Jasarat News:
2025-11-03@20:19:35 GMT

تحریک انصاف نے کے پی کے کی عوام کیلیے کچھ نہیں کیا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

پشاور(آئی این پی ) قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین سکندر حیات خان شیرپاؤ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف گزشتہ 11برس سے خیبر پختونخوا میں حکومت میں ہے لیکن اس نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا۔وہ ہفتے کے روز قومی وطن پارٹی چارسدہ کے عہدیداروں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس میں شہید حیات محمد خان شیرپاؤ کی 50ویں برسی کی مناسبت سے تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔سکندر شیرپاؤ نے کہا کہ قومی وطن پارٹی 11 فروری کو چارسدہ کے شیرپاؤ گاؤں میں ایک عوامی جلسہ منعقد کرے گی جس میں حیات محمد خان شیرپاؤ کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سکندر شیرپاؤ نے کہا کہ پی ٹی آئی مسلسل تیسری مرتبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہی ہے جو صوبے کی تاریخ میں ایک منفرد مثال ہے لیکن اس کے باوجود وہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں کرپشن اپنے عروج پر ہے اور ناقص طرز حکمرانی کے باعث حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے 70 فیصد علاقوں میں حکومت کی کوئی گرفت نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن، جنوبی اضلاع اور ضم شدہ قبائلی علاقوں میں حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی حکومت نے اپنے ہی سرکاری ملازمین کو غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔سکندر شیرپاؤ نے وفاقی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ وہ مہنگائی کے دورمیں عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔انہوں نے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ ملک میں مہنگائی میں کمی آئی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شیرپاؤ نے نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)

پرانے زمانے میں ایک ملک ہواکرتا تھا اس کا نام اپنی پیداوار کے باعث ’’الوستان‘‘ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے ’’الو‘‘ پیدا ہوتے تھے جو الو ہونے کے ساتھ الو کے فرزند بھی ہوتے تھے لیکن انھوں نے اس کا نام ’’یونان‘‘ رکھا تھا ،اس کی سب سے بڑی فصل یا پیداوار یا پراڈکٹ الو ہوا کرتے تھے جو خواہ مخواہ بات بے بات کے فلسفوں کی چیونٹیاں ، بٹیر اورمرغے لڑایا کرتے تھے ، ان الوؤں کے الوپن کااندازہ اس سے لگائیں کہ ان میں سے جو سب سے بڑا تھا سقراط نام کا۔ اس کے سامنے حکومت نے تین شرطیں رکھیں ،نمبر ایک، وطن چھوڑدو، نمبردو اپنے منہ کا زپ بندکرلو۔ نمبرتین۔ زہرکا پیالہ نوش جان کرو۔

اب اگر کوئی پاکستانی دانادانشور ہوتا، تو پہلی شرط مان کر کسی مرغن چرغن ملک میں جا بیٹھتا اورحکومت کے وظیفے پر گل چھرے اڑاتا ، ہمارے حضرت پروفیسر ڈاکٹر علامہ کی طرح یاالطاف بھائی کی طرح اور یا باباجی ڈیموں والی سرکار کی طرح۔ یا منہ بند کرکے کسی لگژری بنگلے میں محو استراحت ہوجاتا ۔ لیکن الو تھا ، اس لیے زہرکا پیالہ ہی پی گیا۔مستے نمونہ ازخروارے یا ایک چاول سے دیگ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی الو بھی ایسے ہی سن آف اوول ہی ہوں گے ۔

اسی سقراط بقراط کی طرح ایک اورتھا۔’’دمیقراط‘‘ ڈیموکریٹس۔ اس نے خواہ مخواہ ساری عمر لگا کرایک تو ’’ایٹم‘‘ کانظریہ دیا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے یعنی اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اوردوسرا ڈیموکریسی اورمعرب ہو کر اس کے نام کی رعایت سے جمہوریت بنا جس لفظ کی ابتداء ہی ڈیم سے ہوتی ہے اس کے ساتھ صرف فول لگایا جا سکتا ہے ۔اس کے دونوں تحفوں کاحشرنشر ہم دیکھ چکے اس نے جس ذرے کو ایٹم یعنی ناقابل تقسیم کہا تھااسے یاروں نے ایسا تقسیم کردیا کہ اس کے پیٹ سے دو بچے نکالے ایسے دو بچے کہ ایک نے ہیروشیما کو گل وگلزار کردیا اوردوسرے نے ناگاساکی کو باغ وبہار کردیا…اوراس کا دوسرا تحفہ ڈیماکریسی۔

زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا

اس تحفے کا بعد میں لوگوں نے خلاصہ یوں کیا کہ عوام پر…عوام کی حکومت ۔ عوام کے ذریعے ان تین باتوں کو ہرطرح سے آگے پیچھے کیجیے ۔مطلب وہی نکلے گا لیکن اس میں یہ بات چھپائی گئی ہے کہ عوام کی حکومت ، عوام پر عوام کے ذریعے۔ میں اصل جزواعظم عوام نہیں بلکہ حکومت ہے اورجب یہ منحوس نام کہیں آجاتا ہے وہاں چارپائی کی سی حالت ہوجاتی ہے اوریہ فقرہ ہے بھی چارپائی کی طرح ، چارپائی میں آپ’’سر‘‘ اورپیر کسی بھی طرف کیجیے ، سینٹر چارپائی کے بیچ میں آئے گا ۔

اس فقرے میں بھی حکومت چاہے کسی طرف سے ہوکسی بھی شکل وصورت میں ہو۔حکومت حکومت ہوتی ہے اورمحکوم محکوم ہوتے ہیں اس نام ہی میں ساری اہلیت ہے ،کیوں کہ حکومت میں جو بھی لوگ آجاتے ہیں وہ ’’ہم‘‘سے ’’میں‘‘ ہوجاتے ہیں اورسارے فساد کی جڑ یہ ’’میں‘‘ ہے جس کاموجد اوربانی مبانی ’’ابلیس‘‘ تھا اورجب سے اس دنیا میں ’’ہم‘‘ کے مقابل ’’میں‘‘ آیاہے تب سے خرابیاں شروع ہوئی ہیں۔

خیر اب یہاں سے ایک اورسلسلہ شروع ہوتا ہے اس الو ئے یونان دمیقراط کے ایٹم کاجوحشر نشر لوگوں نے کیا وہ اپنی جگہ ۔۔اس دوسرے تحفے جمہوریت کاجو تیاپانچہ کردیاگیا ہے وہ بڑی دلچسپ کہانی ہے ، اس کی ایسی درگت بنائی گئی ہے کہ خود دمیقراط اگر آجائے تو وہ بھی اسے پہچان نہیں پائے گا بلکہ شاید خود یہ جمہوریت بھی اگر آئینے کے سامنے کھڑی ہوجائے توحیران ہوکر پوچھے گی، آپ کون؟

اورپھر ماشاء اللہ دورجدید کے یونان پاکستان میں تو اس کو اتنے گھنگھرو اورگہنے پہنائے گئے کہ چیونٹی سے ہاتھی بن گئی ۔

ایک انگریزی کاناول نگار ہے ایچ جی ویلزنام ہے شاید۔ اس نے بڑے عجیب وغریب ناول لکھے ہیں وہ مشہورناول (نادیدہ آدمی) بھی اس کاہے جس پر ہرزبان میں فلمیں بھی بنی ہیں اوربھی بہت ہیں ان میں ، ایک ناول ایسا بھی ہے جس میں ایک ضبطی سائنس دان اورسرجن ایک الگ جزیرے میں جانوروں پر تجربے کررہا ہے، سرجن کے ذریعے وہ ایک جانور کے اعضاء دوسرے میں پیوند کرتا ہے۔ آخر وہ ایک ایسا جانور بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس میں کئی جانوروں کے اعضاء پیوند کیے ہیں ، شیر ، گیدڑ، بھیڑ، بھیڑیا ، ہاتھی ، گھوڑے کتے سب کے اعضاء اس میں فٹ کیے گئے ہیں ، یوں ایک عجیب الخلقت چیز بنا کر وہ بڑا خوش ہوتا ہے لیکن یہ خوشی اسے راس نہیں کیوں کہ جانور اسے پیوند شکم کردیتا ہے ۔

دیکھیے تو پاکستانی جمہوریت بھی اسی جانورجیسی بن گئی ہے ، اس میں قبائلی وحشی سرداروں کے بھی گن ہیں ، مطلق العنانی بادشاہوں کی بھی صفات ہیں ، آمریت کی نشانیاں بھی ہیں، دینی ریاست کی بھی خوبیاں ہیں، لادینیت سے بھی بھرپو رہے ، بیلٹ بھی ہے بلٹ بھی ، ڈاکو لٹیروں کاچال چلن بھی ہے ، گینگسٹروں کے کردار بھی ہیں ، ٹریجیڈی اورساتھ ہی کامیڈی بھی ہے ، اوراب تو بانی کی مہربانی سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی ہوگیا ہے ، مطلب یہ کہ پنساری کی دکان یا جنرل اسٹورہے ، سب کچھ یہاں مل جاتا ہے اگر ڈھونڈئیے تو ، سوائے جمہوریت کے یا عوام کی خوشنودی کے ۔

غیرازیں نکتہ کہ حافظ زتو ناخوشنود است

درسراپائے وجودت پنرے نسیت کہ نسیت

ترجمہ: سوائے اس کے کہ حافظ تم سے خوشنود نہیں باقی دنیا میں ایسی کوئی صفت نہیں جوتم میں نہ ہو۔

اس جمہوریت کو ویسے تو کئی نام دیے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بہترنام سیلکٹڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ہوگا کیوں کہ اس میں صرف وہی محدود اشرافیہ حصہ لے سکتی ہے جو ابتدائے آفرینش سے پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد پر سوارچلی آرہی ہے ۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • انتظامیہ نے حکومت کی ایماء پر کوئٹہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی، تحریک تحفظ آئین
  • آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید
  • اس وقت آزاد کشمیر میں حکومت بنانا بڑا چیلنج، تحریک عدم اعتماد اسی ہفتے آ جائےگی، راجا فیصل ممتاز راٹھور
  • تحریک انصاف ،پنجاب لوکل گورنمنٹ بل ہائیکورٹ میں چیلنج کرنیکا اعلان
  • لاہور میں بلوچستان کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں گے، مولانا ہدایت الرحمان
  • عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے
  • تحریک انصاف کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی
  • ای چالان نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے‘سنی تحریک
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)