ہرگزرتے لمحے،گھنٹے، ہفتے، مہینے اور سال کے ساتھ دنیا تبدیل ہو رہی ہے، یہاں روزانہ کی بنیادوں پر نت نئے طور طریقے جنم لے رہے ہیں، پرانی طرزِ زندگی کو فرسودہ گردانا جا رہا ہے اور انسان مداری کی ڈْگڈگی پر بِنا کچھ سوچے سمجھے ناچ دیکھا رہا ہے۔ موجودہ دور میں زندگی کی رفتار کو پَر لگ گئے ہیں، جو افراد اس تیز بھاگتی زیست کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں دنیا صرف اْنھیں قبول کر رہی ہے۔ زندگی کی اس بے ہنگم دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں اور نجی وجوہات کے باعث حصہ نہ لینے والوں پر قدیم مکتبِ فکر کا ٹھپہ لگا کر مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس دنیا میں جدیدیت کا میڈل کسی انسان کو مفت میں نہیں پہنایا جاتا بلکہ خواہش مند اْمیدواروں کو اپنی پہچان کھو کر یہاں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس حقیقت سے بالکل انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی بلکہ وقت اور حالات کے ساتھ اس کو اپنی ساخت بدلتی رہنی پڑتی ہے۔ یہ لازمی ہے کہ جب دنیا نئے رنگ لیتی ہے تب یہاں موجود انسانی زندگیوں کو بھی نیا لبادہ اوڑھنا پڑتا ہے۔ ہر عقل و شعور رکھنے والے انسان میں بہتر سے بہترین تک سفرکرنے کی آرزو ہوتی ہے، اس معاملے میں سبھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
زمانۂ حال کو پسند کرنے والے لوگ پرانی روایات اور طور طریقوں کو اپنانے میں عار محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ ماضی میں جی کر خود کو ضایع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے، اْن کے مطابق جب ایک زندگی میں کئی مختلف زندگیوں کو جیا جاسکتا ہے تو پھر سمندر تک رسائی ہوتے ہوئے پانی کی ایک بوند پر اکتفا کیوں کرنا۔
دورکے ڈھول ہمیشہ سہانے لگتے ہیں، اصلیت وہ ہوتی ہے جو قریب جاکر دیکھنے کو ملتی ہے، ہر دلکش نظر آنی والی زندگی پرْسکون نہیں ہوتی ہے، خود کو فریب دینا شاید تھوڑے عرصے کے لیے خوشی فراہم کرسکتا ہے مگر اس کے دیرپا نتائج نقصان دِہ ہی ہوتے ہیں، اگر زندگی میں سکون، ٹھہراؤ اور ترنگ نہ ہوتو انسان ایک زندگی جیئے یا دس اْسے لطف کسی صورت بھی محسوس نہیں ہوتا ہے، محض مصنوعی خوشی کا ایک خول ہوتا ہے جو دنیا کو بیوقوف بنانے اْس نے چڑھا رکھا ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں سب کچھ سطحی ہے،گہرائی اور یکسوئی نادر ہی نظر آتی ہے، ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکتاہٹ اور بے صبری نے کمال مہارت کے ساتھ تحمل اور صبرکی جگہ لے لی ہے۔ معاشرے میں مجموعی طور پر اضطراب اور عدم اطمینان بڑھتا جا رہا ہے اور رہی سہی کسر انسانوں میں نقل بازی کے بڑھتے رجحان نے پوری کردی ہے۔ موجودہ دنیا کے باسی اپنے من کی کرنے کے بجائے عموماً وہ کرنے میں مگن دکھائی دے رہے ہیں جو دوسرے اْن کو کرتا دیکھنا چاہتے ہیں، خود کو خوش کرنا زمانۂ حال کے زیادہ تر لوگ بھول بیٹھے ہیں کیونکہ زمانے کو خوش کرنا اْن کے لیے اہم ہوچکا ہے۔
انسان کی ترجیحات میں رد و بدل کا خوفناک عمل جاری ہے جس کا خمیازہ کسی ایک فرد کو نہیں آنے والی تمام نسلوں کو بھگتنا پڑے گا، جب کوئی چیز خرابی کے راستے پر چل پڑے تو اْس کا بہتری کی جانب پلٹ آنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ عصرِ حاضر میں اس دھرتی پر زندگی کو عمدہ سے عمدہ ترین بنانے کے تمام لوازمات موجود ہیں مگر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان کی طبعیت میں چین اور سکون کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ کامیابی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی اطمینان کسی کو حاصل نہیں ہو رہا ہے، بس وقتی خوشی ہوتی ہے جو مدت پوری کر کے غائب ہوجاتی ہے۔
کامیابی حاصل کرنا اور شہرت پانا دو بالکل مختلف باتیں ہیں، آج کے نوجوانوں کو ان دونوں میں سے کسی ایک چیزکو منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تو اْن میں سے زیادہ تر ایک پل ضایع کیے بغیر دوسرے والے پر اپنا ہاتھ رکھیں گے۔ ہمارے معاشرے کے عموماً نوجوانوں کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ محنت سے دور بھاگتے ہیں اورکامیابی محنت کیے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے جہاں تک بات مشہور ہونے کی ہے آج کل کچھ بھی اوٹ پٹانگ حرکت کرنے سے انسان با آسانی شہرت حاصل کر لیتا ہے۔ اس بات سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے کہ میسر آئی شہرت مثبت ہے یا منفی، بس اگر کچھ اہم مانا جاتا ہے تو لوگوں کی نظروں میں آنا، چاہے وہ مختصر وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
میں نے بچپن میں کہیں پڑھا تھا ہر انسان اپنی کہانی کا ہیرو ہوتا ہے جب کہ آج کی نوجوان نسل اپنے بارے میں ایسا دل سے تسلیم کرتی ہے۔ تعلیم بندے کو انسان بناتی ہے اور انسان کا روپ دھارتے ہی شعورکے دروازے اْس کے لیے کْھل جاتے ہیں درحقیقت شعور حاصل کیے بغیر انسان کو کامیابی کی معراج مل ہی نہیں سکتی ہے۔ تعلیم زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے اور انسان کی شخصیت کو تشکیل دے کر اْس کو وقتاً فوقتاً نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل موجودہ دور کی نوجوان نسل صرف پڑھ رہی ہے تعلیم حاصل نہیں کر رہی ہے اور زندگی گزارنے کو زندگی جینا سمجھ کر جود کو مسلسل بیوقوف بنا رہی ہے۔
شعورکس چڑیا کا نام ہے اس کا دورِ جدید میں کم ہی لوگوں کو اندازہ ہے باقی دیگر افرادِ معاشرہ اللہ تعالیٰ کے انسانوں کے لیے مقررکردہ حدود کی خلاف ورزی کو باشعور ہونا سمجھ رہے ہیں۔ معاشرے کے معاشرے جدیدیت کے نام پر تباہ و برباد ہو رہے ہیں جس کا سب سے زیادہ اثر وہاں کے نوجوان پر پڑرہا ہے۔ زمانۂ حال میں عروج سے زوال اور زوال سے پستی کا سفر بہت تیزی سے طے ہو رہا ہے، یہ لمحۂ فکریہ نہیں تو اورکیا ہے؟
آج کے عموماً نوجوان تعلیم کی جانب مائل نہیں ہیں، مشہور ہونے کا نشہ سب پر سوار ہے، تعلیم تو تعلیم ، تربیت کا فقدان بھی ہر جانب دیکھنے کو مل رہا ہے، بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان لحاظ تو قصہ ماضی بن کر رہ گیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طاغوتی قوتیں جدیدیت کے نام پر بدلحاظی کا پرچارکر رہی ہیں، مسلمانوں کو اسلام سے منافی کاموں پر اْکسایا جارہا ہے۔ مغرب کا نوجوان پہلے ہی تعلیم سے دور تھا اب مشرقی معاشرے بھی اْن کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں۔ ایک مشہور کہاوت ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ دیکھا جائے تو آج کل ہم سب ہی کوے بنے ہوئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رہے ہیں نہیں ہو ہوتی ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہے اور کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ملک بھر میں مختلف تقریبات میں کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام کو اچھے خواب ہی دکھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شہر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک کو دلدل سے نکالا جو اب اپنی اڑان بھر رہا ہے اور ہر طرف پاکستان کے چرچے ہو رہے ہیں۔
معرکہ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور مسلح افواج نے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کا دفاع کیا اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں بیٹھے سامعین کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ سندھ کا مقابلہ کسی شہر یا صوبے سے نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اور یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ پورے ملک کو ایک ہو کر دنیا سے مقابلہ کرنا چاہیے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہو رہا ہو یہ پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔
غربت کے خاتمے کے عالمی دن پر لاہور میں ایک تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی اہم وجوہات ملک میں کرپشن اور مہنگائی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ بیڈ گورننس، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، کم وسائل، آمدن میں کمی اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوگا اور وسائل کم ہوں گے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی 41.7 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کے دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی جو باتیں سرکاری طور پر ہو رہی ہیں، اس کے باوجود ملک کی تقریباً آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔احسن اقبال کے پاکستان سے متعلق اڑان کے بیان اور بلاول بھٹو کے سندھ کے دنیا سے مقابلے کے برعکس حقائق یکسر مختلف ہیں۔ جب ملک کی 41.7 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو ایسے حالات میں حکمرانوں کے بیانات خواب ہی نظر آتے ہیں جن کی کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ جب بڑوں کے بیانات ایسے ہوں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی کہاں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ہی شہر کے لوگوں کو خواب دکھا دیا کہ کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔
کراچی پاکستان کا دل ہے اور ایک ایسا شہر جو معاشی سرگرمیوں، ثقافتی تنوع اور انسانی استقامت کی علامت ہو سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے وژن کے مطابق مستقبل میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔ انھوں نے یہ بات دنیا کے جدید شہر دبئی ایشیا پیسفک سیٹیز سمٹ سے خطاب میں کہی۔ میئر کراچی نے دبئی میں مزید کہا کہ کراچی میں منصوبے صرف سڑکوں، عمارتوں یا بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، مساوات اور انصاف کی بحالی کا سفر ہے۔
جنرل پرویز مشرف ملک میں تقریباً نو سال اقتدار میں رہے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور سندھ میں 17 سالوں سے مسلسل برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور دو بار اقتدار میں رہنے والی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کو ترجیح دی اور نہ ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کراچی کو اہمیت و ترجیح نہیں دے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کا حق ادا کیا تھا اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کو اتنے فنڈز دیے تھے کہ انھوں نے چار سالوں میں ترقی دلا کر دنیا کے 13 میگا سیٹیز میں کراچی کو شامل کرا دیا تھا جو کراچی کی ترقی کا دور تھا۔
مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور میئر کراچی کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے پہلے ناظم ہیں جو تقریباً دو سال سے اقتدار میں ہیں اور دبئی کی ایک تقریب میں یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ ہم کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔ میئر کراچی حکومت سے اپنے لیے آئینی اختیارات لے سکے اور کراچی کی ضرورت کے لیے ضروری فنڈ حاصل کر سکے۔
کراچی کی حالت ڈھکی چھپی نہیں جس کو 2008 میں جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں نے اہمیت و ترجیح دی اور نہ ہی وفاق سے تین حکومتوں میں وہ فنڈز ملے جو ملنے ہی نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ فنڈز کراچی کا حق تھا جس کے متعلق ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ یونس ڈھاگا تفصیلات بتا چکے ہیں۔
سندھ حکومت کی ترجیح کراچی رہا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کمائی کا گڑھ اور سونے کی چڑیا ہے جو اپنی آمدنی سے ملک اور صوبے کو پال رہا ہے۔
صدر زرداری اور مراد علی شاہ کا تعلق کراچی سے نہیں مگر کراچی بلاول بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کی دونوں بیٹیوں کا پیدائشی شہر ہے اور ان پر کراچی کا حق ہے کہ کراچی والوں کو صرف خواب نہ دکھائیں۔ بلاول بھٹو دنیا کو چھوڑیں اور سندھ کا موازنہ پنجاب سے اور کراچی کا موازنہ لاہور سے کر لیں تو انھیں حقائق کا اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کی ترقی پاکستان سے نہیں صوبہ پنجاب سے ہے۔ اندرون سندھ کے شہروں کی جو ابتر حالت ہے انھیں دیکھ کر کوئی نہیں مانے گا کہ سندھ کا مقابلہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اڑان بھر رہا ہوتا تو غربت میں کمی آتی اور سندھ حکومت کراچی کی سڑکیں ہی بنوا دے تو سڑکوں کی ترقی ہی نظر آ جائے گی۔