میّت نہلانے والی خاتون نے خالہ جان کی ناک میں پہنی ہوئی چھوٹی سی طلائی لونگ اتارنے کی اجازت چاہی۔اجازت ملنے پر انہوں نے خالہ جان کے بے جان جسم سے بہت احتیاط کے ساتھ طلائی لونگ اتار کر میرے حوالے کی۔یہ لونگ خالہ جان کے ورثا کی امانت تھی ۔لونگ ان کے حوالے کرنے کے لئے بہت احتیاط کے ساتھ پرس میں رکھ لی۔ وہ ہسپتال میں داخل تھیں اس لئے انہوں نے کوئی اور زیور نہیں پہنا ہوا تھا۔ گردے ناکارہ ہونے کے باعث وہ طویل عرصے سے ڈائیلاسس کرا رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی زندگی کی ساعتیں پوری ہو چکی تھیں۔ صبح ہسپتال میں ہی انہوں نے داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انہیں گھر لے جانے کی بجائے میت خانے میں غسل دے کر جنازے میں دوسرے شہروں سے آنے والے عزیزوں کے انتظار میں سردخانے میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میت نہلانے والی خاتون اور بہن کے ساتھ مل کر خالہ جان کو غسل دیا۔ انہیں کفن پہنا کر سفر آخرت کیلئے تیار کیا۔ میت خانے میں خواتین کی میتوں کو وہاں متعین خاتون میت کے ساتھ آنے والی خواتین کے ساتھ مل کر میت کو غسل دیتی ہیں جس کا معاوضہ مقرر ہوتا ہے۔ جنازے کا وقت عصر کی نماز کے بعد تھا۔ خالہ جان کی میت کو دکھے دل کے ساتھ سرد خانے کے انچارج کے حوالے کیا۔ اپنے عزیزوں کو سفر آخرت کے لئے غسل دے کر تیار کرنا بہت مشکل اورصبر آزما کام ہے۔ ہمیشہ کی جدائی کا احساس بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ زندگی بہت ہی مختصر ہے۔کوئی دنیا میں آنے سے پہلے ‘کوئی اچانک طویل علالت کے بعد اور کوئی کسی حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت اٹل حقیقت ہے جس کا سامنا ہر ذی روح کو کرنا ہے۔ دنیا عارضی اور آخرت ہمیشہ کی ہے۔موت زندگی کا اختتام نہیں بلکہ یوم حشر تک ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔بڑے بڑے محلات‘ کوٹھیوں اور چھوٹے چھوٹے کچے مکانوں میں رہنے والوں نے دنیا کی عارضی زندگی گزار کر یوم حشر تک مٹی تلے قبر میں ہی رہنا ہے۔اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے قبر میں جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور نافرمانوں کو جہنم دکھائی جاتی ہے ۔
کل نفس ذائقۃ الموت،ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے(القرآن)
خالہ جان گائنی کی ماہر اور معروف ڈاکٹر تھیں۔ دکھ درد میں ہر ایک کے کام آتیں‘ضرورت مندوں سے انہوں نے کبھی فیس نہیں لی تھی نہ ہی بھاری فیس لینے کے لئے نارمل زچگی کی بجائے کبھی سی سیکشن( آپریشن) کیا تھا۔آج کل یہ شکایات عام ہیں کہ بعض نجی کلینکوں میں ان زچہ خواتین کے بھی سی سیکشن کر دئیے جاتے ہیںجن کی زچگی نارمل ہو سکتی ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے کے لئے اس بلاضرورت آپریشن کی بھاری فیس ادا کرنا انتہائی مشکل ہو تا ہے لیکن زچہ اور بچے کی زندگی کے لئے ڈاکٹر کی بھاری فیس ادا کرنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔بعض لالچی اور مفاد پرست ڈاکٹربھاری فیس وصول کرنے کے لئے حاملہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتی ہیں کہ سی سیکشن سے بچے آسانی کے ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں۔
خالہ جان سے جدائی اورزندگی کی بے ثباتی کا سوچ سوچ کر میت خانے سے گھر تک کا سفر بہت مشکل تھا۔جانے والے چلے جاتے ہیں اور معمولات زندگی جاری رہتے ہیں۔سڑک پر ٹریفک اور اطراف میںزندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور ذاتی گاڑیوں میں لوگ اپنے دفاترکے لئے جا رہے تھے۔ سکولوں کی گاڑیاں بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس جا رہی تھیں۔ بس سٹاپوں پر حضرات اور خواتین دفاتر جانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ سبزی اور پھل فروش ریڑھیوں پر سبزیاں اور پھل بیچ رہے تھے۔ صبح سویرے کاروبار شروع کرنے والے صبح کاروبار شروع کرنے کی برکتیں سمیٹ رہے تھے۔ ہمارے ہاں بازار اور شاپنگ مالزدوپہر بارہ یاایک بجے کھلنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بازار اور شاپنگ مال رات گئے تک کھلے رہتے ہیںجس سے بجلی کا زیاں بھی ہوتا ہے۔ ریلوے لائن کے اطراف رہنے والے خانہ بدوش پیشہ ور گداگر اپنے بچوں اور گداگری کے سازو سامان کے ساتھ سڑکوں اور ٹریفک سگنلز پر آچکے تھے۔ ان کے ٹھیکیدار انہیں مخصوص مقامات پر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ ہر روز وہیں کھڑے ہو کر بھیک مانگتے ہیں۔ رات کو ٹھیکیدار ہر گداگر سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ لوگ سفید پوش ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے گھروں، سڑکوں، سگنلز، بسوں وغیرہ میںمانگنے والے ہٹّے کٹّے پیشہ ور گداگروں کی مددکر تے ہیں جس کے باعث گداگری منافع بخش پیشہ بن چکا ہے۔
اطراف کا جائزہ لینے کے علاوہ خالہ جان کے ساتھ گزرا ہوا زندگی کا ہر لمحہ یاد آ رہا تھا۔مرحومہ میری سب سے چھوٹی خالہ تھیں۔صبح سرکاری ہسپتال میں ملازمت اور دوپہر کو اپنی کلینک کرتی تھیں۔ہسپتال جانے سے پہلے اور شام کو گھر آ کر امور خانہ داری بھی خوب سنبھالتیں ۔اس زمانے میں موبائل فون نہ ہونے کے باعث خواتین تعمیری کاموں میں وقت کا صحیح استعمال کیا کرتی تھیں۔ سلائی کڑھائی کی بھی ماہر تھیں‘ہم چھوٹی بھانجیوں کی پسند کے مطابق انہیں عید کے کپڑے سی کر دیتیں۔ عید کے لئے چوڑیاں، ہار، انگوٹھی اور ٹاپس وغیرہ دلوانے اپنے ساتھ بازار لے جاتیں۔ اس زمانے میں بہت کم دکانوں پر’’ فکس پرائس‘‘ کے بورڈ لگے ہوتے تھے۔خواتین دکانداروں سے قیمتیں کم کرایا کرتی تھیں اور وہ مناسب کمی بھی کر دیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے ہمیں خریداری کرنے کے طریقے سکھائے۔ وہ اپنی آخرت سنوارنے کی بھی بہت فکر کیا کرتی تھیں۔ قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتیں۔ اکثر کہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اسی لئے میں پردہ کرتی ہوں، انسان دنیا سے خالی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے پاس جائے گاصرف اس کے اعمال ہی ساتھ جائیں گے۔ اس لئے دنیا کی کامیابی سے زیادہ آخرت کی کامیابی کی فکر کرنی چاہیے۔ واقعی انسان دنیا سے خالی ہاتھ ہی واپس جاتا ہے۔ صرف اس کے اچھے اور برے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ مکانات، کپڑے، زیورات، آسائش کا سامان، آرائشی اشیا، تعلیمی ڈگریاں، مستقبل کے لئے پس انداز کی ہوئی رقم، جاں نثار کرنے والے والدین، بہن بھائی اور دیگر رشتے داروں میں سے کوئی بھی تو ساتھ نہیں جاتا۔حشر والے دن بھی کوئی کسی کی فکر نہیں کرے گا۔ ہر ایک کو اپنی فکر ہو گی کہ دنیا میں اس نے جو اعمال کئے تھے ان کا آسان حساب لیا جائے۔جن کا نامہ ٔ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ جنت میں جانے والے خوش نصیب ہوں گے۔ سب کو اپنے جنت میں جانے کی خوش خبری سنا رہے ہوں گے۔گھر پہنچ کر خالہ جان کی طلائی لونگ خالو کے حوالے کرتے ہوئے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا کہ انسان واقعی دنیا سے خالی ہاتھ صرف اپنے اعمال ساتھ لے کر جاتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اللہ تعالی کرتی تھیں انہوں نے خالہ جان جاتے ہیں کے ساتھ نے والے دنیا سے کے لئے
پڑھیں:
ڈیفنس میں فلیٹ سے80لاکھ روپے کی ڈکیتی کی واردات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-02-18
کراچی(اسٹاف رپورٹر) ڈیفنس فیز 6 کے راحت کمرشل میں نقب زنی کی ایک بڑی واردات پیش آئی ہے، جہاں نامعلوم ملزمان مبینہ طور پر ایک فلیٹ سے 80 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے زیورات اور غیر ملکی کرنسی لوٹ کر فرار ہوگئے۔پولیس کے مطابق، واردات کا مقدمہ گزری تھانے میں خاتون شہری کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاتون فلیٹ میں اکیلی مقیم تھیں اور واردات کے روز اپنے ایک عزیز کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ جب وہ واپس آئیں تو فلیٹ کے دروازے کے تالے ٹوٹے ہوئے اور سامان بکھرا ہوا پایا۔پولیس ذرائع کے مطابق، ملزمان انتہائی منظم اور تجربہ کار معلوم ہوتے ہیں، جنہوں نے واردات کے دوران فلیٹ کے مخصوص حصوں کو نشانہ بنایا اور صرف زیورات اور غیر ملکی کرنسی اڑائی، جبکہ دیگر اشیاء جوں کی توں چھوڑ دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان کو فلیٹ کی اندرونی ترتیب اور قیمتی سامان کی معلومات پہلے سے حاصل تھیں۔تفتیشی ٹیموں نے عمارت اور اطراف کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی ہے، جب کہ مشتبہ افراد کی نقل و حرکت کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے اور واقعے کی تکنیکی اور فرانزک بنیادوں پر تحقیقات جاری ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ واردات کی نوعیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی منظم نقب زن گروہ کا کام ہو سکتا ہے، جو گزشتہ چند ماہ سے ڈیفنس، کلفٹن اور گزری کے پوش علاقوں میں سرگرم ہے۔ابتدائی تفتیش میں پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ملزمان نے فلیٹ کی ریکی پہلے سے کی ہوئی تھی اور متاثرہ خاتون کے معمولات پر نظر رکھی جا رہی تھی۔پولیس کے مطابق شواہد جمع کیے جارہے ہیں اور جلد ہی اہم پیشرفت متوقع ہے۔