جنوری کے دو ہفتوں میں 600 افراد برطانیہ اور امریکہ سے پاکستان ڈی پورٹ
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
امیگریشن حکام کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جنوری کے دو ہفتوں میں 600 افراد کو برطانیہ اور امریکہ سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔
ڈی پورٹ ہو کر آنے والوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے جن غیر قانونی افراد کو ڈی پورٹ کیا جاتا ہے ان کے بارے میں پاکستان کی وزارت داخلہ اور امیگریشن حکام کو رپورٹ ای میل کر دی جاتی ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تارکین وطن کی بڑی تعداد جو غیر قانونی طور پر برطانیہ اور امریکہ میں مقیم ہے اپنی شناخت ضائع کرنا شروع کر دی ہیں جن میں ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی شامل ہے تاکہ وہ اسٹیٹ لیس ہو جائیں۔
اسٹیٹ لیس افراد کی بڑی تعداد برطانیہ اور امریکہ کی جیلوں میں قید ہے اور ان کے بارے میں مذکورہ ممالک پاکستانی حکام سے ان کی شناخت اور سفری دستاویزات طلب کر رہے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے مختلف ایئرپورٹ سے 15 یوم کے اندر 500 سے زائد مسافروں کو جہازوں سے آف لوڈ کیا گیا ہے جو دبئی، سعودیہ، ترکی، ملائشیا، تھائی لینڈ اور لیبیا جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایسے مسافر جن کے پاس ریٹرن ٹکٹ اور مطلوبہ رقم موجود نہیں تھی انہیں بھی آف لوڈ کر دیا گیا ہے، آف لوڈ کیے جانے والوں میں ایسے مسافر بھی شامل ہیں جن کے پاس صرف کریڈٹ کارڈ تھے اور ان کا یہ موقف تھا کہ وہ کریڈٹ کارڈ سے رقم نکالیں گے، صرف کراچی ایئرپورٹ پر 22 جنوری کو 200 سے زائد پاکستانی ڈیپورٹ ہو کر پہنچے۔
اسپین کشتی حادثہ کے بعد فیصل آباد، سیالکوٹ، لاہور ایئرپورٹ پر تعینات تقریباً 200 سے زائد ایف آئی اے کے اہلکاروں اور افسران کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ وزارت داخلہ نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی آج تبدیل کر دیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان، برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں مسافروں کو سخت ترین چیکنگ اور سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ کسی اور کشتی حادثہ سے بچنے کے لیے وزارت داخلہ اور خفیہ داروں نے مختلف سفارت خانوں میں ویزا درخواستیں دینے والوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے بالخصوص ایسے ممالک جہاں پہنچ کر کشتی میں یورپ جانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
باہر خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ڈیرے جما لیے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی حکام لیبیا میں ہزاروں افراد جو یورپ جانے کے خواہش مند تھے کو وطن واپس لانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند یوم قبل یو کے آئی پی سیاسی جماعت کے مظاہرین نے زبردست احتجاجی مظاہرے کیے اور مطالبہ کیا کہ غیر قانونی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کیا جائے۔
برطانوی حکومت جو پہلے ہی غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر چکی ہے ان مظاہروں سے سخت پریشان نظر آتی ہے
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: برطانیہ اور امریکہ ڈی پورٹ
پڑھیں:
کراچی پورٹ ٹرسٹ میں لوٹ مار کا مقابلہ ایف بی آر بھی نہیں کر سکتا: خواجہ آصف
اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں ہو رہی لوٹ مار کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میڈیا سے گفتگو میں وزیر دفاع نے کہا کہ کے پی ٹی میں لوٹ مار کا جتنا بازار گرم ہے اس کا مقابلہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) بھی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کے پی ٹی کو ہزاروں ارب روپے کی قومی آمدن سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جتنا ریونیو اور آمدن کے پی ٹی سے مل سکتا ہے اتنا کام نہیں ہو رہا۔ خواجہ محمد آصف نے مزید کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں لوٹ مار کے سارے راستے بند کئے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سے روانڈا کے وزیرخارجہ اولیور جے پی ندوہنگیری (Olivier J.P Nduhungirehe) نے اسلام آباد میں ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ وزیر دفاع نے معزز مہمان کا استقبال کیا اور کہا کہ پاکستان روانڈا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے فریم ورک کے اندر روانڈا کے ساتھ تعاون کو مزید فروغ دیتا رہے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان اور روانڈا نے عالمی امن کے لیے یکساں عزم کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کے امن مشن میں سب سے زیادہ فوجی تعاون کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔ معزز مہمان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ہونے کے ساتھ ساتھ افریقی براعظم میں تنازعات کا حل تلاش کرنے میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ دونوں فریقین نے تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم اور دفاع جیسے کئی شعبوں میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ کویت کے سفیر ناصر عبدالرحمن جاسر المطیری نے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ خواجہ محمد آصف نے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان اور کویت نے باہمی طور پر فائدہ مند شراکت داری قائم کی ہے اور تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے قابل ذکر امکانات موجود ہیں۔ بات چیت میں دفاعی تعاون اور علاقائی استحکام پر زور دیتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے پر توجہ دی گئی۔ ملاقات کا اختتام دونوں رہنماؤں کے مابین باہمی تعاون کے شعبوں پر مزید بات چیت کرنے پر اتفاق کے ساتھ ہوا۔