جسٹس منصور نے بینچز اختیارات کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے کو توہین عدالت قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
جسٹس منصور نے بینچز اختیارات کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے کو توہین عدالت قرار دیدیا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس آفریدی کو خط لکھ دیا جس میں جسٹس منصور نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس امین الدین خان کو بھی تینوں ججز کی جانب سے خط لکھا گیا ہے جس میں بینچ اختیارات سے متعلق کیس کا ذکر کیا گیا۔
خط میں کہا گیا جسٹس عقیل عباسی کو 16 جنوری کو بینچ میں شامل کیا گیا جو سندھ ہائیکورٹ میں بھی کیس سن چکے ہیں۔ خط میں 20 جنوری کو کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کی شکایت کی گئی۔
خط کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی 17 جنوری اجلاس کا ذکر کیا گیا۔ جسٹس منصور نے کمیٹی کو آگاہ کیا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا اور جسٹس منصور علی شاہ نے ان کے آرڈر پر عمل کیا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ انھیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دیکر 20 جنوری کو سماعت فکس کر سکتی تھی۔
جسٹس منصور نے خط میں کہا کیس فکس نہ کرنا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔ جسٹس منصور نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مقرر نہ ہونے
پڑھیں:
ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پروسس ہے‘ جج عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ہے جبکہ بنچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، صدر کے اختیار سے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئین میں لکھی ہرلائن کا مطلب اور مقصد ہے۔ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سینیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی، جج ہائیکورٹ میں تبادلہ پر آ گیا تو اس کی پہلی سینیارٹی کا کیا ہوگا؟انہوں نے یہ ریمارکس پیرکے روزدیے ہیں۔ ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی وضاحت کا اطلاق صرف ذیلی سیکشن 3 پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول سروس میں اگر ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں تبادلہ ہو تو سینیارٹی متاثر ہوتی ہے، جبکہ عدلیہ میں نہ تو ڈیپوٹیشن کا اصول ہے اور نہ ہی کسی جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول رائج ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمہ میں ضم کرنے کا اصول ضرور موجود ہے، عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں ججز کے تبادلے کے وقت رضامندی نہیں لی جاتی اور سینیارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس پر صلاح الدین نے کہا کہ اگر رضامندی لی جا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سینیارٹی میں تبدیلی ممکن ہے۔وکیل نے دلائل دیے کہ اگر سروس اسٹرکچر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کیڈر ایک ہو تو سینیارٹی متاثر نہیں ہوتی، لیکن اگر کیڈر الگ ہو تو سینیارٹی متاثر ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہاں معاملہ ججز ٹرانسفرز اور سینیارٹی کا ہے، اس لیے اس پر براہ راست سول سروس رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر کسی پر تبادلہ مسلط کیا جائے اور سینیارٹی متاثر ہو تو یہ ناانصافی ہوگی۔صلاح الدین احمد نے کہا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ہندوستانی ہائی کورٹس میں ججز کے تبادلے ہوئے، دہلی ہائیکورٹ کے سینئر جج کو کرناٹک ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔ ججز ٹرانسفر کیس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے متفرق درخواست دائر کردی۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل نے کوئی درخواست دائر کی ہے؟امجد پرویز نے کہا کہ میں نے 1947سے 1976تک ججز ٹرانسفر کی مکمل تاریخ پیش کی ہے،ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27اے کا نوٹس ہوا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے،آپ کو اٹارنی جنرل کے بعد دلائل دینے چاہئیں تھے،آپ کو نہیں پتہ 27اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟عدالت نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ رجسٹرارنے کمنٹس جمع کروائے ہیں تو آپ مرکزی فریق ہیں،جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہاکہ بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل ختم ہوں تو آپ کو سنیں گے ، جسٹس محمدعلی مظہر نے کہاکہ چیف جسٹس پاکستان تبادلہ نہ چاہیں تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے،صدر کے اختیارسے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئین میں لکھی ہرلائن کا مطلب اور مقصد ہے،جوڈیشل کمیشن کی نامزدگی پر کیا صدر انکار کرسکتا ہے؟بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ رولز کے مطابق انتظامی کمیٹی میں تین سینئر ججز شامل ہوتے تھے۔ ٹرانسفر کے بعد جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم سومرو کمیٹی میں شامل ہو گئے، جبکہ ان کے پاس صرف دو دن کا تجربہ تھا۔ بعد ازاں رولز میں ترمیم کی گئی اور چیف جسٹس کے ساتھ دو دیگر ججز کو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔