نبی کریمﷺ کے عظیم سفرِ ہجرت کو قدم بہ قدم محسوس کرنے کے منفرد منصوبے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
مدینہ منورہ میں ایک شاندار تقریب کے دوران، سعودی عرب نے تاریخی منصوبے کا اعلان کیا ہے، جو نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفرِ ہجرت کو فزیکلی تجربے کے طور پر پیش کرے گا۔
اس تقریب کی قیادت مدینہ کے امیر، شہزادہ سلمان بن سلطان بن عبدالعزیز آل سعود نے کی اور اس موقع پر جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ترکی آل الشیخ، دیگر وزرا اور اہم شخصیات موجود تھیں۔
یہ منصوبہ نبی کریم ﷺ کے اس تاریخی سفر کی داستان کو جدید انداز میں پیش کرتا ہے، جہاں شرکا 470 کلومیٹر طویل ہجرت کے راستے کو خود محسوس کر سکیں گے۔ اس تجربے کے دوران 59 اہم مقامات اور 41 تاریخی نشانات کی زیارت ممکن ہوگی، جن میں غارِ ثور، وادی قاحہ، خیمۂ ام معبد، وادی سرف اور مسجد قبا جیسے تاریخی مقامات شامل ہیں۔
منصوبے کا مقصد ہجرت کے اس تاریخی سفر کی روحانی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، جہاں شرکا نبی کریم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، اونٹ کی سواری، تاریخی مقامات کی زیارت اور ہجرت کے اہم واقعات کی جدید طرز پر پیش کش کے ذریعے ایک منفرد تجربہ حاصل کریں گے۔
یہ منصوبہ اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی شاندار مثال ہے۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے نہ صرف روحانی اور ثقافتی ورثے کو زندہ رکھا جائے گا بلکہ نئی نسل کو اس اہم تاریخی سفر کی اہمیت سے روشناس کروایا جائے گا۔
سعودی وژن 2030 کے تحت یہ منصوبہ مملکت کی جانب سے اسلامی ورثے کی حفاظت اور اس کی عالمی تشہیر کی ایک اور اہم پیش رفت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ابوبکر صدیق ترکی آل الشیخ، جدید جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی روحانی سفر سعودی عرب منصوبہ نبی کریمﷺ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ترکی آل الشیخ جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی
پڑھیں:
’’ماں‘‘ ایک منفرد کتاب
کیا واقعی ’’کتاب کلچر‘‘ ختم ہوچکا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوتا تو دھڑا دھڑ کتابیں کیوں چھپ رہی ہوتیں ہے؟ درحقیقت ’’کتاب کلچر‘‘ ختم نہیں ہوا ہے ’’کتاب‘‘ختم ہوچکی ہے یا یوں کہیے کہ کتاب کی ’’حرمت‘‘ ختم ہوچکی ہے اور وہ بھی کتاب ہی کے ہاتھوں۔کہ کتاب کے نام پر ایسی ایسی خرافات چھپنے لگی ہیں جنھیں پڑھنا تو درکنار نام دیکھ کر ہی ابکائیاں آنے لگیں۔
یہاں بھی وہی سلسلہ ہے جو انسانی دنیا میں ہمیشہ سے چلا آرہا ہے، کسی بھی چیز کی مقبولیت پر اس کی نقلیں اور دونمبریاں چل پڑتی ہیں جیسا ہم پاکستان میں بہت سی چیزوں میں دیکھ رہے ہیں ۔جعلسازی اور دونمبری زوروں پر ہے۔یہ کتاب جس کا ذکر ہم کررہے ہیں ، اس کانام ہے ماں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو خود اپنے آپ میں پڑھنے والوں سے خود کو پڑھوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماں کے بارے میں انسانوں نے بڑے پر زور قسم کے اقوال زرین اور مکالمے بنائے رکھے ہیں لیکن عملی طور پر انسان نے عورت کو کبھی ’’ماں‘‘ نہیں سمجھا ہے۔ اس کی وجہ مرد کا عورت پر برتری کا خناس ہے ورنہ عورت کی باقی ساری حیثتیں عارضی ہیں اور صرف ماں کی حیثیت مستقل ہے۔
دنیا میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں، ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، ان سب میں ممکن ہے کہ بیوی کا شوہر نہ مرتا ہو ، کسی بہن کا بھائی نہ مرتا ہو اور کسی بیٹی کا باپ نہ مرتا ہ و لیکن ایسی جنگ نہ کبھی ہوئی ہے نہ ہوتی ہے نہ ہوگی جس میں ماں کے بیٹے نہ مرتے ہوں۔مطلب یہ دنیا میں بے شمار مرد ایسے ہوسکتے ہیں جن کی بیویاں نہ ہوں، ایسے بھی لاتعداد ہوسکتے ہیں جن کی بہن نہ ہو اور ایسے بھی جن کی بیٹیاں نہ ہوں لیکن ایسا مرد کبھی نہیں ہوا ہے جس کی ’’ماں‘‘ نہ ہو۔ بچے کی جسمانی ضروریات باپ یا مرد کی ذمے داری ہوتی ہے جب کہ اس کی اندرونی’’تعمیر‘‘ ماں کرتی ہے۔
وہ پیٹ سے لے کر دودھ پلانے تک، اپنے ساتھ سلانے، اپنے جسم کی حرارت اس میں منتقل کرنے تک۔اٹھنا بٹھنا،چلنا پھرنا ،کھانا پینا۔یوں کہیے کہ بچے کو انسان بننانے تک سارا کام ماں کا ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کی جسمانی ضروریات اور نشوونما کا تعلق ہے تو اس کا متبادل دولت، جائیداد اور گھرانا بھی ہوسکتا ہے لیکن ماں کا متبادل کچھ بھی نہیں۔بوتل کا دودھ، الگ بیڈ روم،نوکروں کا پالن پوسن اس کا متبادل ہرگز نہیں ہوسکتا۔گو بے بی بہتر سینٹرز بچے کو جسمانی ضروریات دے سکتے ہیں، ذہنی اور روحانی تعمیر نہیں۔یہ ایک فرد جو خود کو مرد کہتا ہے۔
اس نے ہمیشہ عورت کا استحصال کیا ہے ، ہر ہر لحاظ سے اسے انسان کا درجہ نہیں دیا ہے چنانچہ ہزاروں سال سے اسے ’’محدود‘‘ کررکھا ہے جس کی وجہ سے وہی بات یہاں بھی ہوگئی ہے۔جو اشرافیہ نے عوامیہ کے ساتھ کیا ہے کہ اپنے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے عوامیہ کو دماغ کے عدم استعمال کا شکار بنایا ہے چنانچہ عوامیہ اور عورت دونوں دماغی عدم استعمال سے صرف جسم ہوکر رہ گئے،جب کہ اشرافیہ اور مرد کے دماغ کثرت استعمال سے شیطانی بن گئے ہیں۔ چنانچہ عورت کو مرد نے اور عوامیہ کو اشرافیہ نے آج بڑی چالاکی سے ’’اپنے کام‘‘ پر بھی لیا ہے، آزادی نسواں، تعلیم نسواں،برابری اور عورت سب کچھ کرسکتی ہے، وہ مرد سے کسی بھی میدان میں پیچھے یا کم نہیں ہے۔
اس قسم کی باتوں، نعروں، ترانوں اور خیالات نے برین واش اور ہپناٹائز عورت کو باہر نکال کر اپنے حصے کے کام پر لگادیا ہے یعنی اسے مردوں کے برابر کماو بنادیا ہے۔اور اس کا اپنا کام بچے کو انسان بنانااس سے چھڑوا لیا ہے۔وہ فوجی بن رہی ہے، پائیلٹ ، ڈرائیور اور سائنس دان بن رہی ہے، مرد سے کمائی میں آگے بڑھ رہی ہے اور جو کام اس مرد کا ہے وہ کرنے لگی ہے جب کہ اس کا اپنا کام اس سے چھوٹ گیا ہے۔
اس چالاک مرد نے اسے اپنا مددگار تو بنالیا ہے لیکن بچے سے اس کی ماں چھین لی۔چنانچہ پھر ہم روتے رہتے ہیں کہ انسانوں میں انسانیت نہیں رہی، محبت نہیں رہی۔ ہمدردی اور رحم نہیں رہی۔کہاں اور کیسے رہے گی کہ یہ چیزیں ڈالنے والی ماں کو تو آپ نے کماو بنالیا چنانچہ بوتل کے دودھ، نوکروں کی پرورش اور کمرشل تعلیمی ادارے، ڈاکٹر،انجینئر ،افسر، لیڈر وغیرہ تو پیدا کرلیتے ہیں لیکن ان کے اندر انسان نہیں ہوتا۔
جو کتاب اس وقت میرے سامنے پڑی ہے۔ ’’ماں‘‘ اور جس کا ذیلی عنوان ہے۔عظمتوں کی داستاں۔اس میں پر لحاظ سے ماں کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہے۔تاریخی لحاظ سے، مذہبی لحاظ سے، سائنسی لحاظ سے نفسیاتی لحاظ سے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ ’’ماں‘‘ ہی ہے جو حیوان کے اندر انسان پیدا کرتی ہے اور جسے ہم نے بدقسمتی سے ایک جسم،ایک کماو مشین، ایک جنسی سمبل بناکر رکھ دیا ہے۔خدا نے انسان کو جس غرض وغائت کے لیے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، اس غرض وغائت کی تکمیل صرف اور صرف ماں کرتی ہے۔