Express News:
2025-09-18@14:51:02 GMT

’مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔۔۔؟‘

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

کچھ دن پہلے میں بیرون ملک سے واپس اپنے شہر کراچی آتے ہوئے ’ہوائی اڈے‘ کی ’انتظار گاہ‘ میں بیٹھ کر اپنی پرواز کا انتظار کرنے لگی۔ وہاں اور بھی بہت سے پاکستانی نظر آئے۔ کچھ دیر بعد مجھے پیاس لگی، تو کینٹین کا رخ کیا۔ وہاں ایک جوڑا پہلے سے موجود تھا۔

  ان صاحب اور صاحبہ نے اپنے لیے چائے اور ’کافی‘ لی اور میں اپنی پانی کی بوتل لے کر اپنی نشست پر آ بیٹھی۔ وہ جوڑا بھی ہماری نشست کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا۔ میں پانی پی کر اپنی بیٹی سے باتوں میں مصروف ہو گئی، جس دوران میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ میں نے دیکھا، تو وہاں خالی پیالی تھی۔ ان دونوں نے اپنی چائے اور ’کافی‘ کی خالی پیالیاں وہیں سیٹ کے کنارے پر رکھ دیے تھے، جس سے میرا پاؤں لگا تھا، یہ عمل دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔

میں نے دل میں سوچا کہ یہ کون سا طریقہ ہے۔۔۔؟ جب کہ برابر ہی میں ’کوڑے دان‘ موجود ہے، یہ اس میں ڈالنے میں انھیں کیا مسئلہ تھا؟ اتنے میں بورڈنگ کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستانی جوڑا اپنا کچرا وہیں چھوڑ کر جہاز کی طرف چل دیا۔ یہ عمل دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا، لیکن میں دل ہی دل میں کُڑھ کر رہ گئی اور میں بھی جہاز کی طرف روانہ ہو گئی۔

پھر جب صبح نو بجے تک گھر پہنچی، تو ہماری جٹھانی صاحبہ نے ہمارے لیے ناشتے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ساتھ بیٹھ کر ناشتا کیا اور کچھ گپ شپ ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ واقعہ سب کو سنایا کہ کیسے ہم پاکستانیوں نے خود اپنی عادتوں سے اپنا نام بدنام کر رکھا ہے۔ تبھی پاکستانیوں کی کہیں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اپنا کچرا کوڑے دان میں ڈالنے میں بھی پاکستانیوں کو دقت کیوں محسوس ہوتی ہے، اس پر سب نے بہت دکھ کا اظہار کیا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر میں اپنے گھر پہنچی، کچھ دیر آرام کے بعد پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ لیکن نہ جانے کیوں خلاف معمول یہ سارا واقعہ میرے ذہن سے چمٹا رہا۔  میں نے اس واقعے پر غور کرنا شروع کیا، تو میری سوچ اپنے ہی عمل کی طرف آ پہنچی کہ ایک پاکستانی نے یہ کام غلط کیا تو دوسرے پاکستانی کا کیا عمل ہونا چاہیے تھا، یہ سوچ مجھے پریشان کرنے لگی۔ رات میں سونے سے پہلے میں کتاب اور قلم لے کر بیٹھ گئی۔  خیالات کے سیلاب میں  ڈوب گئی، پھر قلم اور کاغذ کی مدد سے کچھ الجھے ہوئے خیالات کو سلجھانے کی کوشش کی، میں اس فکر میں تھی کہ آخر یہ مسئلہ کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا۔ یک دم میرے ذہن میں اپنے استاد کا ایک اور قول آیا کہ ’جس کا فہم زیادہ ہے، اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔‘

 میں اپنے علم کے ساتھ جب اس سارے معاملے پر غور و فکر کرنے لگی تو اس نتیجے پر پہنچی کہ اس معاملے میں انسانوں کے تین درجے ہیں۔ سب سے نچلا درجہ وہ ہے، جو اپنے کچرے کو بھی ٹھیک جگہ پر ڈالنے سے قاصر ہیں اور جہاں جی چاہتا ہے پھینک دیتے ہیں، جو کہ ایک حیوانی سطح ہے۔

دوسرا درجہ وہ جن تک علم پہنچ گیا اور وہ اپنے کچرے کو کوڑے دان تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تیسرا درجے کے لوگ وہ جو اپنے پیدا کیے ہوئے کچرے پر بھی غور و فکر کرتے ہیں، اور اپنے گھروں سے ری سائیکل ہونے والا کچرا نکالنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان کے پیدا کیے ہوئے کچرے سے زمین کو نقصان نہ پہنچے۔

اور میری نظر میں تیسرا درجہ سب سے اعلیٰ اور بہترین ہے، کیوں کہ یہ ہمیں اپنی زندگی کے رہن سہن، وسائل کے استعمال اور ماحول پر اپنے اثرات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔

جیسے جیسے آپ کا درجہ بلند ہوتا ہے، آپ کی ذمہ داری بھی بڑھتی جاتی ہے۔ سب سے بڑی اور ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس علم کو دوسروں تک پہنچائیں۔ اس حوالے سے مجھے نبی کریم ﷺ کا خطبۃ الوداع یاد آتا ہے، جس میں آپ نے تاکید کی تھی کہ جس تک علم پہنچ گیا ہے، اس پر فرض ہے کہ وہ یہ علم دوسروں تک پہنچائے۔ یہ تعلیم و تبلیغ کی ذمہ داری انسانیت کی بھلائی اور معاشرے کی بہتری کے لیے انتہائی اہم ہے۔

اب ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں نے غور کیا کہ دوسرے کے اس فعل پر میرا عمل کیا ہونا چاہیے تھا۔ تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ان صاحب اور صاحبہ کے پاس جا کر یہ بات براہ راست کہنا شاید غیبت کرنے سے بہتر ہوتا۔ اس طرح نہ صرف مسئلہ حل ہونے کا امکان ہوسکتا تھا، بلکہ کسی کے پیٹھ پیچھے بات کرنے کے گناہ سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ ہم میں سے اکثر خواتین یہ سب باتیں نہیں سوچتیں۔

ان سے یہ بات کچھ اس انداز میںبھی کی جا سکتی تھی کہ ’’میں نے وہاں ایک کوڑے دان دیکھا ہے، سوچا آپ کو بتا دوں، تاکہ آپ کچرا وہاں ڈال دیں۔‘‘ شاید یہ بات مسئلے کا حل بن جاتی، لیکن اگر پھر بھی ان کے اندر اس کا احساس پیدا نہ ہوتا اور وہ اسے چھوڑ کر چلے جاتے، تو دوسرا میرا عمل یہ ہو سکتا تھا کہ میں خود وہ کچرا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیتی!

آخر ہم اس کام کو کرنے سے کیوں شرماتے ہیں۔۔۔؟ اگر ایک پاکستانی پاکستان کو بدنام کر رہا ہے، تو کیا دوسرے پاکستانی کا عمل صرف غیبت کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔۔۔؟ یا اسے اپنے عمل سے اس بدنامی کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے؟

دینِ اسلام ہمیں اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونا سیکھتا ہے، لیکن ہم نے ان تعلیمات پرعمل تو دور کی بات غور وفکرتک نہیں کیا۔ غیر مسلمانوں نے اخلاقیات کو اپنا لیا اس کی مثال جاپانیوں کا اپنا اسٹیڈیم صاف کرنا ہے، یہ سوچے بغیر کہ یہ کچرا میرا نہیں، وہ پوری توجہ سے اسٹیڈیم صاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور

پاکستان نے دوحہ میں ہونے والے ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاری کے وزارتی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان پیش کردیا۔ سات نکاتی پلان میں اسرائیل کا احتساب، جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنا، رکن ممالک کی طرف سے تعزیری اقدامات کا نفاذ، غزہ میں بلا روک ٹوک انسانی رسائی کو یقینی بنانا، دو ریاستی حل کے لیے حقیقی سیاسی عمل کو زندہ کرنا اور عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

 درحقیقت، یہ واقعہ ایک چیلنج ہے کہ عالمی قوانین، ریاستوں کی خود مختاری اور سفارتی عزت و وقارکی حفاظت کے لیے ہم کس قدر متحد ہو سکتے ہیں۔ قطر پر اسرائیلی فضائی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشورکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مڈل ایسٹ کی تمام ریاستوں کی سالمیت خطرے میں ہے، حتیٰ کہ وہ ثالثی اور امن مذاکرات کی میزبانی ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔

 پاکستان کی حکمتِ عملی، خاص طور پر نائب وزیر اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا سات نکاتی پلان، اس پسِ منظر میں نہایت اہم ہے۔ یہ منصوبہ محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک مرکزی سیاسی عزم ہے کہ غیر قانونی حملوں کے خلاف مسلم دنیا نہ صرف بیانیہ تشکیل دے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے۔ احتساب، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی، جنگی جرائم پر مقدمات ، یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو فلسطینی مظلومیت کے تناظر میں مسلم ریاستوں کی اخلاقی اور سیاسی ذمے داری کا حصہ ہیں۔ عملی امکانات کا جائزہ لیا جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں، متحدہ ردعمل کہاں تک ممکن ہے؟ کون سی ریاستیں اپنے قومی مفادات کو عبور کر کے مسلم اتحاد کا حصہ بنیں گی؟ اقتصادی پابندیاں لگانا، سفارتی تعلقات محدود کرنا، یا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا، یہ تمام اقدامات چیلنجز کے حامل ہیں۔ قوت عمل کی کمی، علاقائی اختلافات، حصول مفاداتِ طاقت، یہ عوامل اکثر ایسے اقدامات کو کمزور یا متزلزل بنا دیتے ہیں۔

غزہ میں انسانی رسائی یقینی بنانا ایک فوری ضرورت ہے۔ انسانیت کو تحفظ کی ضرورت ہے، بنیادی امداد، طبی سہولیات، پناہ گزینوں کا تحفظ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں چشمِ تصور سے نہیں دیکھا جائے گا، لیکن یہ رسائی کیسے ممکن بنے گی؟ انسانی تنظیموں، اقوام متحدہ اور علاقائی ریاستوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ رکاوٹیں دور ہوں، راستے کھلیں اور امدادی کام محفوظ اور بلاخوف جاری رہیں۔دو ریاستی حل کا اعادہ کرنا، اور اسے حقیقی سیاسی سطح پر زندہ کرنا، ایمنسٹریٹیو اور سفارتی محاذوں پر ایک مستقل عزم درکار ہے۔ یہ حل صرف میز پر قراردادیں نہیں بلکہ زمین پر اقدامات، مذاکرات، ریاستی حدود، القدس کی حیثیت اور فلسطینی ریاست کا تسلیم شدہ جغرافیہ ہونے چاہیے۔ بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے، جس میں غیر جانبدار ممالک کا کردار ہو، اقوام متحدہ کا دائرہ کار ہو اور عرب دنیا سمیت اسلامی تعاون تنظیم کا تعاون ہو۔

عرب اسلامی ٹاسک فورس کا تصور اہم ہے، مگر اس کی افادیت کا انحصار اس کی تشکیل، اختیارات، مستحکم رہنمائی اور مشترکہ سیاسی عزم پر ہو گا۔ کیا یہ فورس صرف قانونی و سفارتی رد عمل کا مرکز ہوگی یا اس کے پاس کوئی عملی صلاحیت ہو گی جیسے مخصوص پابندیاں نافذ کرنا، جنگ بندی کا مطالبہ کرنا یا حتیٰ کہ عالمی فورمز پر اسرائیل کی کارکردگی کو شہری قانون کے دائرے میں لانا؟ یہ فیصلہ اورکام کرنے کی صلاحیت ہونا چاہیے، تاکہ اس کا وجود محض علامتی نہ ہو۔

 پاکستان کے لیے یہ صورتحال موقع بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ پاکستان عملی سطح پر ایک مخلص، موثر اور متوازن کردار ادا کرے۔ مسلم ممالک کے ساتھ مل کر بین الاقوامی قانونی و سفارتی محاذ تشکیل دے، انسانی امداد فراہم کرنے والوں کے کردار میں تعاون کرے اور عالمی برادری کے سامنے یہ موقف پیش کرے کہ امن اور انصاف کے اصول غیر متزلزل ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ اس منصوبے کی ترجمانی داخلی استحکام کے ساتھ کرے۔

عوامی رائے کی توقعات کو پورا کرنا ہو گا، میڈیا اور دانشورانہ حلقوں میں بحث و مباحثہ ہو، تاکہ حکومتی اقدامات مستحکم ہوں۔ داخلی اقتصادی مشکلات، خارجہ دباؤ اور علاقائی سیاست کے تقاضے حکومت کو محتاط بنا سکتے ہیں، مگر یہ وقت پسپائی کا نہیں، بلکہ عزمِ عملی کا ہے۔اب اقوام متحدہ کے امن مشن کی سالمیت خطرے میں ہے، سفارتکاری کی روشنی مدھم ہو رہی ہے اور انسانی المیے کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، اگر اسلامی دنیا متحد ہو، مسلم قیادت عزم دکھائے، اگر عالمی قوانین کا اطلاق ہو، اگر انسانی حق اور ریاستِ فلسطین کا مطالبہ واضح اور مسلسل ہو، تو یہ لمحہ تاریخ میں ایک تبدیلی کا نکتہ بن سکتا ہے۔

آج قطر پر حملہ، ایک خود مختار ریاست کی خود مختاری پر حملہ ہے اور یہ لمحہ ہے کہ شعور، اتحاد اور اخلاقی طاقت اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ یہ عملی عزم کا وقت ہے، ایسی پالیسیاں جن کی بنیاد عدالت، انصاف اور انسانیت ہو۔ ایسی پالیسی جس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حق کا تحفظ ہو، بلکہ بین الاقوامی امن وپائیداری کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے۔چین کے مندوب نے کہا کہ اسرائیلی حملے نے جاری سفارت کاری کو متاثر کیا ہے۔ خصوصاً جب امریکا نے 7 ستمبر کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جسے اسرائیل نے قبول کیا۔ محض دو دن بعد اس تجویز پر بات چیت کرنے والی حماس کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بد نیتی، غیر ذمے داری اور دانستہ طور پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے جو قابلِ مذمت ہے۔پاکستان کا سات نکاتی منصوبہ اگر ایک عملی منشور بن جائے تو مسلم امن کی راہ میں نئے دریچے کھل سکتے ہیں۔

وہ دن اگرچہ دور نہیں کہ عالمی طاقتیں بھی جان لیں گی کہ ریاستوں کے وقار، قانونِ بین الاقوامی کی حکمرانی اور انسانیت کی آواز کوئی مفاہمت نہیں کرتی،کوئی سودے بازی نہیں ہوتی۔ واشنگٹن کی اسرائیل کے ساتھ ترجیحی و جانبدارانہ پالیسی نے خطے میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے دوست ممالک کو ناراض کیا ہے۔ دوحہ میں موجود حماس کے رہنماء غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کا جائزہ لے رہے تھے، اسی دوران صیہونی رجیم نے تمام سفارتی قوانین کو روندتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا۔

اب مسلم حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اب تک امریکا سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جدید ترین فوجی سازوسامان خریدا ہے اور امریکا کو اپنے ملک میں فوجی اڈے فراہم کیے ہیں جن کا واحد مقصد ان کی قومی سلامتی کی حفاظت اور دفاع کرنا تھا لیکن حالیہ اسرائیلی حملے میں نہ تو امریکا اور نہ ہی برطانیہ نے ان کا ساتھ دیا اور نہ اسرائیل کو روکا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ قطر میں امریکا کا جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم سویا رہا اور اسرائیلی میزائل دارالحکومت دوحہ پر گرتے رہے؟ کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم حکمران خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور دوست اور دشمن کی حقیقی پہچان حاصل کریں۔

اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کے خلاف کیا کہا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگر مسلم دنیا واقعی اسرائیلی جارحیت سے تنگ آ چکی ہے اور وہ فلسطینیوں کو انصاف دلانا چاہتی ہے، اگر وہ اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا چاہتی ہے، تو اب وقت ہے کہ بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات کیے جائیں۔ اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات، اقوام متحدہ میں قراردادیں، انسانی امداد کی ترسیل، یہ سب کام کرنے کے ہیں اور یہ سب ایک دن میں نہیں ہوں گے، اس کے لیے مستقل مزاجی، اتفاق رائے، اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔

 اس وقت اسرائیل کی جارحیت صرف فلسطینیوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگر آج قطر جیسے پرامن اور سفارتی کردار ادا کرنے والے ملک کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تو کل کوئی اور ملک بھی اس فہرست میں ہو سکتا ہے۔ یہی آج کا سوال ہے کہ اب اگلا نشانہ کون سا اسلامی ملک ہو گا۔اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک اس حملے کو ایک سنگین خطرہ سمجھیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔

یہ موقع ہے کہ مسلم دنیا عملی اقدامات کر کے دنیا کو دکھائے کہ ظلم کے خلاف ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ پاکستان نے پہل کر دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی دنیا، خصوصاً مسلم ممالک، اس پہل کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ اگر آج ہم متحد ہو گئے، تو کل فلسطین آزاد ہو گا۔ لیکن اگر آج بھی ہم صرف مذمتی قراردادیں منظور کر کے، بیانات دے کر اور کانفرنسیں منعقد کر کے مطمئن ہو گئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

متعلقہ مضامین

  • عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتائیں وہ کام کر رہا ہو جو اس کو کرنا چاہیے، جسٹس محسن اخترکیانی
  • پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق
  • چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کی دوست کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ پوری تفصیل سامنے آگئی
  • ’انسانوں نے مجھے مارا‘: چین کا ہیومنائیڈ روبوٹ حیران کن ’فائٹ ٹیسٹ‘ میں بھی ڈٹا رہا
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • راجہ فاروق خان ریاست کے بڑے لیڈر ہیں، فرید خان
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور