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ڈرون کے ذریعے آپریشن کیا جائے گا اور کبھی پنجاب چلے جانے کا ڈراما کیاجاتا ہے۔ اسی طرح وزیر داخلہ، آئی جی سندھ پولیس کے مختلف بیانات ہیں۔ اب ایک بار پھر وزیراعلیٰ کی جانب سے الگ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ یہ حکومت ہے یا مذاق؟ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ حکمران جماعت کے بااثر رہنماؤں اور مشیروں کی جانب سے مجرموں کی رہائی اور ڈاکوؤں کو خطرناک ہتھیاروں کی فراہمی سے کیوں بے خبر ہیں؟ یہ سب کچھ تو پہلے ہی میڈیا دے چکا ہے۔ شکارپور کے ایک پولیس افسر کی جانب سے ڈاکوئوں کوپیپلز پارٹی سے وابستہ وڈیروں کے بنگلوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کی رپورٹ کہاں غائب کی گئی؟ انہوں نے کہا کہ اگر مراد علی شاہ سندھ میں قیام امن اور ڈاکوئوراج ختم کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں خالی خولی بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تو پارٹی کے ان بااثر لوگوں کے گلے میں پھندا ڈالنا چاہیے جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں اور منافع کے لیے اغوا کی وارداتیں کراتے ہیں اور پھر پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے بے رحمانہ آپریشن کیا جائے، تاکہ عوام کو جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی جائے اور سندھ میں امن بحال ہو۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کر دی
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • ایک شخص نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پی ٹی آئی کو کرش کیا، عدلیہ کو اپنے ساتھ ملالیا، عمران خان