راولپنڈی: تالاب سے چار سالہ بچے کی لاش ملنے کے مقدمے میں قتل کی دفعہ بھی شامل
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
راولپنڈی:
تالاب سے چار سالہ بچے کی لاش ملنے کے مقدمے میں قتل کی دفعہ بھی شامل کرلی گئی۔
پولیس کے مطابق بچے کی لاش ظاہری حالت سے 12 سے 15 پرانی ہے جس پر پہلے سے درج اغوا کے مقدمے میں قتل کی دفعہ 302 کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ لاش کی ظاہری حالت دو ماہ تک کھلے آسمان تلے تالاب میں رہنے والی نہیں لگتی، لاش کا پوسٹمارٹم کروا کر نمونے فرانزک تجزیے کے لیے فرانزک سائنس ایجنسی بھجوا دیے گئے ہیں جس سے بچے کی موت کی وجہ اور وقت کا حتمی تعین ہوسکے گا۔
مزید پڑھیں: نومبر میں لاپتا ہونے والے بچے کی لاش دو ماہ بعد تالاب سے مل گئی
ایس پی صدر نبیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ جس دن بچہ لاپتہ ہوا علاقے میں موبائل فون سروس بند تھی جس کی وجہ سے جیو فینسنگ نہ ہوسکی، تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر تفتیش کررہے ہیں۔
چار سالہ ارشمان نومبر 2024 میں شادی کی تقریب میں والدہ سے بچھڑ کر لاپتہ ہوگیا تھا اور اس کی لاش تقریباً دو ماہ بعد 18 جنوری کو اسی علاقے کے تالاب سے ملی تھی۔
بچے کا والد کینسر کا مریض تھا اور بیماری کے باعث بچہ کے اغوا کے 22 دن بعد گمشدگی کا صدمہ دل میں لیے ہی فوت ہوگیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بچے کی لاش تالاب سے
پڑھیں:
دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ کے بچے بتدریج اپنی برباد شدہ درسگاہوں کی جانب لوٹنے لگے ہیں، جہاں ایک بار پھر تعلیم کی شمع روشن ہونے لگی ہے۔ جنگ بندی کے بعد تعلیم کی بحالی نے نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے دلوں میں بھی نئی اُمید پیدا کر دی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی اُنروا نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں بعض اسکول جزوی طور پر دوبارہ کھول دیے گئے ہیں، جہاں بچے عارضی کلاس رومز میں تعلیمی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں۔
اُنروا کے سربراہ فلپ لزارینی کے مطابق اب تک 25 ہزار سے زائد طلبہ عارضی تعلیمی مراکز میں واپس آچکے ہیں، جبکہ تقریباً 3 لاکھ بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ادارے کے مطابق غزہ کے علاقے نصیرات میں واقع الحصینہ اسکول میں تدریسی عمل بحال کر دیا گیا ہے، اگرچہ عمارت اب بھی تباہ شدہ ہے اور کمروں کی شدید قلت ہے۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں 11 سالہ فلسطینی بچی وردہ نے کہا کہ “میں اب چھٹی جماعت میں ہوں، لیکن جنگ اور نقل مکانی نے میری دو سال کی تعلیم چھین لی۔” اُس نے بتایا کہ اسکول اب آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے، اور جیسے ہی عمارت خالی ہوگی، کلاسز معمول کے مطابق جاری ہو سکیں گی۔
رپورٹ کے مطابق تدریس کے ابتدائی دنوں میں ایک ہی کمرے میں پچاس سے زائد طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں، نہ میزیں ہیں نہ کرسیاں، صرف زمین پر بیٹھ کر وہ نوٹ بک میں لکھنے پر مجبور ہیں۔
سخت حالات، محدود وسائل اور ادھڑی عمارتوں کے باوجود غزہ کے بچوں نے ہار نہ مانی۔ وہ علم کے ذریعے اپنی برباد دنیا کو ازسرِنو روشن کرنے کے عزم کے ساتھ اسکولوں کا رُخ کر رہے ہیں — اس اُمید کے ساتھ کہ شاید تعلیم ہی اُن کے مستقبل میں امن کی کرن بن سکے۔