جبل رحمت، مسجد ہجرا اور اداس تکونہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
جبل رحمت مکہ کے مضافات میں وہ مقام ہے جہاں پر دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام اور ام بنی نوع انسان حضرت حوا سلام اللہ علیہا دنیا میں آ کر پہلی دفعہ ملے تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی نما چوٹی ہے ایک ہی راستہ جانے اور آنے کا ہے۔ اس چوٹی پر ایک یادگار سفید چھوٹے سے مینار کی صورت بنائی گئی ہے یہاں زائرین دعائیں کرتے ہیں یہ کس قدر پرانا مقام ہے اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے لیکن رب کائنات نے اس مقام کو آج تک تخلیق کائنات کی شروعات اور بنی نوع انسان کے اس دنیا میں پہلے ملاپ کے طور پر قائم رکھا ہوا ہے۔ اگر عربیوں کی جگہ یہاں پر کبھی فعال حکمران رہ چکے ہوتے تو وہ شاید تاج محل سے بڑی کوئی یادگار تعمیر کرتے اور اس چوٹی کو درمیان میں من عن قائم رکھتے یا اس کی جگہ اروی بنا ڈالتے۔ اگر اس مقام کے حوالے سے گوروں سے مشورہ کیا جاتا تو شاید اس کی دریافت کے بعد وہ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی اس مقام کے گرد بناتے بہرحال آدمؑ اور حواؑ جہاں ملے اس جگہ پر جانے کا احساس باقی مقامات سے بالکل مختلف ہے اور دعاؤں کی قبولیت کا مقام محسوس ہوتا ہے بعض لوگوں کو میں نے مار کر (پین) ڈھونڈتے ہوئے بھی دیکھا۔ نہ جانے وہ اپنے کن پیاروں کا نام وہاں پر لکھ رہے تھے۔ میں نے اس جگہ کی زیارت کر کے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ بنی نوع انسان کے والدین جہاں پر پہلی بار ملے تھے مجھے اس مقام پر ان کی جدائی کو ملاقات میں بدلنے پر اللہ کا شکر بجا لانے کا موقع ملا یہاں پر دیگر دعائیں تو ضرور کی تھیں مگر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ میں نے اپنے بیٹے کی پسند کی جگہ پر شادی ہونے اور اس کو کامیاب کرنے کے لیے دعا کی اس سرزمین پر میری ایسی دعا صرف اس مقام پر تھی کیونکہ آدم و حوا کی ملاقات کی قبولیت کی دعا جہاں قبول ہوئی تھی وہ جگہ یقینا انسانوں کے فطری اور جائز ملاپ کے لیے دعا مانگنے کے لیے مجھے بہت مناسب لگی۔
شاہرہ ہجرا پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے جو مسجد ہجرا کے نام سے منسوب ہے۔ سلطنت عثمانیہ (ترک) بہت حساس، عاشقان و غلامان رسول لوگ تھے۔ انہوں نے آقا کریمؐ کے وقت کی بہت سی چیزوں، جگہوں کو ویسے کا ویسے رکھا۔ سب جانتے ہیں کہ سرکار کریمؐ عام راستے سے نہیں بلکہ اجنبی راستے سے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے گئے تھے۔ ہر … ان کا راستوں کا جاننے والا، جس کا بندوبست حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کیا تھا، صحرا کے تمام راستوں سے واقف تھا۔ وہ راستہ جدھر سے میرے آقا کریمؐ ہجرت کر کے گئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ نے محفوظ کیے رکھا۔ Preserve کر دیا وہ History Conisos لوگ تھے۔ بہرحال کوئی بتائے گا نہیں لیکن میرے آقاؐ … جب اپنے گھر سے ہجرت کے لیے نکلے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ اور آتا رہے گا تو شاہرہ ہجرا پر جس جگہ چند ساعتیں رُکے اس جگہ وہ مسجد ہجرا ہے کبھی جانا ہو تو ذرا اس مسجد کے انوارات اور اداسی سے بیک وقت محظوظ ضرور ہوئیے گا۔ اگر میں یاد آ جائوں تو دعا کر دیں۔ اس مسجد میں مجھے نوافل پڑھنا نصیب ہوئے نماز چونکہ سامنے حرم ہے۔ میری دریافت اس حوالے سے دریافت کہ آقا کریمؐ مسافرت کے آغاز میں یہاں کچھ دیر کے لیے رُکے۔ سامنے ہی معمول سے اوپر کو چڑھتی ہوئی سڑک جو سڑک نہیں راستہ ہے جس سے ثور کی طرف روانہ ہوئے۔
حرم کے پہلو ہی میں ایک تکونی سی جگہ جو چند کنال پر محیط ہے۔ آقاؐ کے وقت میں تو اب کا حرم تقریباً مکہ شہر تھا۔ یہ تکونی جگہ آج کے حرم کے قریب ہے جس کے لیے مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر زمانہ جاہلیت میں کفار اپنی بیٹیوں کو زندہ دفنا دیا کرتے تھے۔ تمام کفار بھی ایسا نہیں کرتے تھے لیکن جو کرتے تھے ان کے لیے یہ بات مخصوص ہے اور ابھی خاصی تعداد جو سیکڑوں میں ہو گی یہ درندوں کو پیچھے چھوڑ جانے والی روایت کو غیرت سمجھتے تھے۔ میں نے وہ تکونہ قطعہ اراضی دیکھا وہاں بہت دیر کھڑا رہا یہاں تک کہ مجھے احساس ہوا کہ مجھے مت دفناؤ۔ میں تیرا کیا لیتی ہوں۔ مجھے جنگل میں چھوڑ دو، میں کبھی تمہارے سامنے نہ آئوں گی۔ میں تیرا کچھ نہ لوں گی مجھے مت مارو۔ مجھے مت دفنائو۔ اس وقت فضا میں آہوں، سسکیوں، چیخوں، مدد کو پکارتی ہوئی بچیوں کی آوازوں نے مجھے اپنے دکھ، کرب، غم، وحشت اور ناقابل بیان جان لیوا حصار میں لے لیا کہ میں 15 سو سال پیچھے چلا گیا اور میں خود بلک بلک کر رونے لگا میرے آنسوئوں نے میرے سانسوں کی روانی کو معمول پر آنے میں مدد دی میں سوچوں اور پچھتاووں کے قلزم میں ڈوب گیا کہ کاش کاش میرے آقا، رحمت للعالمینؐ ان کی اموات اور تدفین سے پہلے دنیا میں تشریف فرما ہوتے۔ اور کاش یہ پکار، یہ سسکیاں یہ حسرتیں پیدا ہی نہ ہوتیں۔ انسانیت جا بجا دم توڑتی ہوئی نہ پائی جاتی۔
آج ناقدین اسلام، آج اہل یورپ اور امریکہ، اور آج میرا جسم میری مرضی، آج حقوق نسواں، آج انسان بنت کا درس دینے والے دیکھیں کہ رحمت للعالمینؐ نے انسانوں اور انسانیت کے لیے جو کیا، ساری کائنات کے انسانوں کے حقوق کی فکر اور سوچ ایک طرف میرے آقاؐ نے تو درختوں، پتوں، پودوں اور جانوروں کو حقوق دیئے۔
بہرحال یہ تکونہ قطعہ اراضی مجھے اب تک ہانٹ کیے دیتا ہے آقا رحمت للعالمینؐ ہمارے ماں باپ اجداد اور نسلیں آپؐ کے نعلین مبارک کی مٹی پر قربان، الحمدللہ! کہ ہم آپؐ کے امتی اور غلام ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا
امریکی میڈیا کے مطابق عام حالات میں ٹیکساس کے شہر جوزفین کے باہر 400 ایکڑ زمین پر رہائشی منصوبہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی لیکن حالیہ مہینوں میں گورنر گریگ ایبٹ نے اس مجوزہ منصوبے کو روکنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ گورنر کی جانب سے گھروں کی تعمیر کو روکنے کی وجہ ایک ہزار گھروں پر مشتمل اس منصوبے کو ایک مسجد کے گرد بنایا جانا ہے۔
ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے دفاع کے لیے اسلامی سینٹر کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں، گورنر کا ردِ عمل دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ نائن الیون ہو۔
مزید پڑھیں: نائیجر: شدت پسندوں کا مسجد پر حملہ، بازار و گھر نذر آتش، درجنوں افراد ہلاک
حالیہ برسوں میں امریکا میں مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں بعض اوقات مقامی حکام کی جانب سے امتیازی سلوک بھی شامل رہا ہے۔ یہ رکاوٹیں اکثر زوننگ قوانین، تکنیکی مسائل یا مقامی آبادی کی مخالفت کی آڑ میں سامنے آئیں، لیکن متعدد معاملات میں عدالتوں نے ان اقدامات کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے۔
مساجد کی تعمیر میں رکاوٹیں، چند نمایاں واقعات
1: نیوجرسی: برنارڈز ٹاؤن شپ
برنارڈز ٹاؤن شپ نے 2015 میں اسلامی سوسائٹی آف باسکنگ رج کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد تنظیم اور امریکی محکمہ انصاف نے ٹاؤن شپ پر مذہبی امتیاز کا مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ ٹاؤن شپ نے دیگر مذاہب کے عبادت گاہوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔ نتیجتاً، ٹاؤن شپ نے 3.25 ملین ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر اتفاق کیا اور مسجد کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔
2: ورجینیا: کلپیپر کاؤنٹی
کلپیپر کاؤنٹی نے 2016 میں اسلامی سینٹر آف کلپیپر کو مسجد کی تعمیر کے لیے ضروری سیوریج پرمٹ دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس سے قبل 20 برس میں 25 میں سے 24 ایسے پرمٹس منظور کیے جا چکے تھے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے کاؤنٹی کے فیصلے کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں مستحقین کے لیے جامع مسجد کا فری راشن اسٹور
3:مشی گن: اسٹرلنگ ہائٹس
اسٹرلنگ ہائٹس میں 2015 میں ایک مسجد کی تعمیر کی درخواست کو مقامی پلاننگ کمیشن نے مسترد کر دیا۔ سرکاری طور پر ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل کو وجہ بتایا گیا، لیکن عوامی اجلاسوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب آمیز بیانات سامنے آئے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔
4: مسسیپی: ہورن لیک
2021 میں ہورن لیک شہر نے ابراہیم ہاؤس آف گاڈ مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کیا، حالانکہ زمین عبادت گاہوں کے لیے مختص تھی اور درخواست تمام تقاضے پورے کرتی تھی۔ ایک مقامی عہدیدار نے کہا، اگر آپ انہیں تعمیر کی اجازت دیں گے، تو اور لوگ آئیں گے۔ امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔
5: ٹیکساس: پلانو میں EPIC سٹی منصوبہ
ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔
مزید پڑھیں: چترال کے ریاستی دور کی شاہی مسجد جس کے 100 سال مکمل ہوگئے ہیں
قانونی چارہ جوئی اور مذہبی آزادی کا تحفظان واقعات کے بعد، عدالتوں نے اکثر انکار کے فیصلوں کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکی محکمہ انصاف نے بھی کئی معاملات میں مداخلت کی اور مقامی حکام کے خلاف مقدمات دائر کیے۔ ان فیصلوں نے یہ واضح کیا کہ مذہبی آزادی امریکی آئین کا بنیادی حق ہے، اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے روکنا غیر قانونی ہے۔
اگرچہ امریکا میں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ موجود ہے لیکن مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم، عدالتوں اور وفاقی اداروں کی مداخلت سے ان رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی میڈیا ٹیکساس ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی مسجد مسلمان نیوجرسی