Jasarat News:
2025-09-18@13:54:39 GMT

لوگو! چوکیدار نہ رکھنا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

لوگو! چوکیدار نہ رکھنا

میں: تم آج پھر کسی خطرناک موڈ میں لگ رہے ہو؟

وہ : نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں،بس آج اس چوکیداری نظام پر گفتگو کرلیتے ہیں جو دنیا میں صدیوں سے رائج ہے۔

میں: تو پھر کیوں نہ پہلے یہ کھوج لگائی جائے کہ اس چوکیداری نظام کا آغاز کب ہوا اوروہ کون تھا جسے دنیا میں سب سے پہلے اپنی جان بچانے اور جائیداد وگھر وغیرہ کی حفاظت کے لیے کسی محافظ کی ضرورت پیش آئی ہو؟

وہ : میرے خیال سے اس اولین فرد کو تاریخ کے گم شدہ اوراق میں تلاش کرنا مشکل کام ہے لیکن فطری طور پہلی بار یہ ضرورت خوں خوار جانوروں اوروحشی درندوں سے انسانوںاور ان کی بستیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پڑی ہوگی۔اورجیسے جیسے سماج میں تہذیب وتمدن کی بنیادیں مستحکم ہوئی ہوں گی توویسے ویسے انسانوں کوجانوروں کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے انسانوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی اس پہرے داری کی ضرورت پڑتی گئی ہوگی۔

میں: خطرناک اورموذی جانوروں سے بچنے کے لیے تو یہ تدبیرٹھیک اورضروری بھی ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ایک انسان کواپنے جیسے انسان سے محفوظ رہنے کے لیے محافظ کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب دنیا کے مختلف علاقوں میںتہذیب وتمدن کی بنیادیں استوارہوچکی تھیں یا رکھی جارہی تھیں۔

وہ : خیریہ بات تو انسان کی زمین پر آمد کے شاید کچھ ہی سال بعد واضح ہوگئی تھی جب قابیل نے ہابیل کوقتل کیا تھا،اگر اس وقت ہابیل کی حفاظت پرکوئی محافظ مامور ہوتا توشاید صورت حال اس کے برعکس ہوتی اورہابیل کے بجائے قابیل کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا۔

میں:تمھاری بات بالکل درست ہے کیوں کہ محافظ کی بنیادی ذمہ د اری یہی ہے کہ وہ اپنے مالک اوراس کی املاک کی حفاظت کے لیے اپنی جان دائو پر لگانے سے بھی دریغ نہ کرے، اور اگر معاملہ ان محافظین کا ہو جو ملک کے اندرونی امن امان کی حفاظت اورسرحدوںکی نگرانی کے انتہائی اہم منصب پر فائض پاسبانوں کے لیے دشمن کی سرگرمیوں اورچالوں پر نظر رکھنے کے حوالے سے یہ فرضِ منصبی اوربھی دگنا ہوجاتا ہے۔اور ان فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے محافظین اورمجاہدین کی قربانیاںنہ صرف عوام کے دلوں میں زندہ رہتی ہیں بلکہ ریاست بھی انہیں ہمیشہ اعزاز واکرام کے ساتھ یاد رکھتی ہے۔

وہ: اور یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ ہر معاشرے کے عوام اورریاست دونوں ہی ان خدمات کے صلے میں محافظین کے حق ِپاسبانی(چوکیداری کی تنخواہ) کو ادا کرنے میں کبھی پس وپیش نہیں کرتے۔لیکن سماج میں بگاڑ اس وقت شروع ہوتا ہے،جب پہریدار فرائض کی بجاآوری کے لیے کاندھے پر ٹنگی بندوق اورسینے پر سجے پھولوں اورتمغوں کے زور پراپنی متعین تنخواہ کے علاوہ گاہے بگاہے سرکار کے بجائے عوام سے رقم کا مطالبہ کرنا شروع کردے۔اوریہ صورت حال اور بھی تکلیف دہ ہوجاتی ہے جب عوام اپنی حفاظت پر متعین محافظوں سے ہی خوف کھانے لگیں،اپنے اوپر ہونے والے ظلم وزیادتی پر نہ زبان سے شکایت کریں اورنہ ہی اس کی رپورٹ درج کرائیں۔ حال تویہ ہے کہ رشوت کے بغیر کسی شخص کی کچی اورپکی کوئی بھی شکایت درج ہوہی نہیں سکتی اب وہ شکایتی کوئی مفلوک الحال ہو یا کوئی ساہوکار۔ بچپن میں یہ تحریر کسی دیوار پر پڑھی تھی ـ’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی ‘لیکن یہ مدد حاصل کرنے کے لیے پہلے آپ کو پولیس کی مد د کرنی ہوگی اوریہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں کہ پولیس کی یہ مدد آپ کو رشوت کی شکل میں کرنی ہوگی، ظاہر ہے کہ آپ کسی ہتھیار یا زرہ بکتر کی شکل میں تو یہ مدد کرنے سے رہے ۔

رہی بات محافظین کے درجہ ء اول کی تو انسان گناہ سے صرف دو ہی صورتوں میں بچنے کی کوشش کرتا ہے ،یا تو اس کے دل میںآخرت میں جواب دہی کی وجہ سے خدا کا ڈر موجود ہویا پھر اس دنیا میں قانون کی گرفت میں آجانے کا خوف۔لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہویعنی قانون خود ہر وقت اسی اندیشے اورخوف میں رہے کہ کہیں میرے کسی قدم یا حکم پر مجھے ہی گرفت میں نہ لے لیا جائے توایسے ماحول میں ریاست کے اندر ریاست والی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے،جسے کسی گرفت کسی شکنجے میں آنے کا ذرا برابر بھی ڈر اورخوف نہیں ہوتا اوررہ گئے بیچارے عوام توا ب اس نظام میں ان کے لیے نہ امن کی ضمانت ہے نہ جان کی امان ۔یہ دونوں چیزیں صرف محافظ چھائونیوں اورعسکری کالونیوں کے مکینوں کا حق ہے، اگر آپ عزت، چین اورسکون کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو مال خرچ کریں اورآجائیں گوشہء عافیت میں۔یعنی جان کی امان پانی ہے تواس کے لیے رقم خرچ کرنا ہوگی،یا اسی رقم سے کوئی لائسنس یافتہ ہتھیار

خرید لیںتاکہ بوقت ضرورت کم از کم اپنا اوراپنے بچوں کا دفاع توکرسکیں۔ورنہ ایک تیسری صورت بھی ہے ،وہ یہ کہ محافظین کی جانب سے یہ بات کئی بار دہرائی جاچکی ہے کہ آپ یعنی عوام کسی لٹیرے یارہزن کے سامنے بالکل بھی مزاحمت نہ کریں ،جیسا کہے اورجومانگے وہ دے کر اپنی جان بچائیں۔ اور بیچارے عوام نہ جانے کتنے برسوں سے اسی حکم کی بجا آوری میں لگے ہیں، جیسا کہاجارہاہے خاموشی سے بالکل ویسا ہی کرتے جارہے ہیں۔شاید اسی لیے چوکیداری کا مجموعی نظام عوام اورپہرے داروں کے باہمی تعاون کی بدولت اس قدر مستحکم اورمنظم ہوچکا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ادارہ اورمحکمہ ایسا بچا ہوا جو نگہبانی کے اس حصار سے باہر ہو،اور شاید ہی دنیا کے کسی اورخطے میں اتنی محنت ،جستجو اورمستقل مزاجی کے ساتھ ریاست اورعوام کے تحفظ کی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔

میں: مجھے ایسا لگتا ہے کہ اول اوردوم دونوں درجے کے محافظین نے نگہبانی کے اس انتہائی اہم ترین فریضے کوایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔اورشاید یہ واحد صنعت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ خوب پھل پھول رہی ہے۔

وہ : اس موقع پر نہ جانے کیوں خالد علیگ مرحوم یاد آگئے، آج کی یہ گفتگو ان کے اس شعرکے نام کرتے ہیں۔ؔ

اپنی حفاظت کرنا آپ ،اس میں ہرگز عار نہ رکھنا
گھر پر قبضہ کربیٹھے گا،لوگو !چوکیدار نہ رکھنا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی حفاظت اپنی جان کے ساتھ ہے کہ ا کے لیے

پڑھیں:

انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید

لاہور (ویب ڈیسک) تجزیہ نگار انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ بتادی اور ساتھ ہی حکومت پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنادیا۔

اپنے ولاگ میں انیق ناجی کاکہناتھاکہ  طویل غیر حاضری کی ایک وجہ بیزاری تھی، ہرروز ایک نئی حماقت،" ن لیگ کیساتھ 34سال رفاقت رہی اور عمران خان کے دور میں بھی اپنی حیثیت کے مطابق مریم نواز اورنوازشریف کوسپورٹ کرتارہا،سمجھتا تھا کہ یہ لوگ نشیب وفراز سے گزرے ہوئے ہیں ، ملک سنبھال سکتے ہیں لیکن جس طرح کی حماقتیں ہوئی ہیں، اس میں آدمی چپ ہی کرسکتاہے،

نوازشریف کے بارے میں تو اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ غلام اسحاق خان  ،فاروق لغاری ہو یا پھر پرویز مشرف ہو،  سیاسی طور پر انہیں کوئی ختم نہیں کرسکالیکن جو حال ان کیساتھ ان کے خاندان نے کیا ہے ، وہ دیکھ کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے، آج کسی کا سامنا نہیں کرسکتا، انہیں لندن میں پی ٹی آئی کے لوگ برا بھلا کہتے رہے لیکن اس نے کبھی جواب نہیں دیا، اب کسی سے ملنے کے قابل بھی نہیں رہا۔

سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ای بائیکس کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ

ان کا مزید کہناتھاکہ  مریم نواز نے  جو پنجاب میں مظاہرہ کیا، ہر روز ایک نئی حماقت، ذاتی اور گھریلوملازمین کو اپنے اردگرد رکھا ہواہے جن کا نہ کوئی آگے ہے اور نہ کوئی پیچھے،صرف مسلم لیگ ن سے تعلق کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں،  ان کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا، بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا، ن لیگ کے اپنے لوگ بھی حیران پریشان ہیں ، وہ قیادت سے ملنے کی درخواستیں کیا کرتے تھے،اب  منہ چھپا رہے ہیں کہ کہیں تصویر بنوانے کے لیے بلوا نہ لیں، اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں نکلنے کے قابل نہیں رہے، آپ کو وہ سرکاری ہسپتال بھی یا دہوگاجہاں میڈم منہ چھپا کر گئی تھیں اور پھر تقریر کی تھی کہ امیرآدمی تو بیرون ملک چلاجاتاہے لیکن عام آدمی کیا کرے، میں تو ایک عام شہری کی طرح یہاں آئی ہوں، کونسا عام آدمی ہوتا ہے جو 20گاڑیوں کیساتھ سرکاری ہسپتال جاتاہے؟

اداکارہ عائشہ عمر کے شو لازوال عشق پر عوامی اعتراضات، پیمرا کا ردعمل

لیکن بس خیال ہے کہ لوگ اس طرح ساتھ آجائیں گے، مریم اورنگزیب صاحبہ بھی بھیس بدل کر چھاپے مار رہی ہیں ، کیمرہ مین اور پولیس اہلکار بھی ساتھ ہیں، لب و لہجہ ہی ایسا ہے ، نہ اردو آتی ہے اور نہ صحیح سے انگریزی، اداکاری ہورہی ہے ، چھوٹے چھوٹے کھانے کے پیکٹس پر بھی اپنی تصویر، بیزاری اور ولاگنگ سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے ۔ 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • سیاست کو کھیلوں سے الگ رکھنا ضروری ہے، محمد فیصل
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • شرح سود برقرار رکھنا معیشت کیلیے رکاوٹ ہے ،سید امان شاہ
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟