سپریم کورٹ نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی بے دخلیوں کیخلاف درخواست نمٹادی
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
سپریم کورٹ نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی بے دخلیوں کیخلاف درخواست نمٹادی WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی بے دخلیوں کیخلاف دائر درخواست نمٹا دی جبکہ عدالت نے قرار دیا کہ یہ درخواست نگراں حکومت کے دور میں دی گئی تھی، اگر موجودہ حکومت کی پالیسی سے اختلاف ہے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اپنا بوجھ ہم اٹھا نہیں سکتے تو غیر قانونی لوگوں کا کیوں اٹھائیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے غیر قانونی مہاجرین کی بے دخلیوں کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے وکیل عمر اعجاز گیلانی عدالت پیش ہوئے۔دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں حکومت غیر قانونی مہاجرین کو نہ نکالے؟ جس پر ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی نے جواب دیا کہ یہ درخواست بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ بنیادی حقوق پاکستان کے شہریوں کو آئین دیتا ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 40،40 سال سے افغان یہاں رہ رہے ہیں، بچے پیدا ہوگئے بڑے ہوگئے، کیا ان کو سمندر میں پھینک دیں؟ کراچی میں مختلف لوگ ہیں جن کو کوئی لینے کو تیار نہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ میرے صوبے کے تو بارڈر کھلے ہیں دہشت گردی کا کون ذمہ دار ہے؟۔
وکیل عمر اعجاز گیلانی نے کہا کہ پاکستان کا شہریت ایکٹ ہر پیدا ہونے والے کو شہریت دیتا ہے، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ شہریت رجسٹرڈ کے لیے ہوگی نہ کہ غیر قانونی کے لیے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اپنا بوجھ ہم اٹھا نہیں سکتے تو غیر قانونی لوگوں کا کیوں اٹھائیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے غیر قانون افغان مہاجرین کی بے دخلیوں کے خلاف دائر درخواست نمٹاتے ہوئے وکیل درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ آپ کی درخواست نگراں حکومت کے خلاف تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے، موجودہ حکومت کی پالیسی سے اختلاف ہو تو نئی درخواست لا سکتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔