Nai Baat:
2025-11-04@05:28:00 GMT

جسٹس (ر)فقیر محمد کھوکھر کا سانحہ ارتحال

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

جسٹس (ر)فقیر محمد کھوکھر کا سانحہ ارتحال

جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھربروز بدھ شام سوا چار بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم جسٹس فقیر محمد اعلیٰ پائے کے قانون دان ، نہایت صاحب علم اور آئین و قانون کی تشریح میں بے مثال مہارت رکھتے تھے۔ راقم الحروف کو ان سے تقریباًساٹھ سال قبل ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ وہ ان دنوں لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے اور کچھ عرصہ بعد وہ وفاقی حکومت کے قائم مقام وکیل کی حیثیت سے بھی تعینات رہے۔

جسٹس فقیر محمد کھوکھر لاہو ر میںکافی عرصہ ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی رہے۔ ہائی کورٹ کے جج بننے کیلئے بڑی صلاحیت کے مالک تھے لیکن دو تین بار انہیں اعلیٰ سطح پر نظر انداز کر دیا گیا۔ جب محترم معراج خالد مرحوم نگران وزیر اعظم بنے تو وفاقی وزارت قانون نے انہیں لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا۔
جب فقیر محمد کھوکھر وکالت کرتے تھے تو انہی دنوں میرے پاس پاکستان ٹائمز میں بھی کئی بار تشریف لائے۔ ان کے ساتھ اکثر کھانے پر بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ راقم الحروف جب بزم اقبال کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا تو جسٹس فقیر محمد کھوکھر اکثر بزم اقبال کے دفتر میں تشریف لاتے اور کئی قانونی امور پر ان سے مشاورت ہوتی رہتی تھی۔ راقم الحروف کی جسٹس کھوکھر صاحب سے کافی بے تکلفی تھی اور وہ اکثر میرے ہاں کھانے یا چائے پینے کیلئے تشریف لاکر میری عزت افزائی فرماتے تھے۔ ان سے اکثر علمی و ادبی ، تاریخی و قانون امور پر بات چیت ہوتی رہتی تھی اور اکثر معاملات میں ان کی رائے بہت درست ثابت ہوتی تھی۔

جسٹس کھوکھر اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید بٹر، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے زمانے میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جسٹس افتخار چودھری صاحب نے ان کی سبکدوشی پر فرمایا تھا کہ سپریم کورٹ ایک بہت لائق اور اعلیٰ پائے کے قانون دان سے محروم ہوگئی۔
جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس جاوید بٹرکی بہت تعریف کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بٹر صاحب بہت درویش صفت شخصیت کے مالک ہیں اور میں نے ان سے کئی بار گذارش کی ہے کہ میرے انتقال پر میرا جنازہ وہ پڑھائیں۔

جسٹس کھوکھر کئی سرکاری اداروں کے مشیر بھی رہے۔ انہیں وزارت قانون کا سیکریٹری ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ تقریبا ً ایک ہفتہ قبل وفاقی حکومت نے انہیں لاپتہ افراد کے سابق چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی جگہ کمشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا لیکن ایک ہفتہ سے زائد کام کرنے کی مہلت نہ ملی۔
اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ مرحوم بہت دیانتدار ، صاحب علم شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو اس عظیم سانحہ کو صبر و استقامت سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: فقیر محمد کھوکھر

پڑھیں:

18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے: رانا ثنا

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔

جیو نیوز کے مارننگ شو جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا آئین کسی بھی ملک کی مقدس دستاویز ہوتی ہے لیکن حرف آخر نہیں ہوتی، آئین میں بہتری کے لئے ترامیم کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں 26 ترامیم ہو چکی ہیں، پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اگر متفق ہو تو آئین میں ترمیم ہوتی ہے، 26 ویں ترمیم کے بعد جن چیزوں پر بات ہو رہی ہے ہوتی رہے گی۔

27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ

 سینیٹر رانا ثنا اللہ نے کہا ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم صبح 27 ویں ترمیم لا رہے ہیں، مثبت بات چیت اور بحث جمہوریت کا خاصا ہے اور وہ ہوتا رہنا چاہیے، مختلف چیزیں ہیں جن پر پارلیمینٹرین اور مختلف جماعتوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے، بنیادی مسائل پر بات بنتے بنتے بنتی ہے، فوری طور پر یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا 18 ویں ترمیم سے مسلم لیگ ن کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، 18 ویں ترمیم صوبے اور فیڈریشن کے درمیان وسائل کی تقسیم سے متعلق ہے، 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں ان میں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟

وزیر اعظم کے مشیر کا کہنا تھا 18 ویں ترمیم وسائل کی تقسیم پر طویل عرصے بات چیت ہوتی رہی ہے، اُس وقت کے حساب سے 18 ویں ترمیم میں وسائل کی تقسیم کو بیلنس طے کیا گیا، اب اگر عملی طور پر فرق آیا ہے تو اس پر بات چیت اور غور و فکر کرنے میں تو کوئی عار نہیں ہے، اتفاق رائے ہو جائے گا تو دو تہائی اکثریت سے ترمیم ہو جائے گی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے: رانا ثنا
  • ڈکی بھائی کیس میں پیش رفت، عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے
  • ڈکی بھائی جوا ایپ کیس؛ عدالت نے فریقین سے جواب طلب کرلیا
  • لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا نئے انوائرمنٹ ایکٹ لانے کا مطالبہ
  • زمان پارک کیس میں اہم پیش رفت، عدالت نے گواہوں کو طلب کر لیا
  • 9 مئی؛ زمان پارک میں پولیس کی گاڑیاں جلانے کے مقدمے میں گواہ طلب
  • ’بابر اعظم کی نصف سنچری کے ساتھ فارم میں واپسی، شکرگزاری کا پیغام وائرل‘
  • خیرپور:فنکشنل لیگ کے تحت سانحہ درزا شریف کی 10ویں برسی کا انعقاد
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • پاکستانی کسانوں کا جرمن کمپنیوں کیخلاف مقدمے کا اعلان