اسرائیل کی سرتوڑ کوششیں حماس کو ختم کیوں نہ کرسکیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ غزہ میں امن آتے ہی ایک بار پھر حماس کے جنگجو اپنی پناہ گاہوں سے باہر آ گئے۔
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند گروہ حماس نے 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ تاحال غزہ میں اس کا کنٹرول اپنی جگہ قائم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو اپنی تاریخ میں پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسرائیلی اخبار
حماس کی حکومت کا خاتمہ اسرائیل کی کھڑی کی گئی جنگ کے بنیادی اہداف میں سے ایک تھا لیکن لاکھ کوششوں اور اپنی تمام فوجی قوت غزہ میں استعمال کرنے کے باجود وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
اسی لیے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فریقین کے درمیان ایک بار پھر لڑائی ہو سکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نتیجہ موجودہ حالات سے مختلف نہیں ہو گا۔
اتوار کو جب حماس نے 3 اسرائیلی یرغمال خواتین کو ریڈ کراس کے حوالے کیا تو وہ مناظر انتہائی ڈرامائی تھے۔ ان یرغمالوں کی گاڑیوں کو سر پر سبز پٹیاں باندھے حماس کے درجنوں جنگجوؤں نے گھیرے میں لے رکھا تھا جن کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افراد کا ہجوم بھی تھا۔ یہ سب مناظر براہ راست اسرائیل اور دنیا بھر میں دیکھے گئے۔
غزہ میں دیگر مقامات پر سامنے آنے والے مناظر اس سے بھی زیادہ ڈرامائی تھے۔ حماس کی پولیس کے ہزاروں اہلکار سڑکوں پر نکل آئے اور انتہائی تباہ شدہ علاقوں میں بھی یہ دکھائی دیے۔
مزید پڑھیے: جنگ بندی معاہدہ، حماس نے 3 یرغمالی، اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدی رہا کر دیے
غزہ سٹی میں اپنے گھر واپس آنے والے محمد عابد نے بتایا کہ پولیس والے یہاں سے کہیں گئے نہیں تھے بس فرق اتنا ہے کہ جنگ بندی کے بعد اب یہ اپنی وردیوں میں نظر آ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے بے گھر افراد کے کیمپس ہی میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے وہاں چوری کے واقعات نہیں ہوتے تھے۔
غزہ کے دیگر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے اسپتالوں اور دیگر مقامات پر دفاتر بنائے ہوئے تھے جہاں لوگ شکایات درج کرا سکتے تھے۔
اسرائیل تواتر کے ساتھ حماس کو غزہ میں شہریوں کے بھاری جانی نقصان اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا ذمے قرار دیتا آیا ہے۔ اس کے بقول حماس اپنے جنگجوؤں کو رہائشی علاقوں، اسکولوں اور اسپتالوں میں رکھتی ہے جس کی وجہ سے یہ مقامات بھی لڑائی کی زد میں آتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا نے بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
تحریک کی گہری جڑیںفلسطینی معاشرے میں حماس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ سنہ 1980 کی دہائی میں قائم ہونے والی اس تنظیم کے مسلح اور سیاسی ونگ علیحدہ ہیں۔ اس کے علاوہ حماس اپنا میڈیا اور کئی خیراتی پروگرام بھی چلاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حماس کے خلاف جھڑپوں میں 74 ہزار صہیونی فوجی زخمی، نصف تعداد نفسیاتی امراض کا شکار
حماس دہائیوں سے ایک منظم شورش جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اسرائیلی فورسز پر حملے اور اسرائیل پر خودکش اور بم حملے جیسی کارروائیاں کرنا بھی شامل ہے۔
مقتول رہنماؤں کی جگہ نئی قیادت لے لیتی ہےحماس کے کئی رہنما قتل ہو چکے ہیں لیکن ان کی جگہ نئی قیادت لے لیتی ہے۔
حماس نے سنہ 2006 کے پارلیمانی الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی اور اگلے ہی برس اس نے فلسطینی اتھارٹی سے کشیدگی اور لڑائی کے بعد غزہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
اس کے بعد حماس نے غزہ میں ایک حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا تھا جس میں وزارتیں، پولیس اور بیورو کریسی کا نظام تھا۔ اس کی سیکیورٹی فورسز نے غزہ کے طاقت ور خاندانوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا اور متحارب گروپس کو کچل دیا۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس نے مبینہ طور پر اختلافی آوازوں کو بھی بے رحمی سے دبایا اور بعض مواقع پر اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو بھی کچل دیا۔
مزید پڑھیں: حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کی فہرست جاری کردی
اسرائیل کے ساتھ ہونے والی گزشتہ 4 جنگوں سے حماس غزہ میں اقتدار میں ہے۔ ایران کی مدد سے اس نے اپنی صلاحیتیں بڑھائی ہیں اور اپنے راکٹس کی رینج بڑھا کر انہیں اسرائیل کے زیادہ اندر تک رسائی کے قابل بنایا ہے۔
علاوہ ازیں اسرائیل کے فضائی حملوں سے بچنے کے لیے حماس نے زیرِ زمین سرنگوں کے اپنے نیٹ ورک کو مزید بڑھایا ہے۔7 اکتوبر 2023 تک حماس ہزاروں جنگجوؤں کے دستے تیار کر چکی تھی۔
ان صلاحیتوں کے ساتھ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک ایک منظم حملہ کردیا تھا جس میں اس کے جنگجو جنوبی اسرائیل میں زمین، فضا اور سمندر تینوں راستوں سے حملہ آور ہوگئے تھے۔
اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر سویلین تھے۔ جب کہ حماس کے جنگجو 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
جنگ جو اس سے پہلے نہیں لڑی گئیاس کے فوراً بعد اسرائیل نے غزہ میں جنگ گرم کردی جس میں حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 47 ہزار سے زائد افراد شہید اور سوا لاکھ سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ اس پٹی میں ہر طرف عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں اور غزہ کی لگ بھگ 90 فی صد آبادی ایک سے زائد بار بے گھر ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ، سعودی عرب کا خیر مقدم، غزہ میں جشن
غزہ میں جنگ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج کی جانب سے درجنوں جنگجوؤں کو ماردینے یا کسی کمانڈر کو گرفتار کرنے یا کسی سرنگ، کمپلیکس یا ہتھیار کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے اعلانات سامنے آتے رہے۔
اسرائیلی فورسز نے حماس کے ٹاپ لیڈر یحییٰ سنوار اور دیگر کئی اہم رہنماؤں کو شہید کیا لیکن پھر بھی حماس کی جلاوطن قیادت نہیں بکھری اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار نے غزہ میں بڑی ذمے داریاں سنبھال لیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے 17 ہزار جنگجو ماردیے ہیں۔ اس دعوے کو درست مانا جائے تو اسرائیل جنگ سے قبل حماس کی جتنی افرادی قوت کا اندازہ لگایا گیا تھا ان میں سے نصف کو ختم کر چکی ہیں۔ تاہم فوج نے تاحال اپنے دعوے کے ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔
اسرائیلی دعوے اور حقیقتاسرائیل کا دعویٰ رہا ہے کہ اس نے غزہ میں انتہائی محتاط انداز میں کارروائیاں کی ہیں لیکن ان حملوں میں خواتین، بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں امریکا کے سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ حماس نے اس سے زیادہ جنگجو بھرتی کر لیے ہیں جتنے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کھوئے تھے۔
فلسطینی امور کے ماہر اور اسرائیلی انٹیلی جینس کے سابق افسر مائیکل ملشٹن کا کہنا ہے کہ حماس اب دوبارہ 7 اکتوبر کی طرح کے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لیکن اسرائیل کا نہ پھٹنے والا گولہ باردود اور گھریلو ساختہ دھماکہ خیز مواد استعمال کر کے اپنی مزاحمت جاری رکھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے اور خود بدلے حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ حماس کی کامیابی کے مضبوط تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہی ہے۔
حماس کا متبادلحماس کے فلسطینی ناقدین کا دیرینہ مؤقف ہے کہ جنگ اب مشرق وسطی کے تنازع کا حل نہیں ہے جو اس تنظیم کے وجود میں آنے سے کئی دہایوں پہلے سے چلا آ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں ملبے کے نیچے 10 ہزار لاشیں موجود ہونے کا انکشاف
ان کا مؤقف رہا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس اگر اسرائیل کا قبضہ ختم کرانے کے لیے کوئی متبادل راستہ ہوتا تو وہ کب سے حماس سے اپنی راہیں جدا کر لیتے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں اور انہوں نے یقینی بنایا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کوئی اور راستہ نہ رہے۔
امریکا اور عرب ممالک یہ تجویز پیش کرتے آئے ہیں کہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو مزید مؤثر بنایا جائے تاہم نیتن یاہو ایسی تجاویز کو نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ اس کے برعکس وہ دونوں علاقوں پر غیر معینہ مدت تک سیکیورٹی کنٹرول قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: رہائی کے دوران حماس جنگجوؤں کا یرغمالیوں سے مثالی حسن سلوک
ایک سینیئر اسرائیلی صحافی اور نیٹ فلکس پر معروف ہونے والی سیریز ’فوضیٰ‘ کے کو کریئٹر ایوی اساکاروف کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات سے انکار اس جنگ کی سب سے بڑی ’شکست‘ ہے۔
اپنے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسرائیل ایک ڈراؤنے خواب سے دوسرے ڈراؤنے خواب میں آنکھ کھول رہا ہے اور حماس اب بھی حکومت کرتی رہے گی، سرنگیں بناتی رہے گی اور مزید بھرتیاں کرتی رہے گی کیوں کہ اس پر کسی مقامی مقابل کے سامنے آنے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔
’جنگ دوبارہ شروع ہوسکتی ہے‘نتین یاہو پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر 6 ہفتوں پر مشتمل جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے اہداف پورے نہ ہوئے تو جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیے: رہائی پانے والی اسرائیلی خواتین حماس کے حسن سلوک کی گواہ بن گئیں
ادھر حماس کا کہنا ہے وہ لمبے عرصے تک جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا تک دیگر کئی درجن یرغمالوں کو رہا نہیں کرے گی۔
بظاہر اس کی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی ہے کہ ایسی کسی صورت حال میں مزید طویل لڑائی مختلف نتائج لے کر آئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسرائیل کی ناکامی حماس حماس جنگجو حماس قیادت حماس کی ثابت قدمی فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیل کی ناکامی حماس قیادت حماس کی ثابت قدمی فلسطین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے جنگجوو ں کہ حماس کے ساتھ نے والے حماس کے حماس کی کے بعد یہ بھی رہا ہے
پڑھیں:
کراچی میں سرکاری اسکول کو سیل کرکے قبضے کی کوششیں، متعلقہ اداروں کا اظہارِ لاعلمی
کراچی میں ایک سرکاری اسکول کو سیل کرکے قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ متعلقہ اداروں نے اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سولجر بازار میں طالبات کے سرکاری اسکول کی سیل کی جانے والی عمارت کو ٹاؤن ناظم کی کاوشوں سے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے اور سولجر بازار تھانے کی جانب سے سیل کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ مافیا کی جانب سے اسکول کو سیل کیا گیا تھا۔
عمارت پر قبضے کے لیے اس سے قبل بھی حملے کیے جاچکے ہیں۔ جمشید ٹاؤن کے علاقے سولجر بازار نمبر تین میں واقع جفلرسٹ گرلز ہائیر سیکنڈری اسکول کی عمارت کو جمعہ کی شب 8 بجے اچانک مخدوش قرار دیتے ہوئے سیل کردیا گیا اور اسکول کے ہرگیٹ پر ایس بی سی اے کا نوٹیفکشن بھی چسپاں کر دیا گیا۔
ہفتے کی صبح جب طالبات اور اساتذہ اور طالبات اسکول پہنچے تو گیٹ پر تالے دیکھ کر حیران رہ گئیں، اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اسکول سیل کرنے سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع یا نوٹس موصول نہیں ہوا۔ اسکول کے باہر دیوار پر جو نوٹیکیشن آویزاں کیا گیا تھا اس کے مطابق پلاٹ نمبر 325/1 اور 356 جی آر ای گارڈن ایسٹ کوارٹرز کو خطرناک حالت کے باعث بند کیا گیا ہے۔
ایس بی سی اے حکام نے انتباہ جاری کیا ہے کہ بلڈنگ کی حدود میں کوئی داخل نہ ہو، ممنوعہ حدود میں داخل ہونے کا قانون لاگو ہوگا اور خلاف ورزی کی صورت میں قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
دوسری جانب اسکول سیل کیے جانے پر اساتذہ اور طالبات اسکول کے باہر اسمبلی لگانے کے بعد گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ اسکول انتظامیہ نے بتایا کہ علاقے کے ٹاؤن ناظم اور ہیڈ مسٹریس نے نوٹیفکیشن کے بارے میں پہلے سولجر بازار تھانے اور پھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے آفس سے معلومات حاصل کیں تو انہوں نے اسکول کے سیل کرنے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور ہیڈ مسٹریس کو بتایا کہ سرکاری یا غیر سرکاری عمارت کو سیل کرنے سے پہلے نوٹس بھیجے جاتے ہیں جبکہ علاقہ پولیس اسٹیشن سمیت دیگر متعلقہ دفاتر جس میں کے الیکٹرک اور سوئی گیس کمپنی کو بھی نوٹیفکیشن کی کاپی بھیجی جاتی ہے۔
ٹاؤن ناظم نے علاقہ پولیس کی موجودگی میں اسکول پر لگائی جانے والی جعلی سیل کو توڑ دیا ، اسکول انتامیہ ، چوکیدار اور اسکول میں پڑھنے والی بچیوں کے والدین نے بتایا کہ مافیا اسکول کی اراضی پر قبضے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے ، یہ واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہے اس سے قبل تین مرتبہ اسکول کی اراضی پر قبضے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
کچھ عرصہ قبل تو مافیا کے کارندوں نے بلڈورزر سے عمارت کو گرانے کی کوشش کی تاہم اس وقت بھی علاقہ مکینوں اور پولیس کی مداخلت کی وجہ سے انہیں ناکامی ہوئی تھے، اسکول پر قبضہ کرنے والے اثر رسوخ والے ہیں وہ آئندہ بھی اسطرح کی کوشش کرینگے تاہم انہیں پھر ناکامی ہی ہوگی ، کیونکہ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور محنت کش شہریوں کی بچیاں پڑھتی ہیں اور ان کی دعاؤں سے قبضہ مافیا کو ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔
طالبات کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں سارے اسکول پرائیوٹ ہیں جن کی ہزاروں روپے فیس ہے ، والدین محنت مزدوری کرتے ہیں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ مہنگے اسکولوں کی فیس دے سکیں۔
بچیوں کا کہنا تھا کہ انہیں پڑھنے اور پڑھ کر کچھ بننے کا شوق ہے اور ہمارے اس اسکول میں اساتذہ پوری توجہ کے ساتھ ہمیں پڑھاتے ہیں ، طالبات نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ کہ خدارا ہمارے اسکول کو سیل نہ کریں کیونکہ اگر اسکول سیل ہوا تو ہمارے تعلیم پر بھی تالے لگ جائنگے ۔