سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی پی ٹی آئی سے علیحدگی کے بعد سخت وقت میں سیاسی مخالفین کو ٹف ٹائم دے کر کارکنوں کو ایک ہی صف میں لانے والے علی امین گنڈاپور اور کارکنوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں، جس کی وجہ وزیراعلیٰ کی سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں ہیں۔

پارٹی کے نظریاتی و اسٹیبلشمنٹ مخالف رہنماؤں اور علی امین گنڈاپور میں شدید اختلافات اور گروپ بندی کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ مخالف گروپ کا خیال ہے کہ ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے وفادار رہنما شکیل خان کو کابینہ سے علی امین گنڈاپور کی پالیسیوں کے خلاف بولنے اور کابینہ کے ساتھ کور ہیڈکوارٹر جانے کی مخالفت پر نکالا گیا۔ تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ انہیں کرپشن کے الزامات پر فارغ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات کا انکار کیوں کیا؟بیرسٹر گوہر نے بتادیا

’علی امین ڈبل کردار ادا کررہے ہیں‘

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف رہنماؤں کی نجی محفلوں میں باتیں اور تنقید عام بات ہے۔ اور کچھ رہنماؤں نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کی کوششیں بھی کی تھیں تاکہ صورت حال سے انہیں آگاہ کیا جا سکے۔

پاکستان تحریک انصاف یوتھ ونگ رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وی نیوز‘ سے بات کی اور بتایا کہ وزیراعلیٰ کی پالیسیوں پر پارٹی میں شدید تحفظات ہیں۔ ’جب ہماری حکومت بنی تھی تو علی امین نے وعدہ کیا تھا کہ احتساب ہوگا۔ ظلم کرنے والوں سے حساب لیا جائے گا لیکن اب وہ ان کا استقبال کررہے ہیں۔‘

یوتھ رہنما نے بتایا کہ پارٹی میں سب کی رائے ہے کہ مقتدر حلقوں کی ایما پر عمران خان کو جیل میں ڈالا گیا ہے اس کے باوجود علی امین ان کا استقبال کررہے ہیں اور ملاقاتیں بھی کی جارہی ہیں۔ ’پارٹی کارکنان چاہتے ہیں کہ علی امین وفاقی حکومت سمیت مخالفین کو سخت وقت دیں، ان کے ساتھ رابطہ نہ رکھیں۔ ان کے کہنے پر سب نکلنے کو تیار ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ڈبل رول ادا کررہے ہیں۔‘

ایک اور سینیئر رہنما اور رکن اسمبلی کے مطابق صوبائی حکومت کی پالیسیوں سے کارکنان خوش نہیں ہیں۔ ان کے کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر گپ مارتے ہیں لیکن فنڈز کی بات آتی ہے تو وفاق پر الزام لگاتے ہیں۔ ’ہم سادہ سوال کرتے ہیں جب وہ آپ کو فنڈز نہیں دیتے اور عمران خان کو رہا بھی نہیں کرتے تو پھر آپ ان سے ملاقات ہی کیوں کرتے ہیں، یہ ہمارے زخمیوں پر نمک پاشی ہے۔‘

پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے بتایا کہ حکومت سے پہلے انہیں جیل جانا پڑا، روپوش رہے، قربانی دی لیکن حکومت بننے کے بعد جو آزادی کی امید پیدا ہوئی تھی اب ختم ہوگئی ہے۔

’محسن نقوی، شہباز شریف اور مقتدر حلقے 26 نومبر کے ذمہ دار ہیں‘

پارٹی رہنما نے بتایا کہ 26 نومبر کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار محسن نقوی ہیں جنہوں نے شہباز حکومت اور مقتدر حلقوں کی ایما پر کارکنوں پر گولیاں چلوائیں، لیکن وہ جب بھی پشاور آتے ہیں شاہی مہمان بن جاتے ہیں، علی امین ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان کا اقتدار گرانے والے علی امین کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ ’ہمیں عمران خان کی رہائی کا انتظار ہے، جب وہ باہر آئیں گے ہمیں امید ہے احتساب ہوگا۔‘

انہوں نے کہاکہ 9 مئی 2023 سے لے کر 26 نومبر 2024 تک پارٹی کارکنان نے ظلم برداشت کیا، اور عمران خان کے لیے باہر نکلے، جیل گئے، لیکن انہیں سمجوتے کی امید نہیں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ بنتے ہی علی امین گنڈاپور نے آلہ کار سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بات اعلان سے آگے نہیں بڑھی۔ ’افسوس کی بات ہے کہ علی امین، آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری تک کو تبدیل نہیں کرا سکے، یہ طاقت ور لوگوں کا کیا بگاڑ سکیں گے۔‘

کیا عمران خان صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟

حکومتی ترجمان صوبائی حکومت اور علی امین کی کارکردگی اور پالیسیوں کو عمران خان کا نظریہ قرار دے رہے ہیں۔ بیرسٹر سیف کے مطابق علی امین عمران خان کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں اور صوبائی اور پارٹی امور کے حوالے سے ہدایات لیتے رہتے ہیں، انہیں بانی پی ٹی آئی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم اور مزمل اسلم سے پوچھا گیا کہ کیا بانی چئیرمین عمران خان صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ علی امین عمران خان کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں۔ جبکہ مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ عمران خان کپتان ہیں، کس کھلاڑی کو کس وقت موقع دینا چاہیے وہ خوب جانتے ہیں اور باہر آتے ہی وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

سیاسی مخالفین سمیت اہم ملاقاتوں پر علی امین خود کیا کہتے ہیں؟

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی اعلیٰ ملاقاتوں پر اکثر سوشل میڈیا پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تاہم رہنما کھل کر بات نہیں کرتے، جبکہ صوبائی وزرا ان ملاقاتوں کو ورکنگ ریلیشن کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

علی امین گنڈاپور نے گزشتہ دنوں نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ملاقاتوں پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی محسن مقوی سے ملاقات ہوئی تو ان سے 26 نومبر کے حوالے پوچھا۔ ’محسن نقوی سے کئی بار پوچھا کہ آخر گولی کیوں چلائی۔‘

یہ بھی پڑھیں آرمی چیف سے علی امین اور بیرسٹر گوہر کی ملاقات میں سیاسی گفتگو نہیں ہوئی، سیکیورٹی ذرائع

انہوں نے اعلیٰ سطح اجلاس میں شہباز شریف سے تلخی کا بھی ذکر کیا۔ تاہم وزیراعلیٰ نے مقتدر حلقوں سے قربت پر کوئی بات نہیں کی جس پر کارکنان شدید تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی پی ٹی آئی تحفظات پی ٹی آئی کارکنان عسکری قیادت علی امین گنڈاپور عمران خان کارکنان ناراض وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ پی ٹی ا ئی پی ٹی ا ئی تحفظات پی ٹی ا ئی کارکنان عسکری قیادت علی امین گنڈاپور کارکنان ناراض وی نیوز علی امین گنڈاپور صوبائی حکومت کہنا تھا کہ کررہے ہیں پی ٹی ا ئی کے ساتھ

پڑھیں:

ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ ہماری سیاسی کوششوں کو ’مائنس فارمولے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جیسے یہ عمران خان کو کمزور کرنے یا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قبضہ کرنے کی سازش ہو، واضح رہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر ممکن ہی نہیں، وہ اس کے بانی، چہرہ اور قوت ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ محمود مولوی، فواد چوہدری اور میں نے جو کاوش کی ہے یہ کسی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے کہ جس کے تحت پاکستانی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مفاہمت کی طرف واپس لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور مسلسل احتجاج کی سیاست نے پی ٹی آئی کے لیے صرف گرتی ہوئی سیاسی گنجائش، گرفتاریوں اور تھکن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، جائزہ لیں اور دوبارہ تعمیر کریں۔ہم نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریبا سب نے تسلیم کیا کہ محاذ آرائی ناکام ہو چکی ہے اور مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔مزید لکھا کہ جب ہم نے کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز سے اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، تو دونوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ جمود ختم ہونا چاہیے، ان کا مطالبہ سیاسی سانس لینے کی معمول کی گنجائش تھا، سرنڈر نہیں۔

بدقسمتی سے رابطوں کی کمی، خوف اور سوشل میڈیا کی مسلسل گرمی نے پی ٹی آئی کے اندر کسی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔سابق گورنر کا کہنا تھا کہ دوسری طرف بیرونِ ملک بیٹھے کچھ خودساختہ اینکرز نے دشمنی اور انتشار کو ہوا دے کر اسے ذاتی مفاد کا کاروبار بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بڑھتی ہوئی سفارتی ساکھ نے پاکستان کے بارے میں دنیا کے تاثر کو بدل دیا، یہ توقع کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پوری نہیں ہوئی۔یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ تصادم اور احتجاج ہی درست راستہ ہے، تو وہ آگے بڑھے اور ہم میں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، بحث و مباحثہ خوش آئند ہے مگر اندھی محاذ آرائی مستقل سیاسی حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔

ہماری کوشش آزاد، مخلص اور صرف ضمیر کی آواز پر مبنی ہے، ہم چاہتے ہیں معمول کی سیاست بحال ہو، ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔اگر مفاہمت کو غداری سمجھا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، ہم دل سے پی ٹی آئی کی بقا اور پاکستان کے استحکام کے لیے سوچ رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے بھی یکم نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے اور وہ اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں سائیڈ یہ فیصلہ نہ کریں کہ انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور ایک نے قدم بڑھانا ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اُس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔اس سے قبل 31 اکتوبر کو فواد چوہدری، عمران اسمٰعیل اور محمود مولوی نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے لاہور میں اہم ملاقات کی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • گنڈاپور کو کیوں نکالا، کرپٹ تھے، نااہل یا میر جعفر؟ گورنر خیبر پختونخوا کا سوال
  • ایکسکلیوسیو سٹوریز اکتوبر 2025
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
  • یشونت سنہا کی قیادت میں وفد کی میر واعظ عمر فاروق سے ملاقات
  • شاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق
  • پی ٹی آئی کی سابق قیادت کا حکومتی وزرا اور فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا فیصلہ
  • شاہ محمود قریشی سے پارٹی رہنماوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی