Jasarat News:
2025-07-25@00:13:06 GMT

لوگو! چوکیدار نہ رکھنا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

لوگو! چوکیدار نہ رکھنا

میں: تم آج پھر کسی خطرناک موڈ میں لگ رہے ہو؟

وہ : نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں،بس آج اس چوکیداری نظام پر گفتگو کرلیتے ہیں جو دنیا میں صدیوں سے رائج ہے۔

میں: تو پھر کیوں نہ پہلے یہ کھوج لگائی جائے کہ اس چوکیداری نظام کا آغاز کب ہوا اوروہ کون تھا جسے دنیا میں سب سے پہلے اپنی جان بچانے اور جائیداد وگھر وغیرہ کی حفاظت کے لیے کسی محافظ کی ضرورت پیش آئی ہو؟

وہ : میرے خیال سے اس اولین فرد کو تاریخ کے گم شدہ اوراق میں تلاش کرنا مشکل کام ہے لیکن فطری طور پہلی بار یہ ضرورت خوں خوار جانوروں اوروحشی درندوں سے انسانوںاور ان کی بستیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پڑی ہوگی۔اورجیسے جیسے سماج میں تہذیب وتمدن کی بنیادیں مستحکم ہوئی ہوں گی توویسے ویسے انسانوں کوجانوروں کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے انسانوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی اس پہرے داری کی ضرورت پڑتی گئی ہوگی۔

میں: خطرناک اورموذی جانوروں سے بچنے کے لیے تو یہ تدبیرٹھیک اورضروری بھی ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ایک انسان کواپنے جیسے انسان سے محفوظ رہنے کے لیے محافظ کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب دنیا کے مختلف علاقوں میںتہذیب وتمدن کی بنیادیں استوارہوچکی تھیں یا رکھی جارہی تھیں۔

وہ : خیریہ بات تو انسان کی زمین پر آمد کے شاید کچھ ہی سال بعد واضح ہوگئی تھی جب قابیل نے ہابیل کوقتل کیا تھا،اگر اس وقت ہابیل کی حفاظت پرکوئی محافظ مامور ہوتا توشاید صورت حال اس کے برعکس ہوتی اورہابیل کے بجائے قابیل کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا۔

میں:تمھاری بات بالکل درست ہے کیوں کہ محافظ کی بنیادی ذمہ د اری یہی ہے کہ وہ اپنے مالک اوراس کی املاک کی حفاظت کے لیے اپنی جان دائو پر لگانے سے بھی دریغ نہ کرے، اور اگر معاملہ ان محافظین کا ہو جو ملک کے اندرونی امن امان کی حفاظت اورسرحدوںکی نگرانی کے انتہائی اہم منصب پر فائض پاسبانوں کے لیے دشمن کی سرگرمیوں اورچالوں پر نظر رکھنے کے حوالے سے یہ فرضِ منصبی اوربھی دگنا ہوجاتا ہے۔اور ان فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے محافظین اورمجاہدین کی قربانیاںنہ صرف عوام کے دلوں میں زندہ رہتی ہیں بلکہ ریاست بھی انہیں ہمیشہ اعزاز واکرام کے ساتھ یاد رکھتی ہے۔

وہ: اور یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ ہر معاشرے کے عوام اورریاست دونوں ہی ان خدمات کے صلے میں محافظین کے حق ِپاسبانی(چوکیداری کی تنخواہ) کو ادا کرنے میں کبھی پس وپیش نہیں کرتے۔لیکن سماج میں بگاڑ اس وقت شروع ہوتا ہے،جب پہریدار فرائض کی بجاآوری کے لیے کاندھے پر ٹنگی بندوق اورسینے پر سجے پھولوں اورتمغوں کے زور پراپنی متعین تنخواہ کے علاوہ گاہے بگاہے سرکار کے بجائے عوام سے رقم کا مطالبہ کرنا شروع کردے۔اوریہ صورت حال اور بھی تکلیف دہ ہوجاتی ہے جب عوام اپنی حفاظت پر متعین محافظوں سے ہی خوف کھانے لگیں،اپنے اوپر ہونے والے ظلم وزیادتی پر نہ زبان سے شکایت کریں اورنہ ہی اس کی رپورٹ درج کرائیں۔ حال تویہ ہے کہ رشوت کے بغیر کسی شخص کی کچی اورپکی کوئی بھی شکایت درج ہوہی نہیں سکتی اب وہ شکایتی کوئی مفلوک الحال ہو یا کوئی ساہوکار۔ بچپن میں یہ تحریر کسی دیوار پر پڑھی تھی ـ’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی ‘لیکن یہ مدد حاصل کرنے کے لیے پہلے آپ کو پولیس کی مد د کرنی ہوگی اوریہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں کہ پولیس کی یہ مدد آپ کو رشوت کی شکل میں کرنی ہوگی، ظاہر ہے کہ آپ کسی ہتھیار یا زرہ بکتر کی شکل میں تو یہ مدد کرنے سے رہے ۔

رہی بات محافظین کے درجہ ء اول کی تو انسان گناہ سے صرف دو ہی صورتوں میں بچنے کی کوشش کرتا ہے ،یا تو اس کے دل میںآخرت میں جواب دہی کی وجہ سے خدا کا ڈر موجود ہویا پھر اس دنیا میں قانون کی گرفت میں آجانے کا خوف۔لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہویعنی قانون خود ہر وقت اسی اندیشے اورخوف میں رہے کہ کہیں میرے کسی قدم یا حکم پر مجھے ہی گرفت میں نہ لے لیا جائے توایسے ماحول میں ریاست کے اندر ریاست والی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے،جسے کسی گرفت کسی شکنجے میں آنے کا ذرا برابر بھی ڈر اورخوف نہیں ہوتا اوررہ گئے بیچارے عوام توا ب اس نظام میں ان کے لیے نہ امن کی ضمانت ہے نہ جان کی امان ۔یہ دونوں چیزیں صرف محافظ چھائونیوں اورعسکری کالونیوں کے مکینوں کا حق ہے، اگر آپ عزت، چین اورسکون کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو مال خرچ کریں اورآجائیں گوشہء عافیت میں۔یعنی جان کی امان پانی ہے تواس کے لیے رقم خرچ کرنا ہوگی،یا اسی رقم سے کوئی لائسنس یافتہ ہتھیار

خرید لیںتاکہ بوقت ضرورت کم از کم اپنا اوراپنے بچوں کا دفاع توکرسکیں۔ورنہ ایک تیسری صورت بھی ہے ،وہ یہ کہ محافظین کی جانب سے یہ بات کئی بار دہرائی جاچکی ہے کہ آپ یعنی عوام کسی لٹیرے یارہزن کے سامنے بالکل بھی مزاحمت نہ کریں ،جیسا کہے اورجومانگے وہ دے کر اپنی جان بچائیں۔ اور بیچارے عوام نہ جانے کتنے برسوں سے اسی حکم کی بجا آوری میں لگے ہیں، جیسا کہاجارہاہے خاموشی سے بالکل ویسا ہی کرتے جارہے ہیں۔شاید اسی لیے چوکیداری کا مجموعی نظام عوام اورپہرے داروں کے باہمی تعاون کی بدولت اس قدر مستحکم اورمنظم ہوچکا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ادارہ اورمحکمہ ایسا بچا ہوا جو نگہبانی کے اس حصار سے باہر ہو،اور شاید ہی دنیا کے کسی اورخطے میں اتنی محنت ،جستجو اورمستقل مزاجی کے ساتھ ریاست اورعوام کے تحفظ کی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔

میں: مجھے ایسا لگتا ہے کہ اول اوردوم دونوں درجے کے محافظین نے نگہبانی کے اس انتہائی اہم ترین فریضے کوایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔اورشاید یہ واحد صنعت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ خوب پھل پھول رہی ہے۔

وہ : اس موقع پر نہ جانے کیوں خالد علیگ مرحوم یاد آگئے، آج کی یہ گفتگو ان کے اس شعرکے نام کرتے ہیں۔ؔ

اپنی حفاظت کرنا آپ ،اس میں ہرگز عار نہ رکھنا
گھر پر قبضہ کربیٹھے گا،لوگو !چوکیدار نہ رکھنا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی حفاظت اپنی جان کے ساتھ ہے کہ ا کے لیے

پڑھیں:

خیبرپختونخوا حکومت کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کن سیاسی جماعتوں نے آنے سے انکار کیا؟

فائل فوٹو

خیبرپختونخوا حکومت کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس آج ہوگی۔

جے یو آئی ف، اے این پی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے حکومتی اے پی سی میں نہ جانے کا کہا ہے جبکہ جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی اور جے یو آئی س نے اے پی سی میں آنے کا کہا ہے۔

اس آل پارٹیز کانفرنس میں امن و امان کی صورتحال سمیت دیگر مسائل پر غور ہوگا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تمام مکاتب فکر اور عوام کا متفقہ لائحہ عمل بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومتی نمائندہ وفد تشکیل دیا جائے گا جو تمام علاقوں کا دورہ کر کے عوامی مشاورت کے سلسلے کو مزید تیز کرے گا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اے پی سی میں سب کو مشاورت کیلئے بلایا ہے، اگر کوئی پارٹی اے پی سی میں نہیں آرہی تو ان کی اپنی سیاست ہے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہر چیز پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، دہشتگردی کے خلاف مؤثر حکمتِ عملی کیلئے سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ جب ہماری حکومت آئی تو سیکیورٹی صورتحال خراب تھی، بریفنگ دیں گے کہ جب ہماری حکومت آئی تو صوبے کےحالات کیا تھے، جو اے پی سی میں نہیں آئے گا اس سے پتا چلے گا کہ انہیں عوام کا کوئی احساس نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ’ بھارتی شہریوں کو نوکری پر رکھنا بند کرو‘ امریکی صدر کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ہدایت 
  • مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان اور پاکستان کی ترقی نہیں روک سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • خیبرپختونخوا حکومت کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کن سیاسی جماعتوں نے آنے سے انکار کیا؟
  • سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
  • مجھے فی الحال تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
  • کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟
  • سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں
  • کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں!