’مارچ اور اپریل میں بھی بارشوں کے امکانات بہت کم ہیں‘
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ پہاڑی علاقوں میں رات کے اوقات میں شدید سرد رہنے کا امکان ہے، اس کے علاوہ جنوبی پنجاب اور بلائی سندھ کے میدانی علاقوں میں ہلکی دھند پڑنے کی توقع ہے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے رواں موسم سرما میں بارش کی متعدد بار پیش گوئیاں کی گئیں لیکن یا تو بارش ہوئی نہیں یا پھر پیش گوئیوں کے مطابق بارشوں کے سلسلے کے بجائے فقط بوندا باندی سے اشک شوئی ممکن ہوسکی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں موسم سرما کا آغاز؛ برفباری اور بارشیں کم ہونے کا امکان
رواں موسم سرما میں بارشیں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوئی ہیں، جس پر پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے قومی خشک سالی مانیٹرنگ سینٹر نے ایک ایڈوائزری میں بتایا ہے کہ میدانی علاقوں میں خاطر خواہ بارش نہ ہونے کے باعث خشک سالی کی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔
ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ یکم ستمبر 2024 سے 15 جنوری 2025 تک پاکستان بھر میں معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں، ایڈوائزری میں فراہم کردہ تفصیل کے مطابق سندھ میں بارشیں معمول سے 52 فیصد کم، بلوچستان میں 45 فیصد اور پنجاب میں 42 فیصد کم ہوئیں ہیں۔
مزید پڑھیں: محکمہ موسمیات جدت کی جانب گامزن، جدید سرویلنس ریڈار خریدنے کا فیصلہ
بارشیں نہ ہونے کی وجہ نہ صرف کسان بلکہ عام عوام بھی پریشان ہیں، خشک اور سرد موسم کے باعث شہریوں کو لاحق صحت کے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے، سوال یہی ہے کہ آخر موسم سرما کی بارشیں کب ہوں گی۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحبزاد خان کے مطابق بارش کے کافی حد تک امکانات تھے لیکن بارش نہیں ہوئی اور اب اگلے ہفتے تک اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بارش کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
مزید پڑھیں: درجہ حرارت مزید بڑھے گا یا نہیں، محکمہ موسمیات نے کیا پیشگوئی کی ہے؟
’آج بھی اچھی دھوپ نکلی ہوئی ہے، اس لیے یہ کہنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ مارچ یا اپریل میں بارشیں ہونے کا امکان ہے کہ نہیں، اس وقت موسم کی صورتحال کے پیش نظر آئندہ 2 مہینوں میں بھی بارش کے امکانات خاصے معدوم نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ پی ایم ڈی کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری میں بھی کہا گیا تھا کہ بارش نہ ہونے کے باعث خشک موسم میں بہتری کا امکان نہیں ہے، کیونکہ سیزن کا دوسرا نصف حصہ بھی پہلے نصف کی طرح خشک رہنے کی توقع ہے۔
مزید پڑھیں: ملک بھر میں سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا، محکمہ موسمیات
محکمہ موسمیات کے سربراہ مہر صاحبزاد خان کے مطابق اس طرح کی صورتحال ماضی میں بھی دیکھی گئی ہے۔ ’یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بارشیں معمول سے کم ہوئی ہوں۔‘
موسم سرما میں بارشوں اور برفباری کے نہ ہونے سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟موسمیاتی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے والے ماہر ماحولیات محمد توحید نے وی نیوز کو بتایا کہ ملک میں موسم سرما کا دورانیہ سکڑ رہا ہے جبکہ موسم گرما کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
مزید پڑھیں: ملک بھر میں رواں ماہ ڈینگی خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے، محکمہ موسمیات کی وارننگ
’موسم میں کافی تغیرات وقوع پذیر ہورہے ہیں، مغربی ہواؤں کا سلسلہ، مون سون کا اختتام ان سب میں تبدیلی دیکھی گئی ہے، جس نے موسم سرما کی بارشوں اور برفباری کے معمول کے سلسلے کو شدید متاثر کیا ہے۔‘
محمد توحید کے مطابق پاکستان میں اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، جس سے سرد کی شدت اور دورانیہ دونوں میں کمی ہوئی ہے، پاکستان کے بہت سے شہروں میں اب سردی اس طرح سے محسوس نہیں ہو رہی جیسے ہوا کرتی تھی، سردیوں کی فصلوں کی پیدا بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: محکمہ موسمیات کا ملک میں زلزلہ کی پیش گوئیوں سے متعلق بیان
’فصلوں کی کاشت اور کٹائی کا دورانیہ بدل رہا ہے، برفباری میں کمی سے جہاں پانی کی قلت ہوگی، وہیں غیر متوقع متغیرات وائرس اور بیکٹریا پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں، جبکہ برفباری نہ ہونے سے پہاڑی علاقوں میں سیاحت متاثر ہوگی، یعنی لوگوں کا روزگار متاثر ہوگا۔‘
محمد توحید کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت کی تبدیلی سے شدید تمام تر عمومی مظاہر قدرت متاثر ہوتے ہیں اور اگر بروقت انتظامات نہ کیے گئے تو وقت کے ساتھ ساتھ 4 کے بجائے صرف ایک ہی موسم رہ جائے گا یعنی موسم گرما۔‘
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیاں تباہی پھیلانے لگیں، ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنا ناگزیر
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ موسم کی دوسری ششماہی کے دوران گرم درجہ حرارت اور معمول سے کم بارشیں اسلام آباد اور راولپنڈی میں پولن سیزن کے قبل از وقت آغاز کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد بارشیں برفباری بیکٹریا پولن سیزن درجہ حرارت راولپنڈی محکمہ موسمیات وائرس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام آباد بیکٹریا پولن سیزن راولپنڈی محکمہ موسمیات وائرس ایڈوائزری میں محکمہ موسمیات مزید پڑھیں علاقوں میں کا امکان متاثر ہو کے مطابق معمول سے نہ ہونے میں بھی رہا ہے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
پاک افغان تعلقات میں بہتری کی بنیادی کنجی باہمی اعتماد کا ماحول،دو طرفہ بات چیت،باہمی ہم آہنگی،ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی موثرحکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجود بداعتمادی کا ماحول، جنگ و جدل اور تنازعات کو آگے بڑھا کر پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مکمل طور پر ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لیکن اب حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے باہمی امور پر تفصیلی ملاقاتیں اور بات چیت کا عمل برف پگھلنے کا واضح اشارے دے رہا ہے۔اگرچہ فوری طور پر پاک افغان تعلقات میں بہت بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔لیکن اب اگردو طرفہ بات چیت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر خطے میں بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔لیکن اس بات کا انحصار دونوں ملکوں کی باہمی سفارت کاری اور ڈپلومیسی پر ہے کہ وہ کس طریقے سے دو طرفہ معاملات میں موجود مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کے بعد آگے لے کر چلتے ہیں۔
اس وقت پاک افغان تعلقات میں خسارے یا بداعتمادی کا بنیادی نقطہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی ہے۔پاکستان طالبان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو افغان افغان حکومت کی جانب سے بھی مختلف نوعیت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کو اس امریکی اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہے جو 2021 میں امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔
پاکستان کا یہ موقف ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس امریکی اسلحے تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو ناممکن بنایا جائے جب کہ امریکا افغان طالبان سے افغانستان میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس لے۔ پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ افغانستان سمیت عالمی دنیا میں کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی ہے ۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل میں بھی سرحد پار دہشت گردی گفتگو کا سرفہرست نقطہ تھا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی مختلف سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی جو لہر ہے یا بلوچستان اور خیبر پختون کے سیکیورٹی سے جڑے حالات ہیں ان کا تعلق عملی طورپرافغانستان سے جڑا ہوا ہے۔کیونکہ جب تک افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں ختم نہیں کرتی اور مطلوبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کرتی، اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دورے کے بعد طالبان حکومت، پاکستان کے جو بھی تحفظات ہیںاس پر کس طرز کے سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہے اور کیسے باہمی معاملات کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں دکھاتی ہے۔کیونکہ پاک افغان تعلقات کا حل محض باتوں سے ممکن نہیں ہے جب تک افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری کا حل آسانی سے سامنے نہیں آئے گا۔
پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور خطے میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو گی۔لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم کو پاکستان افغانستان تعلقات میں مختلف نوعیت کے بگاڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں ایک بڑا چیلنج دہشت گردی ہی ہے۔ افغانستان کے داخلی مسائل کا جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت نہیں ہے، جب کہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔
افغان حکومت ب مختلف گروپ بندیوں کا شکار ہے، اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں افغانستان کی اپنی پالیسی میں تضادات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ افغان میڈیا نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ افغان حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی افغان میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔خود بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں بہتری کے پہلو سامنے آئیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی موجود رہے تاکہ پاکستان افغانستان کے دباؤ میں رہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔
پاکستان کو یہ بھی سمجھناہوگا کہ امریکا بھی افغان پالیسی میں تبدیلی لارہا ہے اور پاکستان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے وہ عملا متبادل آپشن دیکھ رہا ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے وقت کے تقاضے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے ۔پاکستان کو افغان قیادت یا حکومت میں اس تاثر کو مضبوط بنانا ہوگا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی طرح افغان حکومت ضرور بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائے مگر یہ پاکستان کی قیمت یا پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے سے نہیں جڑا ہونا چاہیے۔
جہاں ہمیں علاقائی ممالک کا تعاون درکار ہے وہیں عالمی قوتوں کے بغیر بھی یہ جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اب اگر دونوں ممالک نے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے تواسی راستے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس لیے مذاکرات کے دروازے کو دونوں اطراف سے بند نہیں ہونا چاہیے اور جو بھی قوتیں پاکستان افغانستان تعلقات میں خرابی یا رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتی ہیں ان کا مقابلہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔اچھی بات یہ ہے حالیہ دو طرفہ گفتگومیں افغانستان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی جو یقینی طورپر امید کا پہلو ہے کہ افغانستان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میںبگاڑ بڑھ رہا ہے۔