Islam Times:
2025-09-18@13:22:14 GMT

آج کا میڈیا تجارتی ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے، وائس چانسلر

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

آج کا میڈیا تجارتی ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے، وائس چانسلر

ڈاکٹر سمیر کمار ورما نے کہا کہ اس صورتحال میں درمیانی اور نچلی سطح کے صحافیوں کا کردار اہم ہوگیا ہے، سچ کو سامنے لانے کی ذمہ داری ان ہی کے اوپر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ باوقار سندیپ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سمیر کمار ورما نے میڈیا کو سماجی تبدیلی کا بردار قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے آنے سے صحافت کے سامنے چیلنجز ضرور بڑھے ہیں لیکن اس کی مطابقت برقرار ہے۔ وائس سمیر کمار ورما نے معروف صحافی آنجہانی رام گووند پرساد گپتا کی 29ویں برسی کے موقع پر منعقدہ "عصری صحافت کے چیلنجز" کے موضوع پر سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے دور میں صحافت کے سامنے چیلنجز بڑھ گئے ہیں، لیکن اس کی مطابقت اب بھی باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا میڈیا تجارتی ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے، کمرشل ازم بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں درمیانی اور نچلی سطح کے صحافیوں کا کردار اہم ہوگیا ہے، سچ کو سامنے لانے کی ذمہ داری ان ہی کے اوپر ہے۔

اس دوران مہمان خصوصی صحافی اور بینی پور کے ایم ایل اے ڈاکٹر ونے کمار چودھری نے کہا کہ صحافیوں کے لئے لکھنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایمانداری سے لکھی گئی خبروں کا اثر آج بھی نظر آتا ہے، اس کے علاوہ یہ صحافت کے وجود کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر جانبدارانہ صحافت ہی دور جدید کے چیلنجز کا خاتمہ کرے گی، صحافت کل بھی متعلقہ تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو صرف اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی ورنہ سچ پیچھے رہ جائے گا۔ جب تک یہ زندہ رہے گا صحافت زندہ رہے گی۔

نقاد اور ادیب پروفیسر ستیش سنگھ نے کہا کہ مذہبی عدم برداشت کا جو ماحول پیدا ہوا ہے اس پر قابو پانا میڈیا کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے، اس کی تحقیقات کرکے اور سماجی ہم آہنگی قائم کرکے میڈیا اس چیلنج کو ختم کرسکتا ہے، اس سے صحافت کو ایک نئی جہت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ صحت مند معاشرے کی تشکیل صحافت کی ذمہ داری ہے۔ اس اہم ذمہ داری کو نبھانے سے صحافت کے چیلنجز کم ہوں گے۔ سینیئر صحافی گنگیش مشرا نے کہا کہ صحافت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج قاری اور سامع کو جوڑنا ہے، اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خبروں کو ایسے شعبے سے منسلک کیا جائے جس سے سماجی تبدیلی آسکے، لوگ متاثر ہوں، اس کے لئے ضروری ہے کہ خبر کو آسان اور دلچسپ الفاظ میں پہنچایا جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کے لئے

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • سعودی، پاکستانی سٹریٹجک معاہدے کی اہمیت، عرب صحافت کی نظر میں
  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • اینڈی پائیکرافٹ کے معاملے پر پاکستان کے سامنے تجاویز رکھ دی
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • پی ٹی آئی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے ، حنیف عباسی
  • امریکی صدر ٹرمپ نے نیو یارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کردیا
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • کراچی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا
  • اردو یونیورسٹی سینٹ اجلاس موخر کرنے کیلئے خالد مقبول کا ایوان صدر کو خط
  • سندھ کی دو جامعات کیلئے مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری