گروپ میں واٹس ایپ پیغام پر لکھا چونکا دینے والا تھا۔ یہ اطلاع تھی ایک فعال ساتھی کی چوتھے نمبرکی بہن کے انتقال کی۔ ایسا کیسے ہوا، کی ا وجہ تھی، کب ہوا؟ ایک کے بعد ایک سوال ابھر رہے تھے۔
ایک جوان لڑکی جو اوری میں سٹ کے باعث اس کے سلسلے میں ہونے والے ٹیسٹوں اور رپورٹوں سے ہلکان اور خوف زدہ تھی۔ بڑی بڑی مشینوں اور آپریشن تھیٹر سے اسے خوف آتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اسے کوئی بہت بڑی بیماری ہے جسے اس سے چھپایا جا رہا ہے۔ گھر والے اسے سمجھاتے تھے پیار سے نرمی سے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ایک معمولی سے آپریشن کے ذریعے سٹ کو کاٹ کر نکال دیا جائے گا لیکن وہ جو ایک رائٹر تھی، مصور تھی، حساس طبیعت کی مالک خوف برداشت نہ کر سکی اور بالآخر دل کا دورہ اچانک غالب آیا اور وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی کا دورانیہ رب العزت کی جانب سے مقررکردہ ہے جو نہ ایک لمحہ زیادہ اور نہ کم ہوتا ہے، اس پر بحث لاحاصل ہے لیکن طبی حوالے سے مسائل پیچیدہ نظر آ رہے ہیں جو بتاتے ہیں کہ جوان افراد میں ہارٹ اٹیک کی شرح بڑھتی جا رہی ہے جب کہ ماضی میں یہ شرح خاصی کم تھی۔
عام طور پر ہارٹ اٹیک بوڑھوں یا زائد العمر لوگوں میں دیکھا گیا ہے لیکن آج کل یہ بیماری یا اس کی علامات سے ناواقف جوان دل ہی ہار دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن اصل مسئلہ ناواقفیت کا ہے جس کے باعث ہم درگزر کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اور انسان دل کے عارضے میں گرفتار ہو جاتا ہے یا زندگی کی بازی ہار دیتا ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق پتا چلا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر افراد میں دل کے دورے کا امکان بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ معمر انسانوں میں ہوتا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق دل کے دورے کی شرح جوان مردوں کے مقابلے میں جوان عورتوں کی زیادہ نوٹ کی گئی ہے۔ دراصل دل کے دورے کی علامات کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں یا خاموش علامتیں کہ جن کے باعث لوگ اسے شناخت کرنے میں دھوکا کھا جاتے ہیں۔
’’ میرے دل کے مقام پر درد سا محسوس ہوا، عام طور پر کھانے کے بعد گیس کے درد تو ہو جاتے ہیں، میں نے ایسا ہی خیال کیا اور ٹہلنا شروع کر دیا لیکن درد پر ذرا فرق نہ پڑا تھا، میری چھٹی حس نے کہا کہ کچھ غلط ہے اور میں فوری طور پر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر کے کنٹینر کی جانب گیا جہاں میرا ای سی جی کیا گیا تو فوری پتا چل گیا کہ مسئلہ ہے ابتدائی طبی امداد کے طور پر دوائی دے کر اسپتال کی جانب دوڑا دیا گیا، جہاں میرا انجیو پلاسٹی کے عمل کے ذریعے اسسٹنٹ ڈالا گیا۔‘‘
پاکستان میں جہاں دل کے اس مہنگے علاج کے لیے لاکھوں روپے چارج کیے جاتے ہیں، ایسے میں این آئی سی وی ڈی یہ سہولت مفت فراہم کر رہا ہے۔
عام طور پر رات کھانے کے بعد جب کہ غذا بھی مرغن ہو تو زیادہ کھانے کے احساس کے ساتھ گیس، بھرا بھرا سا لگنا یا متلی سی محسوس ہونا عجیب نہیں ہے لیکن اگر یہ علامات برقرار رہیں تو گھریلو ٹوٹکوں کو آزمانے کی زیادہ سعی نہ کی جائے بلکہ فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
سائلینٹ کارڈیک اٹیک کی علامات میں سانس لینے کی دشواری، دل میں جلن کا احساس، بائیں پسلی کی جانب درد، دھڑ کے اوپری بائیں جانب کے حصے میں تکلیف، متلی، الٹی، پسینہ آنا وغیرہ شامل ہے، بہت سے لوگوں میں پیٹ میں مروڑ، گردن اور جبڑے میں تکلیف وغیرہ شامل ہے۔
پاکستان میں امراض قلب کے بڑھنے کی شرح خاص کر نوجوانوں میں خطرناک ہے، اس کی اہم وجہ طرز زندگی ہے۔ آج کا نوجوان صحت مند سرگرمیوں سے دور ہے اسے کھیلنے کودنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس کے نزدیک موبائل فونزکے کھیل زیادہ دلچسپ ہیں جن پر وہ کئی گھنٹے صرف کرسکتے ہیں۔
ہمارے یہاں بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان ختم ہوتے جا رہے ہیں اور جو ہیں وہ بھی قبضہ مافیا کی نذر ہو رہے ہیں۔ ایک حیرت انگیز مشاہدے کے مطابق پاکستان میں شوگر کے نوجوان مریضوں کی تعداد سب سے بلند ہے۔ شوگر کے مریضوں میں دل کے امراض پیدا ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔
دل پورے جسم کا ایک ایسا فعال عضو ہے جو جسم کے عضویات کو صاف خون فراہم کرتا ہے اورگندے خون کو صاف کرکے آگے روانہ کرتا رہتا ہے۔ یہ گندے اور صاف خون کے پمپ کرنے کا ایک ایسا بہترین نظام ہے کہ جس کی مثال دینا مشکل ہے۔
یہ خون کی باریک بال جیسی شاخوں سے پھیلتا چلا جاتا ہے۔ دل کی اس فعالیت کا تعلق خون کے پتلا ہونے سے ہے، جتنا خون گاڑھا ہوگا اسے اپنا چکر مکمل کرنے میں اتنی ہی دشواری ہوگی، جب خون کی باریک نسیں اگر اندر سے کولیسٹرول سے جمع ہوں گی تو ان کا قدرتی سائز سکڑ جائے گا اور یوں خون کو پمپ کرنے میں دشواری ہوگی۔
پاکستان کے نوجوانوں میں دل کے دورے کی بڑھتی شرح کا تعلق عمومی رویوں سے بھی ہے۔ ہمارے مثبت اور منفی رویے ہماری زندگی میں تبدیلی لاتے ہیں۔ مایوسی اور قنوطیت پر تحقیق کرنے والے جاپانی ماہر نفسیات ڈاکٹر شیکو سورتو کے مطابق مایوس، پریشان اور ہر وقت تفکرات میں گھرے رہنے سے دماغ میں خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے جس سے براہ راست ہمارا جسم متاثر ہوتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے دور میں مہنگائی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل میں نوجوان اپنا آپ فٹ محسوس نہیں کرتا، وہ اندیشوں، وسوسوں اور خدشات میں گھر جاتا ہے، صحت اور جاب کے مسائل، گھریلو مسائل اور ملک کے سیاسی حالات غرض وہ بار بار الجھتا ہے۔ اسے اپنا مستقبل کہیں نظر نہیں آتا۔ اس طرح وہ اپنے لیے برے پہلو میں جگہ تلاش کرتا ہے۔
ہمارے یہاں نوجوان خواتین بھی مایوس اور متزلزل صورت حال سے شدید متاثر ہیں ان کے خیال میں ان کا پڑھنا لکھنا، معیار حسن، شادی بیاہ کے مسائل، جاب کے مسائل پریشان کر رہے ہیں اور یوں وہ معاشرتی ناہمواریوں میں الجھ کر بیماری سے ہاتھ ملا لیتی ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق اگر ہم دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے رہیں تو گھٹن اور معاشی غیر ہمواری کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ارد گرد لوگوں سے اپنا موازنہ کرنے کے بجائے پورے خلوص سے اپنے کام کو فوکس کرتے آگے بڑھیں۔ ارد گرد پر نظریں ڈال کر اپنے آپ کو جج کرتے حسد، رقابت، دکھ، افسردگی جیسی بیماریاں گھیر لیں گی، جو بڑی بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔
وقتی ناکامی پر زیادہ افسوس کر کے اسے دل سے لگانے کے بجائے ماضی کی یاد سمجھ کر آگے بڑھیں، کامیابی بھی ناکامی کے سفر کا ساتھی ہے جو آپ کی منتظر ہے۔ اگر ہم اللہ کی تقسیم کے عمل پر غور کر لیں تو ہمارے دل کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے۔
ماہر نفسیات کرسٹائن ویر کے مطابق جب آپ خوب صورت اور خوشگوار لمحات دیکھیں تو ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے خود کو وقت دیں، خواہ خوشی کا یہ احساس ریل میں بیٹھے بیٹھے کسی معصوم بچے کی معصوم حرکتیں دیکھ کر ہی جنم لے۔ کولیگز کے دلچسپ مذاق، سردیوں کی گرم دھوپ ہو یا چاندنی کی ٹھنڈک ہو ایسے خوب صورت لمحات کو سرسری انداز سے نہ دیکھیں بلکہ ان لمحات سے خوشیاں کشید کرنے کی کوشش کریں۔
انسان کی لوح میں رب العزت نے پہلے ہی سب کچھ لکھ کر رکھ دیا ہے، بس اپنے مثبت اور اچھے عمل سے اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرتے آگے بڑھیں کہ زندگی ایک خوب صورت نعمت ہے اسے خوف اور ڈپریشن کی نذر نہ کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دل کے دورے کے مطابق جاتے ہیں ہے لیکن رہے ہیں کی جانب ہوتا ہے
پڑھیں:
لندن ہائیکورٹ: آئی ایس آئی پر مقدمہ نہیں، معاملہ صرف عادل راجا اور بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے درمیان ہے
لندن کی ہائیکورٹ میں آئی ایس آئی کے سابق سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی جانب سے پاک فوج کے سابق میجر عادل راجا کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہوگیا۔ مقدمے کا فیصلہ جلد ہونے کے امکانات روشن ہوگئے۔ واضح رہے کہ یہ مقدمہ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے ان پر دائر کیا ہے، جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عادل راجا کی 9 سوشل میڈیا اشاعتوں نے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا۔
پاکستان آرمی کے سابق میجر (ر) عادل راجا نے برطانیہ کی ہائیکورٹ کو بتایا ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے خلاف جو الزامات اور مواد شائع کیا، وہ عوامی مفاد میں تھا۔ تاہم عدالت نے واضح کیا کہ یہ مقدمہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بارے میں نہیں بلکہ صرف 2 افراد کے درمیان ہتکِ عزت کا معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے لندن ہائیکورٹ میں بیان: آئی ایس آئی کا اغوا، تشدد یا صحافیوں کو ہراساں کرنے سے کوئی تعلق نہیں، بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر
عادل راجا، جو کہ ایک یوٹیوبر اور سوشل میڈیا پر سرگرم سابق فوجی افسر ہیں، لندن ہائیکورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے جہاں انہوں نے اپنے بیانِ حلفی کا تیسرے روز بھی دفاع کیا۔
’یہ مقدمہ پاکستانی اداروں کے کردار پر نہیں‘دورانِ سماعت لندن ہائیکورٹ کے ڈپٹی جج رچرڈ اسپیئر مین کے سی (KC) نے کہا ’یہ مقدمہ صرف 2 افراد کے درمیان ہے۔ آئی ایس آئی، پاکستانی حکومت یا فوج اس مقدمے کا حصہ نہیں ہیں۔ عدالت کسی خفیہ ادارے کے کردار پر فیصلہ نہیں دے رہی۔‘
جب عادل راجا نے پاکستان میں الیکشن میں مداخلت اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار جیسے وسیع تر موضوعات پر گفتگو کی تو جج نے کہا کہ ’مجھے احساس ہے کہ یہ مقدمہ پاکستان کے لیے حساس ہے، لیکن یہاں صرف ان مخصوص الزامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے جو راشد نصیر پر لگائے گئے ہیں۔‘
ذرائع معتبر اور معلومات عوامی مفاد میں تھیں، عادل راجا کا مؤقفعادل راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ میں نے جو بھی مواد شائع کیا وہ معتبر ذرائع سے حاصل کردہ تھا، جن میں پاکستانی حکومت اور انٹیلیجنس اداروں کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں۔ میں نے معلومات کی تصدیق اور جانچ پڑتال (cross-checking) کے بعد ہی اشاعت کی۔
یہ بھی پڑھیے ہتک عزت کیس: برطانوی عدالت نے عادل راجا پر مزید جرمانہ عائد کردیا
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اپنے ذرائع کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک ‘Layered’ نظام کے ذریعے کام کرتے ہیں، تاکہ ذرائع کا براہ راست نام ظاہر نہ ہو۔
جب عدالت نے ان سے شواہد اور تحریری نوٹس فراہم کرنے کو کہا، تو انہوں نے 2 نوٹ بکس عدالت کے سامنے اسکرین پر پیش کیں لیکن اعتراف کیا کہ جون 2022 میں کی گئی متنازعہ اشاعتوں سے متعلق کوئی خاص نوٹ موجود نہیں۔
سوشل میڈیا پوسٹس پر سخت جرحراشد نصیر کے وکیل ڈیوڈ لیمر نے عادل راجا سے ان تمام 9 اشاعتوں کے بارے میں سوالات کیے، جن پر مقدمہ دائر ہے۔ انہوں نے پوچھا:
’کیا آپ نے کوئی ایسا ثبوت یا تحریری مواد عدالت میں پیش کیا جو آپ کے الزامات کی تصدیق کرتا ہو؟‘
اس پر راجا نے جواب دیا کہ انہوں نے اپنے ذرائع پر مکمل اعتماد کیا اور انہیں عوامی مفاد کے تحت شائع کیا۔
ارشاد شریف کیس پر تبصرہعادل راجا نے ارشاد شریف کے قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کیا، تاہم وکیل صفائی نے نشاندہی کی کہ اس رپورٹ میں آئی ایس آئی کا نام کہیں درج نہیں۔ راجا نے اس پر کہا:
’رپورٹ میں شامل بعض افراد کا تعلق انٹیلیجنس اداروں سے ہے، اور ان کے کردار سے سب واقف ہیں۔‘
’قتل کی سازش کا دعوی مبالغہ آرائی ہے‘عادل راجا نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف پاکستانی ایجنسیز نے انہیں قتل کرنے کی سازش کی۔ وکیل نے اس پر سوال اٹھایا کہ برطانوی پولیس کے خط اور گواہی میں صرف عمومی خطرے کا ذکر ہے، آئی ایس آئی یا قتل کی سازش کا کوئی ذکر نہیں۔
یہ بھی پڑھیے متنازع یوٹیوبر عادل راجا کو دھچکا، برطانوی عدالت نے 10 ہزار پاؤنڈ جرمانہ کردیا
اس پر راجا نے کہا ’اگرچہ رپورٹ میں براہِ راست ذکر نہیں، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ میری جان کو خطرہ انہی حلقوں سے ہے۔‘
وکیل نے اسے مبالغہ آرائی اور غیر ذمہ دارانہ دعویٰ قرار دیا۔
راشد نصیر سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟عادل راجا نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے راشد نصیر سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ وہ ناقابلِ رسائی تھے۔ میں نے صرف آئی ایس پی آر سے مؤقف لینے کی کوشش کی، جو بے سود رہی۔
عدالت میں مقدمے کا اختتام قریبتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدالت میں جرح کے بعد توقع ہے کہ مقدمہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ عادل راجا نے مؤقف اپنایا ہے کہ ان کی اشاعتیں صحافت، ذرائع، اور عوامی مفاد پر مبنی تھیں، لیکن مدعی کے وکیل نے انہیں بے بنیاد، مبالغہ آمیز اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں