کراچی میں سردی مزید بڑھے گی، درجہ حرارت سنگل ڈیجٹ تک گرنے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
کراچی:شہر قائد سمیت سندھ کے کئی شہروں میں آئندہ ہفتے (24 جنوری) سے سردی کی شدت بڑھنے کی کا امکان ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مغربی ہواؤں کے سسٹم کی وجہ سے جنوری کے آخری ہفتے میں کراچی کا درجہ حرارت سنگل ڈیجٹ تک گر سکتا ہے۔اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی سردی کی لہر اثرانداز ہوگی۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ مغربی ہواؤں کا سلسلہ آج سے ملک میں داخل ہوچکا ہے، جو 23 جنوری تک بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا سبب بنے گا۔ سندھ کے شہروں جیسے سکھر، جیکب آباد اور لاڑکانہ میں21 سے 23 جنوری کے درمیان ہلکی بارش جب کہ دیگر علاقوں میں مطلع ابر آلود رہنے کا امکان ہے۔
پنجاب میں بادلوں اور سورج کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ آنکھ مچولی کا سلسلہ رہے گا جب کہ لاہور میں بادل تو موجود رہیں گے لیکن بارش کے امکانات کم ہیں۔ آج لاہور میں کم سے کم درجہ حرارت 6 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 17 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔
خیبرپختونخوا میں 18 سے 21 جنوری کے دوران بالائی اضلاع میں بارش اور برفباری متوقع ہے۔ چترال، دیر، سوات، مانسہرہ، شانگلہ، اور دیگر علاقوں میں شدید برفباری کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
پی ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ برفباری اور بارش کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگا، جس سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے افراد کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کے ہدف تک محدود رکھنے میں ناکام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا اپنے اہم ماحولیاتی ہدف، یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے، اور امکان ہے کہ آئندہ دہائی میں یہ حد عبور ہو جائے گی۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی سالانہ ”ایمی شنز گیپ رپورٹ“ میں کہا گیا ہے کہ ممالک کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سست اقدامات کے باعث اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا 2015 کے پیرس معاہدے کے بنیادی ہدف سے، کم از کم عارضی طور پر، تجاوز کر جائے گی۔
یو این ای پی نے کہا، “اس رجحان کو پلٹنا مشکل ہوگا، جس کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیز تر اور بڑے پیمانے پر اضافی کمی درکار ہوگی تاکہ حد سے زیادہ درجہ حرارت میں اضافے کو کم سے کم کیا جا سکے۔
رپورٹ کی مرکزی مصنفہ این اولہوف نے کہا کہ اگر اب اخراج میں نمایاں کمی کی جائے تو درجہ حرارت کے حد سے تجاوز کرنے کا وقت مؤخر کیا جا سکتا ہے، ”لیکن اب ہم اس سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے۔
2015 کے پیرس معاہدے میں ممالک نے عہد کیا تھا کہ صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھا جائے، اور ہدف 1.5 ڈگری سیلسیس کا رکھا جائے۔ تاہم یو این ای پی نے کہا کہ حکومتوں کے تازہ ترین وعدوں کے مطابق، اگر ان پر عمل کیا جائے تو دنیا کو 2.3 سے 2.5 ڈگری سیلسیس تک حرارت میں اضافہ برداشت کرنا پڑے گا۔
یہ اقوام متحدہ کی گزشتہ سال کی پیشگوئی کے مقابلے میں تقریباً 0.3 ڈگری کم ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اس سال ممالک، بشمول سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ملک چین، کی جانب سے کیے گئے نئے وعدے اس فرق کو کم کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
چین نے ستمبر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ 2035 تک اپنے اخراج کو عروج کے مقابلے میں 7 سے 10 فیصد تک کم کرے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین عموماً محتاط اہداف طے کرتا ہے مگر اکثر انہیں عبور کر لیتا ہے۔یہ نتائج اقوام متحدہ کے COP30 ماحولیاتی اجلاس پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، جو اس ماہ منعقد ہو رہا ہے، جہاں ممالک یہ بحث کریں گے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے تیز تر اور مالی اقدامات کیسے کیے جائیں۔
پیرس معاہدے کے درجہ حرارت سے متعلق اہداف سائنسی جائزوں پر مبنی تھے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی حرارت کے ہر اضافی درجے سے ہیٹ ویوز، خشک سالی اور جنگلات میں آگ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
مثلاً، 2 ڈگری حرارت میں اضافہ ہونے سے انتہائی گرمی کا سامنا کرنے والی آبادی کا تناسب 1.5 ڈگری کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ ہو جائے گا۔ 1.5 ڈگری کا اضافہ کم از کم 70 فیصد مرجان کی چٹانوں (کورل ریفس) کو تباہ کر دے گا، جبکہ 2 ڈگری پر یہ شرح 99 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ موجودہ پالیسیاں — یعنی وہ اقدامات جو ممالک پہلے ہی نافذ کر چکے ہیں — درجہ حرارت میں تقریباً 2.8 ڈگری سیلسیس تک اضافہ کر دیں گی۔
دنیا نے کچھ پیش رفت ضرور کی ہے۔ ایک دہائی پہلے، جب پیرس معاہدہ ہوا تھا تو، زمین تقریباً 4 ڈگری درجہ حرارت کے اضافے کی راہ پر تھی۔ لیکن حرارت کا سبب والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ جاری ہے کیونکہ ممالک اپنی معیشتوں کو چلانے کے لیے کوئلہ، تیل اور گیس جلا رہے ہیں۔
یو این ای پی کے مطابق، 2024 میں عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا، جو 57.7 گیگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی ہے۔