قیدیوں کے تبادلے کا دوسرا مرحلہ ہفتے کے روز انجام پائیگا، حماس
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
فلسطینی مزاحمتی تحریک نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل و فلسطین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا دوسرا مرحلہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق انجام پائیگا اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا دوسرا مرحلہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق انجام پائے گا۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں حماس نے تاکید کی کہ ہم تصدیق کرتے ہیں کہ قیدیوں کے تبادلے کا دوسرا مرحلہ جنگ بندی معاہدے میں طے شدہ تاریخ یعنی 25 جنوری، ہفتے کے روز ہی انجام پائے گا۔ ادھر عرب چینل المیادین نے بھی فلسطین میں مزاہمتی محاذ کے ساتھ وابستہ اپنے ذرائع سے نقل کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے اگلے مرحلے میں 4 خاتون اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 120 فلسطینی شہریوں کو آزاد کیا جائے گا۔ المیادین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ کی پٹی میں امدادی کام کا اغاز ہو چکا ہے اور ملبہ اٹھانے، ملبے تلے دبی لاشوں کو باہر نکالنے اور گلی کوچوں و شاہراہوں کو دوبارہ کھولنے کے لئے غزہ کی پٹی میں جلد ہی بھاری مشینری بھی داخل ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے پہلے روز امدادی سامان کے حامل 500 ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے تھے جبکہ دوسرے روز ان کی تعداد 600 سے تجاوز کر گئی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے
پڑھیں:
’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)”اگر شہد کی مکھی اس کرہ زمین سے غائب ہو جائے تو انسان صرف چار سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔“ یہ مشہور قول اکثر عظیم سائنسدان البرٹ آئن سٹائن سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن کیا واقعی آئن سٹائن نے یہ الفاظ کہے تھے؟ لیکن سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا شہد کی مکھیاں واقعی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور کیا وہ انسانی زندگی کے لیے واقعی اتنی اہم ہیں؟
شہد کی مکھیاں انسانوں کی بقا کے لیے کیوں اہم ہیں؟ شہد کی مکھیاں بظاہر صرف شہد فراہم کرنے والی مخلوق نظر آتی ہیں، مگر ان کا اصل کردار قدرت کے ایک وسیع اور نازک نظام میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں سے رس اور پولن جمع کرتی ہیں اور پھر مختلف پھولوں تک منتقل کرتی ہیں، جس کے ذریعے پودوں کا تولیدی عمل مکمل ہوتا ہے۔
یہ پودے نہ صرف زمین کی خوبصورتی اور ماحول کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ کروڑوں چرند و پرند اور جانداروں کی خوراک بھی ہیں۔ ان پودوں کو کھانے والے جانور، خود گوشت خور جانوروں کی خوراک بنتے ہیں، جن میں انسان بھی شامل ہے۔ اگر شہد کی مکھیوں کی مدد سے پودوں کی افزائش نہ ہو، تو پوری غذائی زنجیر یا فوڈ چین متاثر ہو جاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں انسانوں سمیت بہت سی مخلوقات معدومی کے دہانے پر جا سکتی ہیں۔
کیا شہد کی مکھیاں واقعی ناپید ہو رہی ہیں؟
مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق، اگرچہ شہد کی مکھیوں کے فوری طور پر مکمل طور پر ختم ہونے کا خطرہ موجود نہیں، تاہم ان کی آبادی میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں،
جنگلات کی کٹائی، قدرتی ماحول میں محفوظ جگہوں کی کمی، پھولوں کی عدم دستیابی، فصلوں پر زہریلے کیمیکلز اور کیڑے مار دواؤں کا استعمال، مٹی کی ساخت میں تبدیلی، اسکے علاوہ موبائل فونز اور دیگر الیکٹرانک آلات سے خارج ہونے والی نقصان دہ ریڈیائی لہریں۔
کچھ ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ 90 فیصد شہد کی مکھیوں کی اقسام معدومی کے قریب پہنچ چکی ہیں، تاہم یہ دعویٰ ابھی تک سائنسی سطح پر مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔
آئن سٹائن کا مشہور قول، حقیقت یا افسانہ؟
جہاں تک اس مشہور قول کا تعلق ہے، جس میں آئن سٹائن سے شہد کی مکھیوں کی ناپیدگی اور انسانی بقا کو جوڑتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’اگر شہد کی مکھی غائب ہو جائے تو انسان صرف چار سال تک زندہ رہ سکتا ہے‘ تو اس بات کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں کہ آئن سٹائن نے واقعی یہ بات کہی ہو۔
دنیا بھر میں کئی معتبر اداروں اور محققین نے اس حوالے سے تحقیق کی ہے اور کسی بھی کتاب، اخباری ریکارڈ، یا آئن سٹائن کے خط و کتابت میں یہ قول موجود نہیں پایا گیا۔
شہد کی مکھیاں، فطرت کی خاموش محافظ
اگرچہ یہ قول آئن سٹائن کا نہیں، مگر یہ پیغام نہایت اہم اور درست ہے۔ شہد کی مکھیاں قدرتی ماحول، فصلوں، اور انسانی خوراک کے نظام میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی حفاظت نہ صرف ماحول بلکہ انسانی زندگی کے تسلسل کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
ہمیں بحیثیت معاشرہ، ان ننھی محنتی مخلوقات کے تحفظ کے لیے شعور بیدار کرنے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ شہد کی مکھیوں کے بغیر نہ پھولوں کی مہک باقی رہے گی، نہ کھیتوں کی رونق، اور نہ ہماری زندگیوں کا تسلسل۔
مزیدپڑھیں :ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں کو خبردار کردیا گیا