جسٹس (ر)فقیر محمد کھوکھر کا سانحہ ارتحال
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھربروز بدھ شام سوا چار بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم جسٹس فقیر محمد اعلیٰ پائے کے قانون دان ، نہایت صاحب علم اور آئین و قانون کی تشریح میں بے مثال مہارت رکھتے تھے۔ راقم الحروف کو ان سے تقریباًساٹھ سال قبل ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ وہ ان دنوں لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے اور کچھ عرصہ بعد وہ وفاقی حکومت کے قائم مقام وکیل کی حیثیت سے بھی تعینات رہے۔
جسٹس فقیر محمد کھوکھر لاہو ر میںکافی عرصہ ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی رہے۔ ہائی کورٹ کے جج بننے کیلئے بڑی صلاحیت کے مالک تھے لیکن دو تین بار انہیں اعلیٰ سطح پر نظر انداز کر دیا گیا۔ جب محترم معراج خالد مرحوم نگران وزیر اعظم بنے تو وفاقی وزارت قانون نے انہیں لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا۔
جب فقیر محمد کھوکھر وکالت کرتے تھے تو انہی دنوں میرے پاس پاکستان ٹائمز میں بھی کئی بار تشریف لائے۔ ان کے ساتھ اکثر کھانے پر بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ راقم الحروف جب بزم اقبال کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا تو جسٹس فقیر محمد کھوکھر اکثر بزم اقبال کے دفتر میں تشریف لاتے اور کئی قانونی امور پر ان سے مشاورت ہوتی رہتی تھی۔ راقم الحروف کی جسٹس کھوکھر صاحب سے کافی بے تکلفی تھی اور وہ اکثر میرے ہاں کھانے یا چائے پینے کیلئے تشریف لاکر میری عزت افزائی فرماتے تھے۔ ان سے اکثر علمی و ادبی ، تاریخی و قانون امور پر بات چیت ہوتی رہتی تھی اور اکثر معاملات میں ان کی رائے بہت درست ثابت ہوتی تھی۔
جسٹس کھوکھر اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید بٹر، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے زمانے میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جسٹس افتخار چودھری صاحب نے ان کی سبکدوشی پر فرمایا تھا کہ سپریم کورٹ ایک بہت لائق اور اعلیٰ پائے کے قانون دان سے محروم ہوگئی۔
جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس جاوید بٹرکی بہت تعریف کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بٹر صاحب بہت درویش صفت شخصیت کے مالک ہیں اور میں نے ان سے کئی بار گذارش کی ہے کہ میرے انتقال پر میرا جنازہ وہ پڑھائیں۔
جسٹس کھوکھر کئی سرکاری اداروں کے مشیر بھی رہے۔ انہیں وزارت قانون کا سیکریٹری ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ تقریبا ً ایک ہفتہ قبل وفاقی حکومت نے انہیں لاپتہ افراد کے سابق چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی جگہ کمشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا لیکن ایک ہفتہ سے زائد کام کرنے کی مہلت نہ ملی۔
اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ مرحوم بہت دیانتدار ، صاحب علم شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو اس عظیم سانحہ کو صبر و استقامت سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: فقیر محمد کھوکھر
پڑھیں:
وہ مشہور اداکارہ کون ہے جسے پہلی ہی فلم سے نکال کر رانی مکھرجی کو کاسٹ کرلیا گیا
بالی ووڈ کے نواب خاندان کی بیٹی اداکارہ سوہا علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں ان کی پہلی ہی فلم سے نکال دیا گیا تھا۔
سیف علی خان کی بہن سوہا علی خان نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح انہیں اپنی پہلی فلم پہلی سے نکال دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گئیں۔
ایک انٹرویو میں سوہا نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بینک کی کارپوریٹ ملازمت چھوڑ کر فلم میں کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا، حالانکہ اس وقت ان کی تنخواہ اچھی تھی اور وہ لندن میں بسنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔
اداکارہ نے بتایا کہ ہدایتکار امول پالیکر نے انہیں فلم ’پہیلی‘ کے لیے کاسٹ کیا تھا، لیکن جب شاہ رخ خان نے فلم میں مرکزی کردار کے طور پر شمولیت اختیار کی تو سوہا کو نکال دیا گیا اور ان کی جگہ رانی مکھرجی کو لے لیا گیا۔
سوہا علی خان کے مطابق انہیں جب اچانک بتایا گیا کہ اب وہ فلم کا حصہ نہیں رہیں گی، تو وہ حیران اور پریشان ہو گئیں کیونکہ ان کے پاس کرایہ ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں تھے اور وہ اپنی جاب چھوڑ چکی تھیں۔
یاد رہے کہ اس کے بعد اداکارہ سوہا علی خان نے بنگالی فلم ’ایتی شری کانتا‘ میں کام کیا جو 2004 میں ریلیز ہوئی، اور اسی سال انہوں نے فلم ’دل مانگے مور‘ سے بالی ووڈ میں قدم رکھا۔ یہ فلم ناکام رہی لیکن پھر دوسری فلم ’رنگ دے بسنتی‘ سے انہیں اصل شہرت حاصل ہوئی جس کے بعد انہوں نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔