جدید زرعی تربیت کے سلسلے میں چین بھیجنے کے لئے طلبا کے انتخاب میں میرٹ کو ترجیح دینے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چین میں زرعی شعبے کی تربیت کے لئے بھیجے جانے والے طلباکے انتخاب میں شفافیت اور میرٹ کو اولین ترجیح دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی طلبا و طالبات کی چین میں جدید زرعی تربیت کا پورا خرچ حکومت پاکستان اٹھائے گی۔
وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت چین میں جدید زراعت کی تربیت کے حصول کے لئے جانے والے پاکستانی طلبا و طالبات کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا۔
اجلاس میں وفاقی وزرا احسن اقبال، رانا تنویر حسین، احد خان چیمہ، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
وزیرِ اعظم نے پورٹل کے ذریعے درخواستوں کی سکروٹنی کے دوران سلیکشن کے معیار پر پورا نہ اترنے والے طلبا و طالبات کی شکایات کے ازالے کےلئے کمیٹی بنانے کی ہدایت کی اور کہا کہ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے جس کی زرعی شعبے میں ترقی بے مثال ہے۔ اپنے دورہ چین کے دوران چینی قیادت سے زرعی شعبے میں پاکستانی طلبا کی جدید تربیت کی درخواست کی تھی۔ اللہ کے فضل و کرم سے بہت جلد طلبا و طالبات کا پہلا بیچ زراعت کے شعبے میں جدید تربیت کے لئے چین روانہ ہوگا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ زرعی شعبے کی جدید تربیت کے لئے چین جانے والے طلبا و طالبات میں 10 فیصد خصوصی کوٹہ بلوچستان کے طلبا کے لئے مختص کیا گیا۔ چینی قیادت اور چینی یونیورسٹیوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے پاکستانی طلبا کو چین میں زراعت کی جدید تربیت کا موقع دیا۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات نے شفاف طریقے سے پورٹل کے ذریعے درخواستیں جمع کروائیں۔ 1287 درخواستوں میں سے 711 طلبا و طالبات تربیت کے طے کردہ معیار پر پورے اترے۔ ان طلبا و طالبات میں بلوچستان اور گلگت بلتستان کے امیدوار بھی شامل ہیں۔ اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ ان طلبا و طالبات کو دو بیچز میں چین بھیجا جائے گا۔
پہلی کھیپ میں 300 طلبا و طالبات آبپاشی میں بہتری، مویشیوں میں بیماریوں کی تشخیص و نگرانی، مویشیوں کی افزائش نسل و جدید جینیات اور جدید بیجوں کی تیاری و ان کی پراسیسنگ کے شعبوں میں تربیت کےلئے بھیجا جائے گا۔ طلبا و طالبات کی پہلی کھیپ مارچ 2025 میں چین روانہ ہوگی۔اجلاس کو مزید آگاہ کیا گیا کہ 400 طلبا کی دوسری کھیپ رواں برس کے وسط میں چین بھیجی جائے گی جو زراعت میں جدید مشینری کے استعمال، فصلوں کی تیزی سے افزائش، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی بشمول مصنوعی ذہانت کا استعمال اور پھلوں و سبزیوں کی پراسیسنگ کے شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی طلبا طلبا و طالبات جدید تربیت والے طلبا تربیت کے چین میں میں چین کے لئے
پڑھیں:
کراچی بورڈ کا شفاف نتیجہ میرٹ کی فتح، دباؤ کی شکست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میٹرک بورڈ کے حالیہ نتائج نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ برسوں سے یہ شکایات زبان زدِ عام تھیں کہ امتحانی نتائج میں شفافیت کی کمی ہے، سفارشیوں کے لیے رعایتیں کی جاتی ہیں، اور پیسوں کے عوض نمبر یا نتائج میں رد و بدل معمول کی بات بن چکی ہے۔ لیکن اس مرتبہ منظر نامہ بالکل مختلف تھا۔ اس تبدیلی کا سہرا چیئرمین بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی، محمد حسین سوہو کے سر جاتا ہے، جو نہ صرف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں بلکہ انتظامی امور میں بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن ایف ڈی ای اسلام آباد، ڈائریکٹر NAVTTC، ڈائریکٹر STEVTA اور ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب رہ چکے ہیں۔ اس طویل پیشہ ورانہ سفر نے انہیں تعلیم اور امتحانی نظام کے ہر پہلو سے آگاہی بخشی، اور یہی تجربہ ان کے موجودہ کردار میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ ان کی زیر نگرانی کراچی بورڈ نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کی عوام کو برسوں سے آرزو تھی۔ اس بار کے میٹرک کے نتائج میں ایک روپے کی کرپشن کا بھی شائبہ نہیں پایا گیا۔ نہ کوئی سیاسی دباؤ کارگر ہوا، نہ ہی اندرونی سفارشات یا میڈیا کے دباؤ نے نتائج پر اثر ڈالا۔ چیئرمین صاحب نے ہر قسم کے دبائو کو رد کرتے ہوئے حقدار طلبہ کو ان کا جائز مقام دلایا۔ اس کامیابی میں چیئرمین صاحب کے ساتھ ساتھ ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن، جو اس وقت ایکٹنگ کنٹرولر کے فرائض انجام دے رہے تھے، بھی بھرپور تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے دیانت داری اور غیر معمولی محنت سے اس سارے عمل کو شفاف بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چیئرمین کی قیادت اور ڈپٹی کنٹرولر کی عملی نگرانی نے مل کر ایک ایسا نتیجہ ممکن بنایا جو کئی برسوں بعد دیکھنے کو ملا۔
یہی شفافیت اس بات سے جھلکتی ہے کہ نتائج کی تیاری کے دوران بورڈ نے سخت غیرجانبداری اپنائی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مارکنگ اور رزلٹ کمپائلنگ میں انسانی غلطیوں کے امکانات نہ ہونے کے برابر کر دیے۔ پرچوں کی مارکنگ اور ری چیکنگ کے لیے دوہرا نظام رائج رہا تاکہ انصاف پر کوئی آنچ نہ آئے۔ مارکنگ کرنے والے اساتذہ کی مسلسل نگرانی اور جانچ پڑتال کی گئی اور انہیں پیشگی ورکشاپس کے ذریعے اس بات کی تربیت دی گئی کہ کس طرح ہر پرچے کا جائزہ خالص میرٹ پر لیا جائے۔ نتائج پر اعتراض کرنے والے طلبہ یا والدین کے لیے ایک باقاعدہ شکایتی نظام وضع کیا گیا، جہاں ان کی آواز کو سنجیدگی سے سنا گیا اور بروقت ازالہ کیا گیا۔ اس دوران سیکریسی سیکشن نے پرچوں کے کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کے عمل میں طلبہ کی شناخت کو مکمل طور پر مخفی رکھا تاکہ کسی بھی تعصب کا شائبہ تک نہ ہو۔ اگر کہیں کوئی تکنیکی یا انسانی غلطی سامنے آتی تو فوری اصلاح کا نظام موجود تھا، جو شفافیت کی ضمانت ہے۔ امتحانی مراکز میں نقل کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے گئے جس کا براہِ راست اثر نتائج پر پڑا اور محنتی طلبہ کی کامیابی سامنے آئی۔ رزلٹ کارڈز اور مارکس شیٹس کے اجرا میں ڈیجیٹلائزیشن نے نہ صرف بروقت فراہمی کو ممکن بنایا بلکہ جعلسازی کے تمام راستے بھی بند کر دیے۔ کمزور طلبہ کے لیے خصوصی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا اہتمام کیا گیا تاکہ وہ مایوس نہ ہوں اور آئندہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔
مزید یہ کہ نتائج کے بعد طلبہ کے مستقبل کی رہنمائی کے لیے بورڈ کی جانب سے کیریئر کونسلنگ کو بھی اہمیت دی گئی، تاکہ کامیاب طلبہ اگلی سطح کی تعلیم کے انتخاب میں درست فیصلے کر سکیں۔ بین الاقوامی تعلیمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف رزلٹ سازی کی پالیسی اپنائی گئی بلکہ ان اساتذہ اور ممتحنین کو بھی سراہا گیا جنہوں نے ایمانداری اور بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس مقصد کے لیے بورڈ کی حکمت عملی یہ ہے کہ شفاف امتحانی عمل کو یقینی بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خاص طور پر نمایاں بات یہ رہی کہ اورنگی ٹاؤن جیسے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے دوسری پوزیشن حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ قابلیت اور محنت کی بدولت ہر مشکل کو شکست دی جا سکتی ہے۔ کم وسائل رکھنے کے باوجود اس طالبہ کی شاندار کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ شفاف نظام ہمیشہ محنت کرنے والوں کو آگے لے کر آتا ہے۔ اسی طرح دیگر پوزیشن ہولڈرز نے بھی یہ پیغام دیا کہ جب امتحانات میرٹ پر ہوں تو خواب حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ سب اقدامات چیئرمین محمد حسین سوہو صاحب اور ایکٹنگ کنٹرولر کی مشترکہ قیادت کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے میڈیا، ادارہ جاتی اور داخلی دباؤ کو یکسر مسترد کر کے ایک ایسا شفاف رزلٹ پیش کیا ہے جو آنے والے برسوں کے لیے ایک معیار قائم کر گیا ہے۔ آج کے اس نتیجے نے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کی ساکھ میں اضافہ کیا ہے اور یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ جب قیادت نیک نیت اور پختہ عزم کے ساتھ کام کرے تو ادارے اپنی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب، ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن اور ان کی ٹیم کی یہ کاوش اس بات کی عملی مثال ہے کہ تعلیم اور امتحانی نظام کو درست کرنے کے لیے نیک نیتی، استقلال اور میرٹ سے جڑا ہوا رویہ سب سے اہم ہے۔ اگر یہی تسلسل قائم رہا تو وہ دن دور نہیں جب کراچی بورڈ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کا ایک مثالی تعلیمی ادارہ بن کر ابھرے گا۔