دیو جانس کا منشور اور نئی دنیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
جون ایلیا نے دیو جانس کلبی کو اپنا مرشد کہا ہے۔ دیو جانس نے اپنے افکار اور منفرد انداز سے بہت لوگوں کو متاثر کیا۔ بے ثباتیِ کائنات کے احساس نے اس کی پوری شخصیت کو تشکیل دیا تھا۔ پھر کیایہ دنیا کیا اس کا عیش و آرام اور کیا اس کی نمائش۔ ہم اس سے مایوسی، قنوطیت سے تعبیر کر کے اتنے بڑے دبستان سے منہ نہیں موڑ سکتے۔
دیوجانس ، جو قدیم یونان کے فلسفیوں میں سے ایک ہے، اپنی منفرد شخصیت اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ ایک نمایاں مقام پر رہا ہے۔ اس کا تعلق سقراط کے فلسفیانہ مکتبہ فکر سے تھا اور وہ خود کو "سائنوک” کہلاتا تھا۔ یہ نام اس کے فلسفہ زندگی کی وضاحت کرتا ہے، جو سادگی، خود کفالت اور سماجی اصولوں سے بغاوت پر مبنی تھا۔
دیوجانس کی زندگی ایک ایسا مرقع تھی جس میں دنیاوی آسائشوں سے گریز اور فطری زندگی کی طرف واپسی کا پیغام واضح نظر آتا ہے۔ وہ ان لوگوں پر طنز کرتا تھا جو مال و دولت اور طاقت کی دوڑ میں اپنی حقیقی خوشی اور اپنا سکون کھو دیتے ہیں۔ دیو جانس کے مطابق، انسانی زندگی کا مقصد فطرت کے قریب رہنا اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے خوش رہنا ہے، نہ کہ ان خواہشات کے پیچھے بھاگنا جو کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
کہا جاتا ہے کہ دیوجانس کلبی کے پاس ایک لکڑی کا برتن تھا جسے وہ پانی پینے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ ایک دن اس نے ایک بچہ دیکھا جو اپنے ہاتھوں سے پانی پی رہا تھا۔ یہ دیکھ کر دیوجانس نے اپنا برتن توڑ دیا اور کہا کہ یہ بچہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے کیونکہ یہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اضافی چیزوں پر انحصار نہیں کرتا۔ یہ واقعہ دیوجانس کے فلسفہ سادگی کی عکاسی کرتا ہے۔ دیوجانس کی سب سے مشہور کہانی وہ ہے جب سکندر اعظم اس سے ملنے آیا۔ سکندر نے دیو جانس سے کہا کہ وہ اس کی کوئی خواہش پوری کر سکتا ہے دیو جانس نے چہرے پر سنجیدگی برقرار رکھی پوری شانِ بے نیازی سے کلام کیا: "ہاں، ذرا ایک طرف ہٹ جاؤ، کیونکہ تم میری دھوپ روک رہے ہو۔” یہ جواب ہر دور کے ثروت مندوں اور بادشاہوں کے نام دیو جانس کا ایسا مکتوب تھا جو ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ یہ دیوجانس کی بے نیازی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی کہ وہ دنیاوی طاقت کو کتنی حقیر نظر سے دیکھتا تھا۔
دیوجانس نے اپنی زندگی کے اکثر دن ایک بڑے مٹی کے برتن میں گزارے، جو اس کی رہائش گاہ تھی۔ وہ دنیاوی مال و دولت سے بے نیاز تھا اور لوگوں کو دکھاتا تھا کہ خوشی کے لیے یہ چیزیں ضروری نہیں ہیں۔ اس کا یہ طرزِ زندگی اکثر لوگوں کے لیے ایک مذاق کا باعث بنتا تھا، لیکن دیو جانس ان کی پروا نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنے عمل اور باتوں سے لوگوں کو ان کے دوہرے معیاروں اور سماجی رسم و رواج پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا تھا۔
دیو جانس کی شخصیت کا ایک اور دلچسپ پہلو اس کا طنز اور مزاح تھا۔ وہ لوگوں کی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے ان پر طنز کرتا تھا، لیکن اس کا انداز ایسا تھا کہ وہ لوگوں کو ہنسا بھی دیتا تھا اور سوچنے پر بھی مجبور کرتا تھا۔ اس کی باتوں میں گہری دانشمندی چھپی ہوتی تھی، اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ اپنے حقیقی مقصد کو پہچانیں اور ایک سادہ اور بامعنی زندگی گزاریں۔
دیو جانس کے فلسفے کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ جدید دنیا میں جہاں انسان مادیت پرستی کی دوڑ میں الجھا ہوا ہے، دیوجانس کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی خوشی سادگی اور خود کفالت میں ہے۔ اس کی زندگی اور خیالات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہم اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں، فطرت کے قریب رہیں اور اپنے اندرونی سکون کو تلاش کریں۔ دیو جانس کی کہانیاں اور اس کے فلسفہ کی سادگی ہمیشہ انسانی سوچ کو متاثر کرتی رہے گی، کیونکہ یہ ہمیں اپنی زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔اب دیو جانس کلبی کی شخصیت میں بس شانِ بے نیازی دیکھیے۔ یہ وہ خوبی ہے جو جدید دور نے کم و بیش مکمل طور پر ختم دی ہے۔ ایک شانِ بے نیازی کے ختم ہو جانے کی وجہ سے ہر نمائش کو جگہ دی اور احتیاج کو جنم دیا۔ قدم قدم پر محتاجی انسانی زندگی کا حصہ بنتی چلی گئی۔ نمائش نے زندگی کے سکون اور حقیقی خوشی کے تصور کو بے معنی کردیا۔ فی زمانہ جو حال انسان کے گھروں کا ہے اسی کا پرتو اس کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں، رنگا رنگ ڈیزائن، شیشوں سے بھری دیواریں اور گھروں کے اندر بے سکونی، انتشار اور بے چینی۔ چین کی نیند نہ خلوت۔ آپ موجودہ کلچر کا جائزہ لیجیے اس کے تمام دائرے نمائشی نظر آئیں گے۔ زندگی کے تمام وسائل، وقت اور نعمتوں کو محض نمائشی کلچر کی نذر کر دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟؟ کیا جدیدیت کا کام بس اتنا تھا کہ یہ ہر شے کو مارکیٹ کی شے بنا کر پیش کرے اور زندگی کی ہر قدر کو کمرشلائزیشن کے احاطے میں لے آئے؟ ۔ ایسی صورت میں قناعت پسندی کو یقیناً عیب سمجھا جائے گا، صبر کو بزدلی اور کاہلی اور بدتمیزی اور بے ہودگی بہادری اور دلیری شمار ہوں گے۔ پھر شریف ہونا کسی خفیہ مرض کی طرح نا قابلِ بیان ہو گا اور بدمعاش اور بد قماش اشتہاروں کے ذریعے اپنا فاخرانہ تعارف پیش کریں گے۔ لیجیے یہ ہے نیا زمانہ اور یہ ہیں نئی اقدار۔ اب ہر در اور ہر شے کے نیاز مندوں نے اپنی تعریفوں کے ذریعے سے نئی دنیا کا جو تصور قائم کیا ہے کچھ عرصے بعد خود انھی کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔
دیو جانس کے دبستان نے جہاں قناعت اور بے نیازی کو اختیار نہیں کیا وہ علم کا میدان تھا۔ یہاں زیادہ سے زیادہ کی جستجو واجب تھی۔ اس نے آزمائش اور مسلسل سفر کو ایک رویے کی صورت میں اختیار کیا۔ فلسفہ، حکمت اور تنقید کے شعبوں میں اس کے افکار نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس نے ایسی تہذیب کو جنم دیا تھا جس نے لمبے عرصے تک دنیا میں عزت اور احترام کی قدریں بدل دی تھیں۔ بادشاہوں پر عام آدمی کو فضیلت دینے والے دیو جانس نے کاٹ دار طنز سے کئی ایسی سوالات اٹھائے جن کی بازگشت آج بھی ہمارے ماحول میں سنائی دیتی ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بے نیازی لوگوں کو دیو جانس کرتا تھا جانس کے جانس کی کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
یہ غلط ہو رہا ہے
پہلے دنیا ہر دس برس بعد اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کرتی تھی مگر اب بدلاؤ کا عمل بہت تیزی اختیارکرچکا ہے، ہر شے ہی ٹھہراؤ کے معنی سے انجان ہوتی جا رہی ہے، جدیدیت کی جدت بھی مانند پڑنے لگی ہے، نئے اطوار پرانے اور پرانے اطوار فرسودہ بہت کم وقت میں ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی طرح کی تبدیلی جب اپنے روایتی طریقہ کار کے تحت رونما ہوتی ہے تو وہ معاشرے اور اُس کے افراد کو خوشگواری کی نوید سناتی ہے۔
مگر مسلسل آنے والی غیر معمولی تبدیلیاں معاشرے کو صرف اور صرف بربادی کی جانب دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ قدرت نے اس دنیا میں ہونے والے ہر کام کا ایک مخصوص عمل موجود رکھا ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، دنیا والوں کی جانب سے قدرتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں زمین پر تباہی کا نزول ناگزیر ہے۔
اس کرہ ارض پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مختلف اقسام کی ایجادات جہاں ایک طرف ابنِ آدم کو سہولیات فراہم کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف اُن کے مضر اثرات پوری قومِ انسانی کو شدید نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ انسانوں کا مشترکہ مزاج اس طرزکا ہے کہ وہ تھوڑے فائدے کے آگے بڑے نقصان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب کسی چیز سے اُنھیں بیشمار فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے تو اُن کی آنکھیں اُس کے ہمراہ آنے والی بڑی خرابی کو دیکھنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ہم سبھی نے یہ سن رکھا ہے کہ ’’ لالچ بری بلا ہے‘‘ دراصل مزید اور مزید کی خواہش ہم سے میسر آیا ہوا بھی چھین لیتی ہے، زیادہ کی تمنا انسان کے وجود میں بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔
نعمت کا اصل مزا انتظار میں ہے کیونکہ ہر شے کا فوراً مل جانا زندگی کا حُسن ختم کر دیتا ہے۔ محرومی انسان کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے اور بہتری کی جانب سفر کرنے پر اُکساتی ہے، اس کے علاوہ یہ انسانوں کے اندر قدرکا جذبہ بھی اُجاگر کرتی ہے۔ انسان کا شاکر ہونا اور تھوڑے کو بہت سمجھنا اُس کے ذہنی سکون کے لیے انتہائی اہم ہے، البتہ بِنا محنت، بغیر مانگے اور وقت سے پہلے کیسی چیز کا مل جانا انسان کی طبیعت میں اُچاٹ پن اور بیزاری کو جنم دیتا ہے۔
اگر انسان کا دماغ اور جسم دونوں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے، تبھی وہ صحیح معنوں میں صحت مند گردانا جائے گا، بصورت دیگر وہ خود پر خود ہی بوجھ بن کر رہ جائے گا جسے اُٹھانا اُس کے اعصاب کو تھکا کر شل کردے گا۔ ہر انسانی ترقی قابلِ ستائش نہیں ہوتی ہے بلکہ کچھ تو بِلا ضرورت وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو سکون کے بجائے بے سکونی کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔
تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان کے پاس آسائشیں کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں مگر اطمینان اور خوشی کا احساس اپنی انتہا پر موجود تھا، اس کے برعکس زمانہ حال میں بنی نوع انسان کے پاس تقریباً ہر شے بے حساب ہے، ماسوائے چین و سکون کے۔
دورِ ماضی میں جب انسان خوش ہوتا تھا تو سرشاری اُس کے پورے وجود سے عیاں ہوتی تھی اور جب کبھی وہ رنج، پریشانی اور بے چینی کی کیفیات میں مبتلا ہو جاتا تھا تب وہ رنجیدگی اور دل گیری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر رہا ہوتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہر انسان اپنے آپ میں ایک بہترین اداکار ہے جن کو اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر ہونے سے روکنا باخوبی آتا ہے، ظہورِ احساسات کے سامنے زبردستی بند باندھنے کے اس عمل نے موجودہ دور کے ہر دوسرے انسان کو ذہنی طور پر بیمار کر کے رکھ دیا ہے۔
نئے دورکے انسان کی کوئی ذاتی پسند یا ناپسند نہیں ہے بلکہ زمانے کا چلن اُن کا منظورِ نظر بن جاتا ہے، وہ شوق بھی صرف وہی پالتے ہیں جن کو اشرافیہ قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اپنی جڑوں میں موجود تخلیقی عنصرکی بیدردی سے ناقدری کرتے ہوئے انسان خود سے بہتر لگنے والے افراد کی نقول بننے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہاں ہرکوئی اپنی کھوکھلی ذات کو دنیا کے سامنے سجا، سنوار کر پیش کرنے کے قابل بنانے کے جتن کرنے میں اتنا مصروف ہوچکا ہے کہ اپنے اصل کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے۔ ماڈرن ورلڈ کے انسانوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو مسلسل اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلائیں گے تو وہ اُنھیں بھول جائیں گے تبھی وہ جگ بھاتے معیار پر پورا اُترنے کی کوششوں میں خود کو ہلکان کر کے رکھ دیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ آج کا انسان اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جی رہا ہے تو اس میں قطعی مبالغہ آراء نہیں ہوگی۔جدید دنیا نے یہاں بسنے والے تقریباً تمام نوجوانوں کو ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے، ہنسنے کھیلنے اور موج مستی کی عمر میں وہ اپنے دماغ پر بلاضروری بوجھ ڈال کر وقت سے پہلے سنجیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
انٹرنیٹ سرفنگ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری نوجوان نسل کے دماغ کوکھانے کا کام کر رہے ہیں جب کہ موبائل اسمارٹ فون، ایٹم بم سے کم خطرناک ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ گزرے ہوئے وقتوں میں کبھی موبائل فون رابطے کا ذریعہ مانے جاتے تھے لیکن اب یہ ہماری ذہنی و جسمانی صحت اور نسلوں کو تباہ کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے انسان کو سماج میں متحرک تو نہیں کیا بلکہ الٹا ایسی بھیانک تنہائی میں جھونک دیا ہے جہاں اُن کا جسم اور روح بھی ایک دوسرے سے انجان انجان دکھائی دیتے ہیں۔روشنی جب تک نورکی حیثیت سے ہماری زندگیوں میں رمق بکھیرتی ہے تب تک ہی وہ قلب کو بھاتی ہے، ساتھ ہمارے پورے وجود کو منور اور پر رونق بنا کر خوشنمائی کا پیکر بنا دیتی ہے جب کہ اُسی روشنی کی زیادتی اور بھڑکیلا پن ہماری آنکھوں کو چندھیا کر بینائی سے محروم کردیتا ہے۔
کسی بھی شے کو ضرورت سے بڑھ کر استعمال کرنا اُس کو امرت سے زہر میں تبدیل کر دیتا ہے، لفظ معتدل کو اُس کے صحیح معنوں اور پوری افادیت کے ساتھ زندگی میں اپنانے سے ترنم کا احساس تادمِ مرگ زندہ رہتا ہے۔ زمانے کی چکا چوند میں اپنی ذات کوگم ہونے سے بچانے کے لیے میسر آئی تمام طرزکی تسہیل کو صرف اور صرف اُس کی مثبتیت کے ساتھ بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے لہذٰا خود کو خود ہی سے بچانے کی حکمتِ عملی مرتب کرنے میں دیر نہ لگائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے اور آپ کی بقاء کے سارے در مقفل ہو جائیں۔