استنبول نمائش میں شرکت کا تجربہ انتہائی خوشگوار رہا
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
لاہور(کامرس ڈیسک) پاکستان کارپٹ مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹر ز ایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں عتیق الرحمان نے کہا ہے کہ استنبول میں منعقدہ ’’ سی ایف ای ‘‘ نمائش میں شرکت کا تجربہ انتہائی خوشگوار رہا اور اس کے ذریعے ہاتھ سے بنے قالینوں کی برآمدات کیلئے نئے مواقع تلاش کرنے میں مدد ملے گی ، طورخم بارڈر کے مسائل انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے افغانستان سے جزوی تیار خام مال نہ پہنچنے سے برآمدی آرڈر کی تیاری بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت ایک طرف عزم کے ساتھ برآمدات میں اضافے کیلئے اڑان پاکستان جیسے پروگرام ترتیب دی ہے اور دوسری طرف برآمدات کی راہ میں حائل رکاوٹیں جوں کی توں ہیں، اگر حکومت نے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ہیں تو اسے کسی بھی برآمدی شعبے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔انہوںنے کہا کہ نا مساعد حالات کے باوجود ہم عالمی نمائشوںمیں شرکت کر کے اپنی برآمدات میں اضافے کے لئے کوشاں ہیں لیکن دوسری طرف طورخم بارڈر جیسے مسائل ہماری ساری کاوشوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔برآمدی آرڈر ز کی بروقت ترسیل نہ ہونے سے ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کے صرف ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت پر نہیں بلکہ مجموعی برآمدات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ، وزیر خزانہ اورچیئرمین ایف بی آر ہماری گزارشات پر شنوائی کریں اور ان مسائل کو حل کرایا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: برا مدات
پڑھیں:
’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے
’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے‘
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) تجز یہ نگارزاہد حسین کے مطابق ایک ڈرامائی پیشرفت میں پاکستان اور افغانستان نے اپنے سفارتی تعلقات کو سفارتی سطح پر اپ گریڈ کرنے پر اتفاق کیا ہے جو افغان طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد سے پیدا ہونے والے انتہائی کشیدہ دو طرفہ تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
ڈان کے مطابق یہ اعلان گزشتہ ماہ بیجنگ میں چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان غیر رسمی سہ فریقی اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اس حیران کن اقدام کو تیزی سے ترقی پذیر علاقائی جغرافیائی سیاست میں انتہائی اہم سمجھا جارہا ہے۔
صرف چند ممالک جیسے چین، روس، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان نے 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان سفیروں کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان نے بھی کابل میں قونصل خانے کی سطح پر اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔ تاہم ابھی تک کسی ملک نے طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ خواتین کو تعلیم اور کام کے حق سے روکنے کی طالبان کی پالیسی ہے۔ قیادت کونسل میں سخت گیر افراد کے تسلط کے پیش نظر طالبان کی حکومت سے اپنی قدامت پسند پالیسی کو معتدل کرنے کی توقع کرنا مشکل ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ پاک افغان پیش رفت بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ تنازع کے بعد ہوئی ہے جس نے خطے کو ایک وسیع تر بحران کی جانب دھکیلنے کا خطرہ پیدا کردیا تھا۔ اس دوران افغان حکومت بھارت کے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ یہ اس بات کی وضاحت کرسکتا ہے کہ کیوں بہت سے ماہرین بالخصوص بھارتی میڈیا میں یہ سوچ پائی جارہی تھی کہ تنازعے کے دوران طالبان بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تاہم بیجنگ اجلاس نے حالات کی تبدیلی کا عندیہ دیا۔ جہاں دونوں ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کو ٹھیک کرنے میں چین کا کردار واضح ہے وہیں دونوں جانب سے سفارتی حساسیت کا بھی مظاہرہ کیا گیا جس نے برف کو پگھلانے میں مدد کی۔ سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کا فیصلہ واقعی ایک مثبت اقدام ہے۔ یہ مختلف شعبہ جات میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ یہ قدم بڑھتے ہوئے روابط، اقتصادی، سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور تجارتی شعبہ جات میں پاک-افغان تعاون کو مزید گہرا کرنے اور دو برادر ممالک کے درمیان مزید تعامل کو فروغ دے گا‘۔ تاہم ان کے درمیان اب بھی سنگین مسائل ہیں جو ان کے تعلقات کو مکمل طور پر بہتر بنانا بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔
طالبان 2.0 کی اقتدار میں واپسی کے ابتدائی چند ماہ کو چھوڑ کر، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بتدریج خراب ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سرحدی جھڑپوں اور تجارت کی بندش کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات دشمنی میں بدل گئے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ سنگین مسئلہ پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کا استعمال ہے۔ زیادہ تر معاملات میں عسکریت پسند نیٹ ورکس بالخصوص کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، افغان طالبان کمانڈرز کی خفیہ حمایت کے ساتھ کارروائی کررہے ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے دہشتگردانہ حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ عسکریت پسند اب بہت بہتر طریقے سے مسلح اور تربیت یافتہ ہیں۔ وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جو 2021ء میں امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے بعد چھوڑ گئے تھے۔ لیکن ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے اور پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملوں کا مکمل الزام کابل پر ڈالنا درست نہیں ہے۔
ہماری سر تسلیم خم کرنے کی پالیسی بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ بنی۔ اس سے قبل ریاست نے افغان طالبان انتظامیہ کے اصرار پر نہ صرف کچھ کالعدم عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ امن مذاکرات کی کوشش کی بلکہ ہزاروں بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت بھی دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عسکریت پسندوں کو مشرقی سرحد پار سے بھی حمایت مل رہی ہے۔ تاہم غلطی عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے میں ہماری ناقص اور غیر مربوط حکمت عملی میں بھی ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر بھی بمباری کی ہے۔ ان مایوس کن کارروائیوں کے قابلِ اعتراض نتائج برآمد ہوئے جبکہ سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ کابل میں حکومت نے پاکستان کے خلاف اپنی پوزیشن سخت کرلی۔
پاکستان نے افغان شہریوں پر اس کی سرزمین پر ہونے والے کچھ دہشتگردانہ حملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا لیکن ان الزامات کو کابل نے یکسر مسترد کیا ہے۔ جوابی کارروائی کے طور پر اسلام آباد نے لاکھوں غیر قانونی اور یہاں تک کہ دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک بدر کر دیا ہے جن میں سے کچھ اسی ملک میں پیدا ہوئے اور کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم تھے۔ اکتوبر 2023ء سے تقریباً 8 لاکھ 45 ہزارافغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ تقریباً 30 لاکھ اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان اس سال انہیں ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسلام آباد کا اسی ناقابلِ فہم اقدام نے کابل کے ساتھ تناؤ میں مزید اضافہ کیا ہے۔
سرحدوں کی بار بار بندش نے بھی پاکستان کے خلاف افغانستان کے غصے کو بھڑکایا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں خلل ڈالا ہے۔ اس صورت حال میں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارتی سیکرٹری خارجہ نے دبئی میں افغان وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔ بھارت کی سفارتی رسائی نے قدامت پسند طالبان حکومت کی جانب اس کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، کابل اور نئی دہلی کے درمیان اعلیٰ سرکاری سطح پر ہونے والی ملاقاتوں نے طالبان کی حکومت کو اصل جواز فراہم کیا۔ طالبان حکومت نے اشارہ دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے جبکہ انہوں نے بھارت کو ایک ’اہم علاقائی اور اقتصادی طاقت‘ قرار دیا۔ درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں پہلگام دہشتگردانہ حملے کی کابل کی شدید مذمت کی تو کچھ لوگوں نے اس امر کو اس علامت کے طور پر لیا کہ طالبان پاکستان کے خلاف بھارت کی فوجی کارروائیوں کی حمایت کررہے ہیں۔
اس پیش رفت سے بیجنگ اور اسلام آباد میں تشویش کو جنم دیا۔ چین نے طالبان حکومت کے ساتھ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔ یہ پہلا ملک تھا جس نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بڑھاتے ہوئے سفیر تعینات کیے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ بیجنگ کا کابل اور اسلام آباد دونوں پر مضبوط اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ سے اسے ثالث کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
جب پاکستان کے وزیر خارجہ سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے تو سہ فریقی ملاقات کا کوئی طے شدہ شیڈول نہیں تھا۔ افغان وزیر خارجہ خصوصی دعوت پر بیجنگ گئے تھے۔ تاہم ملاقات نے جغرافیائی سیاسی اہمیت کا ایک مثبت نتیجہ نکالا۔ یقیناً کابل پر دباؤ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف سرحد پار سے دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ پھر بھی اسلام آباد کو کابل حکومت کے ساتھ اپنے کثیر جہتی تعاون کو مزید وسعت دینی چاہیے۔
عید الاضحیٰ پر کتنی ہزار شکایات موصول ہوئیں : وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں
مزید :