پیکا ترمیمی ایکٹ، اظہار رائے پر قدغن
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ تحریر: قاسم جمال
پاکستان میں روز اوّل سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی رہی ہے اور جب جب حکمرانوں کو موقع ملا چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو سب اس حمام میں ننگے پائے گئے۔ موجودہ حکمرانوں نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے ذریعے جو آزادی رائے پر کاری ضرب لگائی ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں ملتی۔ تماشا یہ کہ اس کالے قانون پر دستخط بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر سے کروائے گئے۔ پیپلز پارٹی جو خود کو جمہوریت کا چمپئن کہتی نہیں تھکتی اور اب یہ بدنما داغ شاید کبھی پیپلز پارٹی کے چہرے سے صاف بھی نہیں ہوسکے گا اور ان کے چہرے سے نقاب بھی اتر چکی ہے۔ اقتدار کی ہوس اور کرسی کے شوق نے ان کے عزائم کو بھی بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلم لیگ کے وزیراعظم لاکھ چاہتے اور پارلیمنٹ، سینیٹ کا ایوان اس کالے قانون کو پاس بھی کر دیتا لیکن صدر آصف زرداری اس کالے قانون پر دستخط نہیں کرتے تو ان کی عزت بچ جاتی۔
ملک بھر میں صحافی برادری اور اخباری صنعت و صحافی تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں، اس کالے قانون کے خلاف پریس کلبوں پر کالے پرچم آویزاں کردیئے گئے ہیں اور ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام ترمیمی بل 2025ء پیکا کی توثیق کرکے پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال مچا دیا ہے۔ اس قانون سے اب آن لائن جعلی خبروں کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جس سے معاشرے میں خوف وہراس یا بدامنی پھیل سکتی ہے تو اسے تین سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزا ئیں ایک ساتھ دی جاسکے گی۔
صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کو لاہور ہائی کورٹ میں لاہور پریس کلب کے رکن جعفر بن یار نے اپنے وکیل کے توسط سے چلینج بھی کردیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیکا بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر لایا گیا جو آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصاوم ہے لہٰذا عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے اور عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کو درخواست کے حتمی فیصلے سے مشروط کرے۔
پیکا ایکٹ بل کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع مواد تشہیر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔ ڈی آر پی اے سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔ اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو بلاک یا محدود کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے قائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین اراکین کا تقرر کرے گی اور یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھے ارکان پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے رکن ہوں گے۔
اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے رجسٹرڈ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ ٹربیونل کے فیصلے کو ساٹھ روز کے اندر عدالت عظمیٰ میں دائر کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ این سی سی آئی اے سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ مجوزہ ترامیم کے تحت ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ ختم کرکے ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے، بجٹ این سی سی آئی اے کو منتقل ہوجائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی اور پانچ ارکان کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل پیپلز پارٹی کے لیے چھچھوندر کی شکل اختیار کرچکی ہے نہ نگلی جائے اور نہ ہی اگلی جائے۔ ایک جانب وہ صحافتی تنظیموں اور میڈیا کے افراد سے یکجہتی کا اظہار کرتی رہی اور یقین دہانی کرواتی رہی کہ پیپلز پارٹی آزادی صحافت کی سب سے بڑی علمبردار ہے اور کسی قیمت پر یہ کالا قانون اسمبلی سے پاس نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو صدر تو پیپلز پارٹی کا ہے وہ اس پر کسی بھی قیمت پر دستخط نہیں کریں گے جس طرح انہوں نے مداراس ایکٹ بل پر دستخط نہ کر کے کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے صدر تو ایک ہی اشارے پر ڈھیر ہوگئے اور اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، متحدہ ودیگر اتحادی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیکا ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا۔
ان سے اچھے تو سابق وزیر اعظم مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی تھے جب انہیں پرویز مشرف کی جانب سے امریکا کے اشارے پر قبائلی علاقہ جات اور طالبان کی آڑ میں شمالی علاقہ جات، سوات، وزیرستان آپریشن کی پالیسوں کا علم ہوا تو وہ مستعفی ہوگئے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس گندی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ پاکستان پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور پیکا ایکٹ کے نفاذ سے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا نہ کریں۔ پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں اور سول سوسائٹی، مزدوروں، طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کا مقابلہ کرنے کی نہ اس میں سکت ہے اور نہ ہمت یہ تحریک وکلا تحریک سے بھی زیادہ زور دار اور توانا ہوگی اور بڑی سے بڑی طاقت اس تحریک کو نہیں روک سکے گی۔
بجھا سکو تو دیا بجھا دو
دبا سکو تو صدا دبا دو
دیا بجھے گا تو سحر ہوگی
صدا دبے گی تو حشر ہوگا
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پیکا ترمیمی ایکٹ پیپلز پارٹی کے کا اختیار ہوگا اس کالے قانون پیکا ایکٹ کے ا زادی اظہار پاکستان میں ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پاکستان کے کا اظہار کے خلاف ایکٹ بل کرنے کا ا ئی اے کے لیے دیا ہے کرے گی ہے اور
پڑھیں:
مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں، وزیر قانون کے پی
خیبر پختونخوا کے وزیر قانون آفتاب عالم نے واضح کیا ہے کہ مجوزہ خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جس کے تحت صوبے کے معدنی وسائل وفاق کے حوالے کیے جا رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو حکومت ترمیم کرنے کو بھی تیار ہے۔
پشاور میں وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں وزیر قانون آفتاب عالم نے مائنز اینڈ منرلز بل اور افغان باشندوں کی واپسی کے حوالے وفاقی حکومت کی پالیسی اور خیبر پختونخوا حکومت کے موقف اور پاک افغان مذاکرات میں پیش رفت پر بات کی۔
‘مجوزہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں’
وزیر قانون نے کھل کر مائنز اینڈ منرلز بل کا دفاع کیا اور کہا حکومت اس شعبے میں بہتری لانا چاہتی ہے جس کے لیے قانون بل کو لایا گیا ہے۔ آفتاب عالم نے کہا زیادہ تر لوگوں نے بل کو پڑھا تک نہیں ہے اور خود سے اس کے خلاف پروپیگنڈا اور مخالفت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا بتایا جائے کہ بل میں کہاں لکھا ہے یا ایسی کون سی شق ہے جس میں وسائل وفاق کو دینے کی بات ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو بل پر بریفنگ دی گئی اور ان کے تجویز کو محکمہ دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا اراکین اسمبلی نے گزشتہ پیر کو اپنے تجویز تحریری طور پر دی ہیں۔
انہوں نے کہا وفاق کی جانب سے صوبے سے قانونی سازی کے حوالے سے رابطہ کرنا کوئی غلط کام نہیں ہے۔ اور محکمہ قانون کا اس حوالے سے رابطہ ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت صوبے کے حقوق کی حفاظت کرے گی۔ اور وسائل پر حق بھی صوبے کے لوگوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل کو غلط انداز میں پیش کر کے عوام میں پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں ضرورت ہو، وہاں ترامیم کی جائیں گی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بیشتر افراد نے بل کا مطالعہ ہی نہیں کیا اور بغیر معلومات کے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے مخالفت کر رہے ہیں۔
وزیرا علیٰ گنڈاپور عمران خان کو بریفنگ دیں گے
وزیر قانون نے کہا بل کے حوالے سے عمران خان سے اجازت لی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور لیگل ٹیم کے ہمراہ جیل میں بانی چئیرمین عمران خان کو بریفنگ دیں گے۔لیکن یہ ملاقات کب ہو گی اب تک کچھ طے نہیں ہوا ہے۔ ‘خان سے ان کی بہنوں کو ملنے نہیں دیا جا رہا جب ملاقات ہو گی تو علی امین آگاہ کریں گے۔’
‘خیبر پختونخوا سے افغان باشندوں زبردستی نکالنے نہیں دیا جائے گا’
وزیر قانون نے افغان سیٹزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں کو نکالنے کے احکامات پر وفاق کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت وفاق کے جانب سے افغان باشندوں کو نکالنے کے احکامات پر عمل نہیں کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ صوبے میں افغان باشندوں کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو گا۔اگر ایسا ہوا تو اس سے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔
وزیر قانون نے کہا کہ وفاق نے افغان مذاکرت میں خیبر پختونخوا کو اعتماد میں نہیں لیا۔ افغان مذاکرت میں صوبے کو اعتماد میں لینا چاہیے کیونکہ صوبے کے ساتھ طویل بارڈر ہے۔
انہوں نے مزید کیا کہا، جانیے اس ویڈیو میں
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں