’مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔۔۔؟‘
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
کچھ دن پہلے میں بیرون ملک سے واپس اپنے شہر کراچی آتے ہوئے ’ہوائی اڈے‘ کی ’انتظار گاہ‘ میں بیٹھ کر اپنی پرواز کا انتظار کرنے لگی۔ وہاں اور بھی بہت سے پاکستانی نظر آئے۔ کچھ دیر بعد مجھے پیاس لگی، تو کینٹین کا رخ کیا۔ وہاں ایک جوڑا پہلے سے موجود تھا۔
ان صاحب اور صاحبہ نے اپنے لیے چائے اور ’کافی‘ لی اور میں اپنی پانی کی بوتل لے کر اپنی نشست پر آ بیٹھی۔ وہ جوڑا بھی ہماری نشست کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا۔ میں پانی پی کر اپنی بیٹی سے باتوں میں مصروف ہو گئی، جس دوران میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ میں نے دیکھا، تو وہاں خالی پیالی تھی۔ ان دونوں نے اپنی چائے اور ’کافی‘ کی خالی پیالیاں وہیں سیٹ کے کنارے پر رکھ دیے تھے، جس سے میرا پاؤں لگا تھا، یہ عمل دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔
میں نے دل میں سوچا کہ یہ کون سا طریقہ ہے۔۔۔؟ جب کہ برابر ہی میں ’کوڑے دان‘ موجود ہے، یہ اس میں ڈالنے میں انھیں کیا مسئلہ تھا؟ اتنے میں بورڈنگ کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستانی جوڑا اپنا کچرا وہیں چھوڑ کر جہاز کی طرف چل دیا۔ یہ عمل دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا، لیکن میں دل ہی دل میں کُڑھ کر رہ گئی اور میں بھی جہاز کی طرف روانہ ہو گئی۔
پھر جب صبح نو بجے تک گھر پہنچی، تو ہماری جٹھانی صاحبہ نے ہمارے لیے ناشتے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ساتھ بیٹھ کر ناشتا کیا اور کچھ گپ شپ ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ واقعہ سب کو سنایا کہ کیسے ہم پاکستانیوں نے خود اپنی عادتوں سے اپنا نام بدنام کر رکھا ہے۔ تبھی پاکستانیوں کی کہیں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اپنا کچرا کوڑے دان میں ڈالنے میں بھی پاکستانیوں کو دقت کیوں محسوس ہوتی ہے، اس پر سب نے بہت دکھ کا اظہار کیا۔
ناشتے سے فارغ ہو کر میں اپنے گھر پہنچی، کچھ دیر آرام کے بعد پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ لیکن نہ جانے کیوں خلاف معمول یہ سارا واقعہ میرے ذہن سے چمٹا رہا۔ میں نے اس واقعے پر غور کرنا شروع کیا، تو میری سوچ اپنے ہی عمل کی طرف آ پہنچی کہ ایک پاکستانی نے یہ کام غلط کیا تو دوسرے پاکستانی کا کیا عمل ہونا چاہیے تھا، یہ سوچ مجھے پریشان کرنے لگی۔ رات میں سونے سے پہلے میں کتاب اور قلم لے کر بیٹھ گئی۔ خیالات کے سیلاب میں ڈوب گئی، پھر قلم اور کاغذ کی مدد سے کچھ الجھے ہوئے خیالات کو سلجھانے کی کوشش کی، میں اس فکر میں تھی کہ آخر یہ مسئلہ کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا۔ یک دم میرے ذہن میں اپنے استاد کا ایک اور قول آیا کہ ’جس کا فہم زیادہ ہے، اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔‘
میں اپنے علم کے ساتھ جب اس سارے معاملے پر غور و فکر کرنے لگی تو اس نتیجے پر پہنچی کہ اس معاملے میں انسانوں کے تین درجے ہیں۔ سب سے نچلا درجہ وہ ہے، جو اپنے کچرے کو بھی ٹھیک جگہ پر ڈالنے سے قاصر ہیں اور جہاں جی چاہتا ہے پھینک دیتے ہیں، جو کہ ایک حیوانی سطح ہے۔
دوسرا درجہ وہ جن تک علم پہنچ گیا اور وہ اپنے کچرے کو کوڑے دان تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تیسرا درجے کے لوگ وہ جو اپنے پیدا کیے ہوئے کچرے پر بھی غور و فکر کرتے ہیں، اور اپنے گھروں سے ری سائیکل ہونے والا کچرا نکالنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان کے پیدا کیے ہوئے کچرے سے زمین کو نقصان نہ پہنچے۔
اور میری نظر میں تیسرا درجہ سب سے اعلیٰ اور بہترین ہے، کیوں کہ یہ ہمیں اپنی زندگی کے رہن سہن، وسائل کے استعمال اور ماحول پر اپنے اثرات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔
جیسے جیسے آپ کا درجہ بلند ہوتا ہے، آپ کی ذمہ داری بھی بڑھتی جاتی ہے۔ سب سے بڑی اور ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس علم کو دوسروں تک پہنچائیں۔ اس حوالے سے مجھے نبی کریم ﷺ کا خطبۃ الوداع یاد آتا ہے، جس میں آپ نے تاکید کی تھی کہ جس تک علم پہنچ گیا ہے، اس پر فرض ہے کہ وہ یہ علم دوسروں تک پہنچائے۔ یہ تعلیم و تبلیغ کی ذمہ داری انسانیت کی بھلائی اور معاشرے کی بہتری کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اب ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں نے غور کیا کہ دوسرے کے اس فعل پر میرا عمل کیا ہونا چاہیے تھا۔ تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ان صاحب اور صاحبہ کے پاس جا کر یہ بات براہ راست کہنا شاید غیبت کرنے سے بہتر ہوتا۔ اس طرح نہ صرف مسئلہ حل ہونے کا امکان ہوسکتا تھا، بلکہ کسی کے پیٹھ پیچھے بات کرنے کے گناہ سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ ہم میں سے اکثر خواتین یہ سب باتیں نہیں سوچتیں۔
ان سے یہ بات کچھ اس انداز میںبھی کی جا سکتی تھی کہ ’’میں نے وہاں ایک کوڑے دان دیکھا ہے، سوچا آپ کو بتا دوں، تاکہ آپ کچرا وہاں ڈال دیں۔‘‘ شاید یہ بات مسئلے کا حل بن جاتی، لیکن اگر پھر بھی ان کے اندر اس کا احساس پیدا نہ ہوتا اور وہ اسے چھوڑ کر چلے جاتے، تو دوسرا میرا عمل یہ ہو سکتا تھا کہ میں خود وہ کچرا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیتی!
آخر ہم اس کام کو کرنے سے کیوں شرماتے ہیں۔۔۔؟ اگر ایک پاکستانی پاکستان کو بدنام کر رہا ہے، تو کیا دوسرے پاکستانی کا عمل صرف غیبت کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔۔۔؟ یا اسے اپنے عمل سے اس بدنامی کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے؟
دینِ اسلام ہمیں اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونا سیکھتا ہے، لیکن ہم نے ان تعلیمات پرعمل تو دور کی بات غور وفکرتک نہیں کیا۔ غیر مسلمانوں نے اخلاقیات کو اپنا لیا اس کی مثال جاپانیوں کا اپنا اسٹیڈیم صاف کرنا ہے، یہ سوچے بغیر کہ یہ کچرا میرا نہیں، وہ پوری توجہ سے اسٹیڈیم صاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی کیوں مانگی؟
اداکارہ علیزہ شاہ ان دنوں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں کیونکہ وہ اُن تمام سینیئر فنکاروں کو بے نقاب کر رہی ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔
علیزہ نے شازیہ منظور، جگن کاظم اور یاسر نواز جیسے سینیئرز کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی انہوں نے منسا ملک کے ساتھ پیش آنے والے ایک جھگڑے کا بھی ذکر کیا، جس میں علیزہ نے ایک سین میں منسا کو دھکا دیا اور تھپڑ مارا۔
اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں علیزہ نے جگن کاظم پر گرتی ہوئی اداکاری کی نقل اُتارنے کا الزام بھی لگایا۔
جگن کاظم کی معذرتاس تنقید کے بعد سینیئر اینکر اور میزبان جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی مانگی۔ انہوں نے اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی۔
ویڈیو میں جگن کاظم نے کہا کہ ’میں براہِ راست علیزہ بیٹا سے مخاطب ہوں۔ میں تمہیں بیٹا اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ تم میرے بیٹے کی عمر کی ہو۔ اگر میری کسی بات سے تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو میں دل سے معذرت خواہ ہوں۔
View this post on InstagramA post shared by Social Diary Magazine Official (@socialdiarymag)
جگن کاظم نے کہا کہ علیزہ، مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ وہ ویڈیو تمہیں ناگوار گزری۔ تم نے کہا کہ تم مجھے عزت دیا کرتی تھیں، یہ بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔
جگن کاظم کا کہنا تھا کہ بحیثیت سینیئر مجھے تمہارے لیے ایک مثالی شخصیت ہونا چاہیے تھا، میں کبھی بھی کسی نوجوان پر برا اثر ڈالنا نہیں چاہتی۔ میں تم سے دل سے معافی مانگتی ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ویڈیو 4 سال پرانی تھی اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا معاملہ بن جائے گا، لیکن اب میں سمجھ گئی ہوں کہ یہ اہم تھا۔ تم مجھے میسج کر دیتیں تو میں فوراً معذرت کر لیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی کوئی غلطی کرتی ہوں، فوراً معافی مانگ لیتی ہوں، چاہے وہ میرے اہلِ خانہ ہوں یا دوست۔ مجھے واقعی نہیں معلوم تھا کہ تمہیں دکھ پہنچا ہے یا لوگ تمہیں ٹرول کر رہے ہیں۔
جگن کاظم نے کہا کہ میں سب کی طرف سے معذرت کرتی ہوں جو اس میں شامل تھے۔ اب جب مجھے یہ ویڈیو بنانے کا موقع ملا تو میں نے ضروری سمجھا کہ معذرت کروں۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ تم نے یہ معاملہ عوامی سطح پر اٹھایا ہے، اس لیے میں بھی عوامی طور پر معذرت کر رہی ہوں۔ جب میں انڈسٹری میں آئی تھی تو میرے ساتھ بھی بُرا سلوک ہوا تھا، اس لیے مجھے تمہاری کیفیت کا بخوبی اندازہ ہے۔
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اور شوبز انڈسٹری میں ہمدردی، معافی اور رویے کی سنجیدگی سے متعلق ایک نئی بحث کا آغاز کر چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں