مقبوضہ کشمیر میں معصوم اور نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم جاری
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر میں معصوم اور نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم جاری ہیں، بھارتی فوج نے 2024 کے دوران مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور ماورائے عدالت قتل عام مسلسل جاری رکھا۔
رپورٹس کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں بےشمار بے گناہ کشمیری شہید، اغوا، لاپتہ اور غیر قانونی طور گرفتار کیے گئے، 2024 میں قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں 101 کشمیری شہید ہوئے جن میں تین کم عمر لڑکے بھی شامل تھے۔
50 افراد کو جعلی مقابلوں یا دوران حراست شہید کیا گیا، قابض افواج نے متعدد رہائشی مکانات اور دیگر عمارتیں تباہ کیں، 2024 میں مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال سے 67 افراد زخمی ہوئے۔
رپورٹس کے مطابق گھروں پر چھاپوں اور کریک ڈاؤن کے دوران 3,492 افراد گرفتار، جن میں حریت رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، طلباء، وکلاء اور خواتین شامل ہیں، حریت رہنما مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، فردوس احمد شاہ، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم اور دیگر گرفتار افراد میں شامل ہیں، کئی افراد کو کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیوں کے روک تھام ایکٹ (UAPA) کے تحت قید کیا گیا۔
اس میں کہا گیا کہ 5000 سے زائد سیاسی قیدی، جن میں مزاحمتی رہنما مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، شامل ہیں، دہلی کی تہاڑ جیل میں جھوٹے الزامات میں قید ہیں، جموں و کشمیر میں مذہبی آزادی پر قدغن، عبادات اور تہواروں پر نماز ادا کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔
2024 میں جمعۃ الوداع، شب قدر، عید الفطر، عید الاضحی اور دیگر مواقعوں پر سری نگر کی جامع مسجد اور عید گاہ میں نماز کی اجازت نہ دی گئی، دسمبر 2024 میں 6 کشمیری جعلی مقابلوں میں شہید، 66 افراد گرفتار ہیں، 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد سے 955 کشمیری شہید کیے گئے۔
گذشتہ 36 سالوں میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں 96,388 کشمیری شہید ہوچکے ہیں، بھارتی حکومت کا کشمیریوں پر اقتصادی ظلم، 2024 میں 183 جائیدادیں ضبط، جن میں زرعی زمین، گھر، دکانیں اور دفاتر شامل ہیں، بھارتی قابض انتظامیہ نے کم از کم 51 مسلم سرکاری ملازمین کو سیاسی خیالات کی بنیاد پر نوکریوں سے برطرف کیا۔
جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 32 فیصد ہوگئی جس سے شہری علاقوں میں 15-29 سال کے نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہے، خواتین میں بے روزگاری 48.
رپورٹس کے مطابق بھارتی تحقیقاتی ایجنسیوں (NIA اور SIA) کی چھاپے مار کارروائیاں بھی جاری ہیں، 2024 کے دوران مودی کی جانب سے تعینات کردہ لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کی کشمیر پر مکمل گرفت اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ مکمل بے اختیار ثابت ہوئے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کشمیری شہید شامل ہیں
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔