Jasarat News:
2025-06-09@16:33:42 GMT

پھول کم ہوں خوشیاں نہ ہوں! یہ کون سی عقل مندی ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پھول کم ہوں خوشیاں نہ ہوں! یہ کون سی عقل مندی ہے


بچے پھولوں کا گیت ہیں۔ سر بفلک پہاڑوں، چاند ستاروں، خوش نما پھولوں، رنگین تتلیوں، تصویروں اور حسین چہروں کو جس سرشاری سے بچے دیکھتے ہیں یہ مناظر بھی بچوں کو اسی خوشی سے دیکھتے ہیں، ان سے زندگی کا احساس لیتے ہیں۔ بچے دنیا کے بارے میں عظیم آسمانی منصوبے کا حصہ ہیں۔ بچے ہماری میراث، ہمارا اثاثہ ہیں۔ شیطان ہمیں اکساتا ہے کہ ہم ظلم کریں، بے رحمی کریں۔ بچوں کو دنیا میں آنے سے روکیں۔ یہ وہ بدترین ظلم ہے جو شیطان ہم سے چاہتا ہے۔ زیادہ بچے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے سجدہ ریزی ہے۔ اللہ کے اس فرمان پر یقین کی علامت: ’’اپنی اولاد کو فقرو فاقہ کے خیال سے قتل مت کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ روئے زمین پر چلنے والے جتنے جاندار ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمے ہے‘‘۔

جو خالق اتنی بڑی کائنات تخلیق کرسکتا ہے کیا اسے ہی یہ علم نہ ہوگا کہ 2025 اور اس کے بعد کے ادوار میں انسانی ضروریات کتنی ہوں گی اور انہیں کیسے پورا کرنا ہے۔ وہ جو کہتا ہے ’’میں سب سے بڑا منصوبہ بنانے والا ہوں‘‘ وہ خاندانی منصوبہ بندی کی ان کوششوں پر کیسے ہنستا ہوگا۔ ہزاروں برس سے یہ دنیا آباد ہے۔ کھربوں انسان آئے اور چلے گئے، کیا وہ بھوکے مر گئے تھے جو اب مرجائیں گے۔ کبھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خزانے کم ہوئے ہیں جواب ہوجائیں گے۔

کم بچوں کی کوشش شیطان کو سجدہ ہے۔ آدم ؑاور نسل آدم کے خلاف جس کی جنگ شدت سے جاری ہے۔ انسان جلد باز ہے۔ خوف وہراس اس کی کمزوری ہے۔ زیادہ بچوں کی تعداد سے اسے ڈرایا جاتا ہے تو شیطان شہ دیتا ہے، تنگی اور خوف کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ یوں ربّ کائنات کے خالق اور مالک ہونے کے عقیدے پر ضرب لگا کر انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے۔ زیادہ بچے والدین اور گھروں کی برکت ہیں۔ وہ جن کے ایک دو بچے ہیں، اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائیں، نافرمان نکل جائیں تو پھر تنہا والدین کہاں جائیںگے، کیا کریں گے۔ جن والدین کے زیادہ بچے ہوتے ہیں ان کا بڑھاپا عشرت میں گزرتا ہے۔ آج اِس بچے کے گھر مہمان، کل اُس بچے کے گھر مہمان، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں گھرے ہوئے۔

یہ بچوں پر ظلم کا بدترین دور ہے۔ ہلاکو اور چنگیزخان بچوں کو سنگینوں میں پروتے تھے۔ آج کی مہذب دنیا ماں کے پیٹ ہی میں انہیں قتل کررہی ہے، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں روزانہ۔ نہ جانے کون کون سے نشتر ان کے بدن میں چبھوکر، کون کون سے زہر ان کے رگ وپے میں اتار کر۔ اس پر جواز غربت، افلاس، پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو جیسے پُر فریب نعرے۔ کل کہیں گے جب سنبھال نہیں سکتے تو پالتے کیوں ہو۔

بچے کم پیداکرنے کے لیے وضع کیے گئے دلائل، میڈیا ہائو سز سے فیملی پلا ننگ کے قصیدے، اشتہار، ٹاک شوز، پروگرام اور سیمیناروں میں کی گئی تقریریں مسلمانوں کی اکثریت غلاظت کے ڈھیروں پر پھینک دیتی ہے جب اللہ کی آخری کتاب انہیں آگاہ کرتی ہے: ’’زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور عارضی ٹھکانے کو بھی‘‘ (ھود: ۶) اور جب اس مقام سے جو آسمان کے نیچے ایک بہت ہی ادب والا مقام ہے، جو عرش سے بھی نازک ہے، جہاں جنید اور بایزید جیسی ہستیاں اپنا سانس روکے ہوئے آتی ہیں اس مقام ادب سے یہ فرمان جاری ہوتا ہے ’زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ میں کل قیامت میں تم لوگوںکی زیادہ تعداد کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروںگا‘‘۔ تو پھر کون مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کی بکواس پر عمل کرے گا۔

کہا جاتا ہے کہ نسل انسانی کے کم ہونے سے وسائل پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ مہنگائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے تو پھر مغرب کے بیش تر ممالک کیوں مہنگائی سے بے حال ہیں۔ بچے کم پیدا کرنا تو ایک طرف جہاں لوگ بچے پیدا کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ وہاں تو نسل انسانی وسائل پر بوجھ نہیں ہے۔ پھر مہنگائی اور وہ بھی ایسی مہنگائی کیوں ہے کہ فرانس میں لوگ مہینوں مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر توڑ پھوڑ اور آگ لگاتے رہے۔ امریکا اور یورپ میں تو بچے منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیے جاتے ہیں پھر وہاں مہنگائی کیوں ہے۔ مسئلہ وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کا نہیں ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔ وہ تقسیم جس نے دولت کو اکثریت کے ہاتھوں سے چھین کر دنیا کے چند امیر ہاتھوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کو خواتین کی صحت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اسلام میں خواتین کی صحت اور جان کو لاحق خطرات کی صورت میں خاندانی منصوبہ بندی کی اجازت ہے مگر انفرادی سطح پر۔ کیس ٹو کیس۔ با امر مجبوری۔ اسے تحریک بنا کر معاشرے پر ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ یہ تحریک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت رزاقیت کا انکار ہے۔ ان تحریکوں کا مقصد مالی منفعت اور اربوں کھربوں روپے کی اس صنعت کا فروغ ہے جو مانع حمل ادویات اور آلات تیار کرتی ہیں۔ مانع حمل ادویات اور طریقوں نے عورتوں کی زندگی کو جہنم بنادیا ہے۔ انہیں چلتی پھرتی لاشیں بنادیا ہے۔ خطرناک امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ حرام کاری اور فحاشی کا دروازہ کھول دیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان عورتوں کو ہی ہوتا ہے۔ عورت جس طرح آج بازار کی جنس ہے شاید ہی کسی بھی زمانے میں رہی ہو۔

خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کا آغاز اٹھارویں صدی کے اواخر میں یورپ میں ہوا۔ اس کا محرک برطانیہ کا مشہور ماہر معاشیات مالتھس تھا۔ اس نے حساب لگایا تھا کہ اگر نسل انسانی اسی طرح اپنی فطری رفتار سے بڑھتی رہی تو زمین انسان کے لیے تنگ پڑجائے گی۔ یہ تحریک ایک عالمی تحریک اس وقت بنی جب امریکا کے وزیر خارجہ جان مارشل نے 1947ء میں دنیا کی آبادی کم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ وہ دراصل مسلمانوں کی بڑی آبادی سے پریشان تھا۔ اس منصوبے سے اس کا اصل مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی کوشش کرنا تھا، لیکن جو اصل ہدف تھے یعنی مسلمان وہ تو اس مغربی سازش سے اس قدر متاثر نہ ہوئے۔ لیکن مغرب کو اس نظریے نے اس طرح برباد کیا کہ آج ترقی یافتہ ممالک اپنی تہذیبوں کے خاتمے کے خوف میں مبتلا ہیں۔

دنیا کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیںکہ اگر کسی بھی تہذیب کو زندہ رکھنا ہے تو اسے اگلے پچیس سال تک اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو اس طرح برقراررکھنا ہے کہ ہر خاندان میں اوسطاً 2.

11 شرح پیدائش برقرار رہے۔ اگر یہ شرح کم ہوکر 1.9 پر آجائے تو خطرہ اور اگر 1.3 پر آجائے تو ایسی تہذیب دنیا سے نیست ونابود ہوجاتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ چند برس پہلے تک فرانس کی موجودہ شرح پیدائش 1.8 فی صد ہے، انگلینڈ کی 1.6 یونان کی 1.3 اٹلی کی 1.2 اور اسپین کی 1.1 فی صد ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کے 31 ممالک کی شرح پیدائش 1.38 فی صد ہے۔ یہ وہ شرح افزائش ہے جس کی موجودگی میں قومیں فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

غربت کے خاتمے کے لیے بچوں کا قتل عقل مندی نہیں تہذیب جدید کی درندگی ہے اس سطحی حل کے بجائے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی ہوئی لکیر کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کی کھوج اور ان کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔ انصاف پسند اور درد مند حکمرانوں کی ضرورت ہے جو دردمندی سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: خاندانی منصوبہ بندی کی کی ضرورت ہے زیادہ بچے جاتا ہے کو بھی

پڑھیں:

ماورا اور امیر کی عید کی خوشیاں سوگ میں بدل گئیں

ماورا حسین اور امیر گیلانی کا شمار پاکستان کے خوبصورت جوڑوں میں ہوتا ہے۔

ماورا کا شمار پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سپر اسٹارز میں ہوتا ہے جنہوں نے ‘ثبات’ ‘نیم’، ‘سمی’، ‘جفا’، ‘نوروز’، ‘سمی’، ‘قصہ مہربانو کا’، ایک تمنا لاحاصل سی’ اور ‘آنگن’ جیسے ڈراموں میں اداکاری کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت میں صرف ایک فلم ‘صنم تیری قسم’ میں کام کرکے اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئی جو پہلی ریلیز پر تو سوائے ایک گانے ‘تو کھینچ میری فوٹو’ کی مقبولیت کے علاوہ کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی البتہ دوبارہ ریلیز پر سپر ہٹ قرار پائی۔

اداکارہ نے سال 2025 فروری میں اپنی دیرینہ محبت امیر گیلانی سے اچانک شادی کر کے سب کو حیران کردیا تھا۔

امیر گیلانی سے ماورا کی ملاقات تو پہلی بار یونیورسٹی میں ہوئی تھی تاہم ان کے درمیان محبت ڈرامہ سیریل ‘ثبات’ کے سیٹ پر پروان چڑھی، اگرچہ دونوں نے اپنے رشتے کو بہت زیادہ ظاہر کرنے سے گریز کیا لیکن دیکھنے والوں کی نظروں نے ان دونوں کے آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کو بھانپ لیا تھا۔

چند ماہ قبل ہی ماورا اور امیر گیلانی کی شادی کی تقریبات کا انعقاد ہوا جو اس جوڑے کی طرح ہی خوبصورت تھیں، اس کے بعد سے دونوں کی خوش خرم ازدواجی زندگی ان کی سوشل میڈیا پر شیئر کردہ پوسٹس سے خوب جھلکتی ہے۔

حال ہی میں عید الضحیٰ کے موقع پر ماورا اور امیر نے اپنی دلکش ویڈیو انسٹاگرام کی زینت بنائی جس میں وہ دونوں امیر کی بہن کے ہمراہ ایڈ شیریں کے وائرل گانے چم چم پر موج مستی کرتے نظر آرہے ہیں۔

عید کے موقع پر نازک کی ماورا ڈیزائنر فرحت طالب عزیز کا لائٹ گرین اور پرپل امتزاج کا جوڑا پہنی نظر آئیں جبکہ امیر گیلانی لائٹ گرے میں پہلی بار کلین شیو لک کے ساتھ ڈیشنگ قرار پائے۔

تاہم اس عید کے موقع پر شاید اس جوڑے کی خوشیوں کا عمر خاصی مختصر تھی کیوں اسی دوران ان کی زندگی کی ایک اہم چیز ان سے دور ہوکر انہیں غم میں مبتلا کر گئی۔

ہوا کچھ یوں کہ امیر اور ماورا کا پالتو کتا ‘یوگی’ صرف 2 سال کی عمر میں انہیں داغِ مفارقت دے گیا۔

دونوں اداکاروں نے اپنے اپنے انسٹاگرام ہینڈل پر اس حوالے سے خصوصی پوسٹ کرتے ہوئے اس نقصان سے آگاہ کیا۔

اداکارہ نے لکھا کہ ‘ہمارے خوبصورت لڑکے، تم بہت جلدی اور اچانک چلے گئے، اتنی مختصر سی مدت میں ہمیں اتنی محبت دینے کا شکریہ، ہم تمہیں ہر روز یاد کریں گے، ہم ہمیشہ تمہارے بارے میں سوچیں گے، میرے گولڈن بوائے۔۔۔ میرے یوگی۔۔۔ لو یو۔۔۔

View this post on Instagram

A post shared by MAWRA (@mawrellous)


دوسری جانب امیر نے بھی یوگی کے لیے خصوصی پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘آج ہمارے دل کا ایک ٹکڑا ہم سے جدا ہوگیا، میرا بہترین دوست یوگی، جلد ملیں گے۔۔ ساتھ ہی انہوں نے یوگی کا پیدائش کا دن یعنی 6 جون 2023 اور موت کی تاریخ یعنی 8 جون 2025 لکھی۔

View this post on Instagram

A post shared by Ameer Gilani (@ameergilani)


دونوں نے اپنی پوسٹ میں یوگی کے ساتھ گزارے یادگار اور دل کو چھو لینے والے لمحات کی ویڈیو اور تصاویر بھی شیئر کیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یوگی ان کے دل کے کتنا قریب تھا۔

اس صدمے پر جہاں دونوں اداکار اور ان کے اہلِ خانہ غمگین ہیں وہیں انہوں نے عید کے پہلے دن کے علاوہ اپنی مزید کوئی عید پوسٹ بھی شیئر نہیں کی۔

 سوشل میڈیا صارفین بھی ان کے اس صدمے پر دکھ کا اظہار کرتے نظر آئے، بہت سے صارفین نے اپنے تبصروں میں لکھا کہ اپنے پالتو جانور کو کھو دینا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے یہ ہمارے بچوں کی طرح دل میں جگہ بنالیتے ہیں۔

وہیں بہت سے صارفین کتوں کی عمومی عمر کے پیشِ نظر صرف دو سال میں یوگی کی اچانک موت پر اپنی حیرت کا اظہار اور سوال کرتے نظر آئے۔

زیادہ تر صارفین نے ماورا اور امیر کے پالتو کتے کی موت پر ان کو تسلی اور محبت کے پیغام بھیجے اور گزشتہ عید پر یوگی کے ساتھ کھینچی تصاویر کو یاد کیا۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • وقت ایک نہیں بلکہ تین سمتوں کا حامل ہے، نئی تحقیق
  • ماورا اور امیر کی عید کی خوشیاں سوگ میں بدل گئیں
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس
  • پانی کے چیلنجز کم کرنے کیلئے فعال منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس
  • ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • پی ٹی آئی کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی، وفاق سے ڈائیلاگ کرے: شرجیل میمن
  • پی ٹی آئی جو تحریک شروع کرنے جارہی ہے ان کو اس سے کچھ نہیں ملےگا: رانا ثنا