نوجوان کی محبت میں آنیوالی امریکی خاتون نے واپس جانے کیلئے شرط بتا دی
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
نوجوان کی محبت میں آنیوالی امریکی خاتون نے واپس جانے کیلئے شرط بتا دی WhatsAppFacebookTwitter 0 31 January, 2025 سب نیوز
کراچی:نوجوان کی محبت میں کراچی آنے والی امریکی خاتون نے واپس جانے کے لیے اپنی شرط بتادی۔
امریکی خاتون اونیجا اینڈریو رابنس نے کراچی میں سماجی کارکن رمضان چھیپا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اپنے شوہر کو تلاش کر رہی ہوں، اپنے شوہر کے ساتھ دبئی چلی جاؤں گی۔
امریکی خاتون نے مطالبہ کیا کہ مجھے پیسے دیے جائیں اور حکومت مجھے ایک لاکھ دے۔
دوسری جانب شاہراہ فیصل نرسری کےقریب ایمبولینس کوامریکی خاتون نے رکوالیا اور وہ ایمولنس سےاترکر رکشے میں سوار ہوگئیں۔ خاتون نے کہا کہ مجھے تھانے نہیں جانا جس کے بعد وہ شاہراہ فیصل نرسری پرسڑک کنارے بیٹھ گئیں۔
رمضان چھیپا کا کہنا ہے کہ خاتون کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے،نوجوان لڑکے سے کہوں گا وہ آئے اور مسئلہ حل کیا جائے۔
اس سے قبل امریکی خاتون اونیجا اینڈریو رابنس کو واپس بھیجنے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد اب وہ فلاحی ادارے میں موجود ہے۔
رمضان چھیپا کا کہنا ہے کہ امریکی خاتون ٹیپو سلطان تھانے میں تھیں، ان کی طبیعت آرام نہ کرنے کے باعث خراب ہے، خاتون کے رہنے کا انتظام کیا ہے، خاتون میری بہن ہیں، جب تک چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ خاتون کا ایک بیٹا بھی منظرِ عام پر آیا ہے جس نے والدہ کو ذہنی مریضہ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ خاتون 19 سالہ نوجوان سے شادی کی خواہش لیے گزشتہ برس 11 اکتوبر سے کراچی میں موجود ہیں اور امریکا واپس جانے سے انکار کر رہی ہیں۔
امریکی خاتون کا کہنا ہے کہ میری شادی آن لائن ہو چکی ہے، پیسوں کے لیے شادی نہیں کی، میرے پاس پیسہ ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: امریکی خاتون نے واپس جانے
پڑھیں:
محبت کے چند ذرائع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آئیے دیکھتے ہیں کہ کن کاموں سے محبتوں کو ایک دوسرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
عزّت و آبرو: انسان کے نزدیک عزت و آبرو ہر چیز سے بڑھ کر قیمتی ہوتی ہے۔ جہاں یہ منع کیا گیا ہے کہ ایک بھائی کی عزت و آبرو سے نہ کھیلا جائے وہیں اس بات کی بھی تاکید کر دی گئی ہے کہ اگر ایک مسلمان کو برا بھلا کہا جا رہا ہو تو وہ اس کی عزت کا تحفظ کرے اور اس طرح تحفظ کرے جیسے اپنی عزّت کا کرتا ہے۔ سیدنا ابودرداءؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسولؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی بے عزّتی یعنی اس کی غیبت کرنے سے روکے اور اس کا دفاع کرے تو اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بچائے یا اس سے دوزخ کی آگ کو دُور کردے۔ پھر نبیؐ نے سورہ روم کی آیت پڑھی کہ مومنین کی مدد کرنا ہم پر واجب ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
رسولؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دُور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
دُکھ درد میں شرکت: اپنے بھائی کی مدد، حاجت روائی اور حسن سلوک کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ایک کا دکھ درد دوسرا بھی اسی طرح محسوس کرے۔ ایک شخص جو تکلیف محسوس کرے، اس کا مسلمان بھائی بھی اسی طرح اس تکلیف کو محسوس کرے۔ ورنہ کیفیت تو یہ ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسولؐ فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔ (مسلم)
احتساب و نصیحت: ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں کہیں بھائی کے معاملات میں بگاڑ دیکھے، اسے نصیحت کے ذریعے سے صحیح کرنے کی کوشش کرے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ دنیا کا احتساب، آخرت کے احتساب سے بہتر ہے۔ چنانچہ اصلاح کرنے والے کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے آخرت کی پکڑ سے بچا لیا۔ احتساب و نصیحت دل سوزی، اخلاص اور محبت سے ہو تو یہ اُلفت و لگاؤ کو بڑھاتے ہیں اور باہم تعلقات میں استحکام پیدا کرتے ہیں۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دُور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)
ملاقات: آج ہم ایک ایسے مصنوعی دَور سے گزر رہے ہیں جس میں قریب والے بھی دُور ہوگئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہزاروں میل دُور ہوتے ہیں۔ یہ دَور ہے ٹکنالوجی کا، یہ دور ہے سوشل میڈیا کا۔ جس کی وجہ سے گھر میں بیٹھے ہوئے بھی ہم واٹس اَیپ، فیس بک، ٹیوٹر اور نہ جانے کن کن سائٹس پر اپنا وقت صرف کررہے ہوتے ہیں یا اکثر اوقات برباد کررہے ہوتے ہیں اور برابر بیٹھے بھائی بہن، ماں باپ، بیوی بچوں سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ جب گھر میں ہماری یہ کیفیت ہو تو باہر کے لوگوں سے ملنا ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔
ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے سیدنا عثمانؓ بن عفان، عبدالرحمٰنؓ بن عوف، سعدؓ بن ابی وقاص، زبیرؓ بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے 70 ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تُو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
ایک صاحب نے سیدنا معاذ بن جبلؓ سے کہا کہ ’’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اس شخص کو رسولؐ کی بشارت سنائی کہ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے، جو میرے لیے باہم مل کر بیٹھتے ہیں، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے کو جاتے ہیں، اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ملاقات سے نہ صرف تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا اجر بھی بڑا عظیم ہے۔ آئیے عہد کریں کہ محبتوں کو فروغ دینے اور اس کے صلے میں اللہ کی محبت اپنے لیے واجب کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے سے ملاقات کو اپنا شعار بنائیں گے۔