پاکستان بزنس فورم، قومی برانڈز کا پاسبان
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
جب پاکستان بزنس فورم نے دوسری میرا برانڈ پاکستان نمایش کا اعلان کیا تو ہمارا خیال تھا کہ اسی طرح ایک اچھی نمایش ہوگی جیسی پہلی ہوئی تھی۔ لیکن بزنس فورم کے جنرل سیکرٹری عامر رفیع نے ہمیں پوری طرح اس پروجیکٹ میں شامل کرلیا، اور جب اس حوالے سے ہونے والی ایک میٹنگ میں شرکت کی جہاں بزنس فورم کے صدر برادر سہیل عزیز نے گرم جوشی سے خیر مقدم کیا اور ساتھیوں سے تعارف کرایا۔ اسی روز علم میں آیا کہ اس سال پہلے سے بڑے پیمانے پر نمایش ہورہی ہے اور دونوں بڑے ہالز میں نمایش کنندگان کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوگی۔ سہیل عزیز نے تفصیل بتائی کہ اس مرتبہ زیادہ برانڈز آرہے ہیں، انہوں نے زور دیا کہ ہم اس نمایش کی تمام آمدنی اہل فلسطین کے لیے وقف کررہے ہیں، ایک طرف تو بائیکاٹ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پاکستانی مصنوعات کو فروغ دیا جارہا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی مصنوعات کا تعارف کرائیں اور ان کو فروغ دیں۔
یہ باتیں تو باتیں تھیں اور بہت سے لوگ باتیں کرتے ہیں اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے، لیکن چشم فلک نے یہ منظر دیکھا برسر زمین یہ واقعہ ہوا کہ ایکسپو سینٹر کے دونوں بڑے ہالز تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگے، اور یہ باتیں 18 اور 19 جنوری کو حقیقت کا روپ دھار گئیں، پہلے دن تو افتتاح تھا لیکن وہاں موجود برانڈز نے کھلبلی مچادی۔ تقریباً چارسو کمپنیوں اور برانڈز نے اسٹال لگائے جن میں لوگوں نے بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا، ایک اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ لوگوں نے دو دنوں میں اس نمایش کا دورہ کیا اور یہاں صرف دورہ نہیں کیا گیا بلکہ ایک بہت بڑی تجارتی سرگرمی عمل میں آئی، رش کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ نمایش کے دونوں دن حسن اسکوائر کے اطراف کی سڑکیں بلاک رہیں اور اس کا سبب وہ نہیں تھا جو کرکٹ میچوں کے وقت سڑکیں بند کرنے سے ہوتا ہے، یہ رش عوام کے خود گھروں سے نکلنے کی وجہ سے بڑھا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان بزنس فورم آئندہ سال کے لیے تمام چھے ہال بک کرنے کی تیاری کرے، اور دو کے بجائے تین دن کا پروگرام رکھے تو عوام کی وہ تعداد بھی شریک ہوسکے گی جو اس مرتبہ چاہتے ہوئے بھی شریک نہ ہوسکی۔ عملاً صورتحال یہ تھی کہ رات کو گیٹ بند کرنے پڑے کہ لوگ آخری لمحے میں بھی نمایش میں آنا چاہ رہے تھے۔
پاکستان بزنس فورم نے یہ کام کسی منافع کے حصول کے لیے نہیں کیا بلکہ ساری آمدنی فلسطین فنڈ میں دینے کا پہلے ہی اعلان کردیا تھا گویا نفع دونوں جہانوں کا کے مصداق ہر طرح فائدے میں رہے، جبکہ تاجروں اور کمپنیوں نے کروڑوں روپے کا مال فروخت کیا، ایک اندازے کے مطابق تقریباً چالیس کروڑ روپے کا مال فروخت ہوا، اور سب سے زیادہ فائدہ تاجروں کو یہ ہوا کہ تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کے سودے بھی ہوئے۔ بہت سے تاجروں نے رمضان کے سودے کیے، بہت سے معزز مہمانوں نے تبصرہ کیا کہ ہم تصور نہیں کرسکتے تھے اتنا زبردست نظام اور اتنے سارے برانڈ ز کو بزنس فورم نے ایک چھت کے نیچے جمع کردیا ہے۔ اس حوالے سے بزنس فورم کے صدر سہیل عزیز نے بھی بتایا کہ ہم نے اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایس ایم ایز) کے لیے علٰیحدہ گوشہ رکھا اور لوگوں نے نئے نئے برانڈز پر کام کیا، ایسے تمام لوگوں اور تاجروں کو ہم نے موقع دیا، ہماری کوشش تھی کہ ایس ایم ایز کو سامنے لائیں اور ہمیں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے نتیجے میں اپنے برانڈز متعارف کرانے کے خواہاں ایس ایم ایز کو بڑے برانڈز کے مساوی مواقع ملے۔ بزنس فورم کی اس نمایش نے چھوٹے بزنس مین کو بھی بہت اعتماد دہا ہے۔ کہ اب ہم بڑے برانڈز کے مساوی موقع حاصل کرکے مقابلہ کرسکتے ہیں، اور انہوں نے اپنے برانڈز کی خوب تشہیر کی، لیکن ایسا نہیں ہے کہ بڑے برانڈز نے بزنس نہیں کیا، انہوں نے رعایت بھی دی اور مستقبل کے بہت بڑے سودے بھی کیے، اسٹاک مارکیٹ میں وعدوں پر کاروبار ہوتا ہے میرا برانڈ پاکستان میں بھی اگلے دوماہ کے پیشگی سودے ہوئے۔ اور بڑے برانڈز نے چھوٹے برانڈز کو ڈسپلے، پیکنگ، اسٹالز کی سجاوٹ وغیرہ میں بھی رہنمائی دی۔
ان سارے کاموں، اربوں روپے کے کاروبار، مقامی یعنی پاکستانی برانڈز کے فروغ اور ایک چھت تلے اتنے سارے کاروباری حضرات کو جمع کرنے کا سہرا پاکستان بزنس فورم کے سر ہے۔ پی بی ایف نے ایک مثبت ماحول میں کسی مقابلے بازی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے بغیر بزنس کا جو ماحول دیا وہ شاید دنیا میں کہیں نہیں ملتا، اپنے ملک کے تاجروں اور پاکستانی برانڈز کی پاسبانی کا یہ عزاز پاکستان بزنس فورم کو حاصل ہوا، اور پاکستان کو اسی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے جتنے پروگرام ہوں گے پاکستانی برانڈز کو اتنا ہی زیادہ فروغ ملے گا۔
اگر دیکھا جائے تو، پاکستان میں پاکستانی برانڈز کے لیے بہت مواقع ہیں سرکار نے کئی ادارے بنارکھے ہیں، خود تاجروں نے تنظیمیں بنا رکھی ہیں لیکن بزنس فورم کی اس سرگرمی سے جو قومی خدمت ہوئی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، ہم اکثر کہتے ہیں کہ لوگ پیسہ ملک میں لائیں، لیکن اس کے لیے ماحول اور مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، پاکستان بزنس فورم نے دونوں کام نہایت خوبصورتی اور پیشہ ورانہ طریقے سے انجام دیے ہیں، اس نمایش میں ایسے ادارے اور تاجر بھی شریک ہوئے جو صرف ایکسپورٹ پر توجہ دیتے تھے، لیکن ان کی ہمت افزائی کی گئی تو وہ پاکستانی مارکیٹ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اس سے معیاری پاکستانی برانڈز مارکیٹ میں آنے کا راستہ کھلا ہے۔ بزنس فورم نے دروازہ کھولا، عوام داخل ہوئے، عوام اور برانڈز نے سودے کیے، ہول سیل تاجروں اور برانڈز نے بھی سودے کیے، پاکستان بزنس فورم یہ کامیاب پروگرام کرانے پر پوری ٹیم کے ساتھ مبارکباد کی مستحق ہے، اور اس کی مبارکباد اور پذیرائی یہ ہے کہ اب وہ بلائے تو ساری قوم ملی جذبے کے ساتھ کھڑی ہوجائے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ملکی برانڈز زرمبادلہ بھی بچائیں گے اور برآمدات میں اضافہ بھی کریں گے، لیکن اس کے لیے حکومت پاکستانی برانڈز کو ترجیحی بنیادوں پر مراعات دے۔ کئی بڑے پاکستانی برانڈز نمایش میں نظر نہیں آئے، اس کی وجہ احتیاط بھی ہوسکتی ہے، اور مارکیٹ حکمت عملی بھی، لیکن میرا برانڈ پاکستان 25 کی کامیابی کے بعد حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ بڑے برانڈ اسٹالز لگانے کے ساتھ نمایش کے اسپانسرز بھی بنیں، اس ملک سے کماتے ہیں اب اس پر لگانے کا کام بھی کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان بزنس فورم پاکستانی برانڈز بزنس فورم نے بزنس فورم کے بڑے برانڈز برانڈز کے بڑے برانڈ اس نمایش کے لیے
پڑھیں:
بھارت کیلئے فضائی حدود بند، تجارت ختم، پانی روکنا جنگ کا اقدام تصور، پوری طاقت سے جواب دینگے، قومی سلامتی کمیٹی
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا پانی روکنا اعلان جنگ تصور کیا جائے گا اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان نے شملہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کی معطلی کا عندیہ دیتے ہوئے بھارت کیلئے فضائی حدود، سرحدی آمد و رفت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتی عملے کو 30 ارکان تک محدود کرنے کے علاوہ بھارتی دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان نے سکھ یاتریوں کے علاوہ تمام بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کرکے انہیں 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، اعلیٰ سول و عسکری قیاردت، وفاقی وزراء نے شرکت کی۔ شرکاء نے قومی سلامتی کے منظر نامے، علاقائی صورتحال بالخصوص غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں 22 اپریل 2025 کو ہونے والے پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، کمیٹی نے 23 اپریل 2025 کو اعلان کردہ بھارتی اقدامات کا جائزہ لیا اور انہیں یکطرفہ، غیر منصفانہ، سیاسی محرکات پر مبنی، انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی قرار دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے مندرجہ ذیل مشاہدات کیے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین ایک غیر حل شدہ تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔ مسلسل ہندوستانی ریاستی جبر، ریاستی حیثیت کی منسوخی، سیاسی اور آبادیاتی ہیر پھیر، مسلسل غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کے لوگوں کی طرف سے ایک فطری و مقامی ردعمل کا باعث بنی ہے، جو تشدد کی فضا کا باعث بنا ہے۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بھارت کا منظم ظلم و ستم مزید بڑھ گیا ہے۔ وقف بل کی زبردستی منظوری کی کوششیں ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی تازہ ترین کوشش ہے۔ بھارت کو ایسے المناک واقعات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی پوری ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی بلا امتیاز مذمت کرتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف دنیا کی صف اول کی ریاست ہونے کے ناطے پاکستان کو بے پناہ انسانی اور معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر کشیدگی کی بھارتی کوششوں کا مقصد پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے توجہ ہٹانا ہے۔ کسی مصدقہ تحقیقات اور قابل تصدیق شواہد کی عدم موجودگی میں پہلگام حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں بے بنیاد، عقلیت اور منطق سے عاری ہیں۔ بھارت کی مظلومیت کی بوسیدہ داستان پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی آگ کو ہوا دینے میں اس کے اپنے قصور کو چھپا نہیں سکتی اور نہ ہی وہ بھارتی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں اپنے منظم اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹا سکتی ہے۔ ہندوستانی دعووں کے برعکس، پاکستان کے پاس پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت ہیں، جن میں ہندوستانی بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر، کمانڈر کلبھوشن یادیو کا اعتراف بھی شامل ہے، جو ہندوستان کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا زندہ ثبوت ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے 23 اپریل 2025 کے بھارتی بیان میں مضمر خطرے کی مذمت کی۔ پاکستان تمام ذمہ داروں، منصوبہ سازوں اور مجرموں کا پیچھا کرے گا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔ کمیٹی نے مندرجہ ذیل فیصلے کئے۔ پاکستان سندھ طاس معاہدہ ملتوی کرنے کے بھارتی اعلان کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کی ثالثی عالمی بینک نے کی اور اس میں یکطرفہ طور پر معطلی کی کوئی شق نہیں ہے۔ پانی پاکستان کا ایک اہم قومی مفاد ہے، جس پر اس کے 24 کروڑ عوم کی زندگی منحصر ہے اور اس کی دستیابی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش اور زیریں دریا کے حقوق غصب کرنے کو ایک جنگی قدم تصور کیا جائے گا اور قومی طاقت کے مکمل دائرہ کار میں پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔ بین الاقوامی کنونشنز، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو اپنی مرضی سے نظر انداز کرنے والے بھارت کے لاپرواہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو دیکھتے ہوئے، پاکستان اس وقت بھارت کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کرے گا، جو صرف شملہ معاہدے تک ہی محدود نہیں رہے گا، جب تک بھارت سرحد پار قتل و غارت، بین الاقوامی قوانین اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی عدم پاسداری سے باز نہیں آتا۔ پاکستان واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کر دے گا۔ اس راستے سے ہندوستان سے تمام سرحد پار آمدورفت بغیر کسی استثنا کے معطل رہے گی۔ جو لوگ درست قانونی طریقے سے پاک بھارت سرحد عبور کر چکے ہیں وہ اس راستے سے فوری طور پر واپس جا سکتے ہیں لیکن 30 اپریل 2025 کے بعد یہ سہولت بند کردی جائے گی۔ پاکستان نے ہندوستانی شہریوں کو جاری کردہ سارک ویزا استثنیٰ سکیم (SVES) کے تحت تمام ویزوں کو معطل کر دیا ہے اور سکھ مذہبی یاتریوں کے علاوہ انہیں فوری طور پر منسوخ تصور کیا ہے۔ پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے دیا۔ انہیں 30 اپریل تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان مشیروں کے معاون عملے کو بھی ہندوستان واپس جانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ 30 اپریل 2025 سے اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمیشن کی تعداد 30 سفارت کاروں اور عملے کے ارکان تک محدود کر دی جائے گی۔ پاکستان کی فضائی حدود میں ہندوستان کی ملکیت اور ہندوستان سے چلنے والی تمام ایئرلائنز کو فوری طور پر بند کیا جارہا ہے۔ بھارت کے ساتھ تمام تجارت، بشمول کسی تیسرے ملک سے پاکستان کے راستے تجارت، فوری طور پر معطل کر دی گئی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی مہم جوئی کے خلاف اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی بھرپور صلاحیت کی حامل اور مکمل طور پر تیار ہیں، جیسا کہ فروری 2019 میں بھارت کی دراندازی پر پاکستان کے بھارت کے خلاف بھرپور ردعمل سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ آخر میں کہا گیا، بھارت کے جارحانہ اقدامات نے دو قومی نظریہ کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کے خدشات کی بھی توثیق کی ہے ۔ 1940 کی قرارداد جو کہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمان ہے، کی بنیاد بھی دو قومی نظریہ ہی تھا۔ پاکستانی قوم امن کے لیے پرعزم ہے لیکن کسی کو بھی اپنی خود مختاری، سلامتی، وقار اور ناقابل تنسیخ حقوق سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔علاوہ ازیں بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے بھارت کو اپنے جوابی فیصلوں سے تحریری طور پر آگاہ کر دیا۔ بھارتی ناظم الامور گیتکا سری واسقو کی دفتر خارجہ طلبی کی گئی۔
اسلام آباد؍ نئی دہلی(خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ ) پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت اور فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت اور واہگہ بارڈر کو بند کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے لئے پاکستانی ایئر سپیس بھی بند کردی گئی ہے۔ بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑنا ہوگا۔ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیرخارجہ اسحق ڈار نے وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ بھارتی الزامات اور فیصلے غیرذمہ دارانہ ہیں۔ دفترخارجہ نے گزشتہ روز ہی، بھارت سے بھی پہلے پہلگام واقعے کی مذمت کا اعلامیہ جاری کردیا تھا۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی جانب سے پاکستان کے اس اعلامیے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مثبت قدم قرار دیا تھا۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا یکطرفہ اقدام کسی بھی طور قبول نہیں، بھارت ایسا کر بھی نہیں سکتا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے میں ثالث تھا اور معاہدے میں یکطرفہ طور پر معطل کیے جانے کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔ 24 کروڑوں لوگوں کا یہ ملک ایسا کوئی بھی یکطرفہ اقدام قبول نہیں کرے گا، اور اگر معاہدے میں کوئی رکاوٹ آتی ہے تو پھر پاکستان کو دو حق حاصل ہیں ایک تو یہ کہ اس کے نتیجے میں وہ جو قدم اٹھانا چاہے وہ اٹھائے گا۔ دوسرا یہ کہ لیڈر شپ نے بڑا واضح فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کے اقدام کے جواب میں شملہ معاہدے سمیت دیگر دوطرفہ معاہدوں پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ قومی سلامتی اجلاس میں بھارت کے اٹاری بارڈر کو بند کرنے کے جواب میں ہم بھی واہگہ بارڈر بند کررہے ہیں اور بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کی جارہی ہے۔ بھارت سے براہ راست تجارت کے ساتھ ساتھ کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہونے والی تجارت بھی معطل کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سارک ویزا ایگزمشن سکیم کے تحت جن بھارتیوں کو ویزے جاری ہوچکے ہیں انہیں منسوخ کیا جارہا ہے، سکھوں کے سوا بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے کے اندر واپس جانے کا کہا گیا ہے۔ ہم نے بھی بھارتی بحریہ اور فضائیہ کے ایڈوائزرز کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا ہے اور ان کو بھی 30 اپریل تک پاکستان چھوڑ دینا ہوگا۔ بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد 55 سے کم کرکے 30 کردی ہے، تو اس کے جواب میں ہم نے بھی اسلام آباد میں بھارتی سفارتی عملے کی تعداد کم کرکے 30 کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے لیے پاکستانی فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کسی بھی بھارتی ایئرلائن کے طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسحق ڈار نے کہا کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے میں اپنا بنگلہ دیش کا دو روزہ سرکاری دورہ ملتوی کررہا ہوں، تاکہ کسی بھی حالات میں ہم جواب دینے کے لیے تیار ہوں۔ وزیرخارجہ اسحق ڈار نے مزید کہا کہ بھارت ہمیشہ الزامات عائد کرتا ہے، اگر پاکستان کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد ہیں تو بھارت کو چاہیے کہ وہ پاکستان یا دنیا کے سامنے رکھے۔ ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ سرینگر میں حال ہی میں غیرملکی آئے ہیں جن کے پاس بھاری آلات ہیں، ان کے کیا عزائم ہیں اس پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ایجنسیوں کی اطلاع ہے کہ بھارتی ایجنسیاں ان غیرملکیوں کو سپانسر کررہی ہیں اور ان افراد کے پاس جو آئی ای ڈیز ہیں انہیں ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کررہی ہیں، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آئی ای ڈیز کہاں ایکسپورٹ ہوں گی۔ تاہم پاکستان کو اگر کسی بھی حوالے سے کوئی چیلنج درپیش ہوتا ہے تو اس کے لیے الحمد للہ ہماری افواج مکمل طور پر تیار ہیں، اور کسی نے ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو اس کا ماضی سے زیادہ برا حشر ہوگا۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے ہیں کہ معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ اپنا کردار فعال طور پر ادا کریں، پاکستان کا نام لے کر کوئی بات نہیں کی گئی لیکن چونکہ انہوں (بھارت) نے کچھ فیصلے کیے ہیں جن کا جواب دے دیا گیا ہے، جب براہ راست حملہ ہوگا تو پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ دورہ کابل میں افغان وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت میں یہ کہا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں، اگر دو ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر کوئی چھوٹی موٹی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اسے ہماری سکیورٹی فورسز کی ناکامی نہیں کہا جاسکتا۔ تمام صورتحال پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد لیا جائے گا اور اس پورے معاملے کو پارلیمان کے سامنے بھی رکھا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے معاہدے کو ختم یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے فریقین کی رضامندی ضروری ہے، تنازع کی صورت میں ثالثی کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہآصف نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت سمیت جہاں بھی دہشتگردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، مگر ہم اپنے دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر رہا ہے، افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشتگرد موجود ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں، کلبھوشن بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی زندہ گواہی ہے۔کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر بھارت میں ہیں اور اپنا علاج وہاں کراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں، اور بھارتی وزیراعظم مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 9لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں پہلگام واقعے پر سوالیہ نشان ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ کوئی کسی شک میں نہ رہے، ہم پوری طرح تیار ہیں اور بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیں گے۔ وفاقی وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی اقدامات گیدڑ بھبکیاں تھیں، ہم نے بھارتی اقدامات کا دو گنا بڑھ کر جواب دیا، سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس صرف اونچی آواز اور گیدڑ بھبکیاں ہیں، ہم نے سود سمیت حساب برابر کردیا ہے اور بیانیے کی جنگ میں بھی بھارت پر سبقت حاصل کی ہے۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ پاکستانی فضائی حدود بند کرنے سے بھارتی ایئرلائنز کو کروڑوں کا نقصان ہوگا جس کا اثر بھارتی معیشت پر پڑے گا۔ ہمارے صحافیوں نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کا کیس بڑے موثر اور مدلل انداز میں لڑا ہے جس پر میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دہشت گردوں کے خلاف جو ہمیں کامیابیاں ملی ہیں، وہ بھارت کو ہضم نہیں ہورہیں کیونکہ بھارت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کروا رہا ہے، تو ہمارے مغربی جانب جو آپریشن ہورہے ہیں اس سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی بھارت نے اس واقعے کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جنگوں میں بھی سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسی کوئی بات معاہدے میں شامل نہیں ہے، اسی لیے اسے مرکزی موضوع نہیں بنایا گیا، بلکہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں پوری توجہ یہ واضح پیغام دینے پر تھی کہ آپ کی سکیورٹی ناکام ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے لوگوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوا ہے، اور اپنی ناکامی کا ملبہ کسی دوسرے پر نہیں ڈال سکتا، نہ اس کی اجازت عالمی قانون میں ہے اور نہ ہی یہ بین الاقوامی قاعدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ واضح پیغام ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ہمارے لیے ایک مقدس معاہدہ ہے، اور ہم اس پر عمل درآمد کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ سندھ طاس معاہدے کی صورت میں اس کے نفاذ کے حوالے سے معاہدے میں مکینزم موجود ہے، اور ویانا کنونشن میں بھی کسی بھی تنازع کی صورت میں معاہدے پر عمل درآمد کا مکینزم دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کی زیر صدارت نئی دہلی میں اے پی سی ہوئی۔ کانگریسی رہنما راہول گاندھی اور آل انڈیا اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے بھی شرکت کی۔ بھارتی اپوزیشن رہنمائوں نے مودی پر سخت تنقید کی۔دریں اثناء بھارتی وزیر داخلہ نے پہلگام حملے میں سکیورٹی کوتاہی کا اعتراف کر لیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے پہلگام حملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھائے۔ علاوہ ازیں بھارتی پنجاب پولیس کے مطابق واہگہ بارڈر سے 28 پاکستانی واپس پاکستان آ گئے۔ پاکستان سے 105 بھارتی شہری بھی واہگہ بارڈر سے واپس بھارت جا چکے ہیں۔