Islam Times:
2025-11-03@20:21:22 GMT

پیکا ترمیمی ایکٹ، اظہار رائے پر قدغن

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پیکا ترمیمی ایکٹ، اظہار رائے پر قدغن

اسلام ٹائمز: صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ تحریر: قاسم جمال

پاکستان میں روز اوّل سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی رہی ہے اور جب جب حکمرانوں کو موقع ملا چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو سب اس حمام میں ننگے پائے گئے۔ موجودہ حکمرانوں نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے ذریعے جو آزادی رائے پر کاری ضرب لگائی ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں ملتی۔ تماشا یہ کہ اس کالے قانون پر دستخط بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر سے کروائے گئے۔ پیپلز پارٹی جو خود کو جمہوریت کا چمپئن کہتی نہیں تھکتی اور اب یہ بدنما داغ شاید کبھی پیپلز پارٹی کے چہرے سے صاف بھی نہیں ہوسکے گا اور ان کے چہرے سے نقاب بھی اتر چکی ہے۔ اقتدار کی ہوس اور کرسی کے شوق نے ان کے عزائم کو بھی بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلم لیگ کے وزیراعظم لاکھ چاہتے اور پارلیمنٹ، سینیٹ کا ایوان اس کالے قانون کو پاس بھی کر دیتا لیکن صدر آصف زرداری اس کالے قانون پر دستخط نہیں کرتے تو ان کی عزت بچ جاتی۔

ملک بھر میں صحافی برادری اور اخباری صنعت و صحافی تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں، اس کالے قانون کے خلاف پریس کلبوں پر کالے پرچم آویزاں کردیئے گئے ہیں اور ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام ترمیمی بل 2025ء پیکا کی توثیق کرکے پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال مچا دیا ہے۔ اس قانون سے اب آن لائن جعلی خبروں کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جس سے معاشرے میں خوف وہراس یا بدامنی پھیل سکتی ہے تو اسے تین سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزا ئیں ایک ساتھ دی جاسکے گی۔

صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کو لاہور ہائی کورٹ میں لاہور پریس کلب کے رکن جعفر بن یار نے اپنے وکیل کے توسط سے چلینج بھی کردیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیکا بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر لایا گیا جو آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصاوم ہے لہٰذا عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے اور عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کو درخواست کے حتمی فیصلے سے مشروط کرے۔

پیکا ایکٹ بل کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع مواد تشہیر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔ ڈی آر پی اے سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔ اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو بلاک یا محدود کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے قائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین اراکین کا تقرر کرے گی اور یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھے ارکان پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے رکن ہوں گے۔

اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے رجسٹرڈ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ ٹربیونل کے فیصلے کو ساٹھ روز کے اندر عدالت عظمیٰ میں دائر کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ این سی سی آئی اے سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ مجوزہ ترامیم کے تحت ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ ختم کرکے ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے، بجٹ این سی سی آئی اے کو منتقل ہوجائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی اور پانچ ارکان کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل پیپلز پارٹی کے لیے چھچھوندر کی شکل اختیار کرچکی ہے نہ نگلی جائے اور نہ ہی اگلی جائے۔ ایک جانب وہ صحافتی تنظیموں اور میڈیا کے افراد سے یکجہتی کا اظہار کرتی رہی اور یقین دہانی کرواتی رہی کہ پیپلز پارٹی آزادی صحافت کی سب سے بڑی علمبردار ہے اور کسی قیمت پر یہ کالا قانون اسمبلی سے پاس نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو صدر تو پیپلز پارٹی کا ہے وہ اس پر کسی بھی قیمت پر دستخط نہیں کریں گے جس طرح انہوں نے مداراس ایکٹ بل پر دستخط نہ کر کے کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے صدر تو ایک ہی اشارے پر ڈھیر ہوگئے اور اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، متحدہ ودیگر اتحادی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیکا ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا۔

ان سے اچھے تو سابق وزیر اعظم مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی تھے جب انہیں پرویز مشرف کی جانب سے امریکا کے اشارے پر قبائلی علاقہ جات اور طالبان کی آڑ میں شمالی علاقہ جات، سوات، وزیرستان آپریشن کی پالیسوں کا علم ہوا تو وہ مستعفی ہوگئے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس گندی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ پاکستان پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور پیکا ایکٹ کے نفاذ سے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا نہ کریں۔ پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں اور سول سوسائٹی، مزدوروں، طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کا مقابلہ کرنے کی نہ اس میں سکت ہے اور نہ ہمت یہ تحریک وکلا تحریک سے بھی زیادہ زور دار اور توانا ہوگی اور بڑی سے بڑی طاقت اس تحریک کو نہیں روک سکے گی۔

بجھا سکو تو دیا بجھا دو
دبا سکو تو صدا دبا دو
دیا بجھے گا تو سحر ہوگی
صدا دبے گی تو حشر ہوگا

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پیکا ترمیمی ایکٹ پیپلز پارٹی کے کا اختیار ہوگا اس کالے قانون پیکا ایکٹ کے ا زادی اظہار پاکستان میں ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پاکستان کے کا اظہار کے خلاف ایکٹ بل کرنے کا ا ئی اے کے لیے دیا ہے کرے گی ہے اور

پڑھیں:

بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی ایڈوائزری کونسل نے ملک میں جاری سیاسی اختلافات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں آئندہ ایک ہفتے میں جولائی نیشنل چارٹر اور مجوزہ آئینی اصلاحات پر اتفاق نہ کر سکیں، تو حکومت خودمختارانہ طور پر فیصلہ کرے گی۔

یہ اعلان پیر کے روز چیف ایڈوائزر کے دفتر (تیجگاؤں، ڈھاکا) میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا، جس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔

اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے قانونی مشیر پروفیسر آصف نذرل نے بتایا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان جلد اتفاقِ رائے نہ ہوا تو حکومت ’خود اپنا راستہ اختیار کرے گی۔‘

اجلاس میں دیگر مشیروں میں محمد فوزالکبیر خان، عادل الرحمان خان اور پریس سیکریٹری شفیع الحق عالم بھی شریک تھے۔

سیاسی پس منظر اور تنازعہ کی نوعیت

گزشتہ ہفتے نیشنل کنسینس کمیشن نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے ایک خصوصی آرڈر جاری کیا جائے۔ اس کے مطابق، اگر ریفرنڈم کامیاب ہوتا ہے تو آئندہ پارلیمنٹ کو آئینی ترمیمی ادارہ کے طور پر تشکیل دیا جائے گا، جو 270 دن کے اندر اصلاحات مکمل کرے گی۔

تاہم ریفرنڈم کے انعقاد کے وقت پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف ہے۔ بعض جماعتیں چاہتی ہیں کہ یہ ریفرنڈم عام انتخابات کے ساتھ کرایا جائے، جبکہ دیگر جماعتیں اسے انتخابات سے قبل منعقد کرنے کی حامی ہیں۔ یہی اختلافات عبوری حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔

پروفیسر آصف نذرل کا بیان

پروفیسر نذرول نے کہا ’ہم کوئی الٹی میٹم نہیں دے رہے، بلکہ مکالمے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں باہمی اتفاق پر نہیں پہنچتیں تو حکومت اپنا لائحہ عمل خود طے کرے گی۔‘

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت مزید مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

’ہم توقع کرتے ہیں کہ تمام جمہوری اور اینٹی فاشسٹ جماعتیں مل بیٹھ کر رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے پاس تعاون اور مفاہمت کی طویل تاریخ ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پہلے سے طے شدہ نکات سے مختلف ہیں، تو پروفیسر نذرل نے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا ’ہم امید کرتے ہیں کہ جماعتیں خود اپنے اختلافات حل کریں گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔‘

انتخابات کے شیڈول کی تصدیق

ایڈوائزری کونسل نے اس بات کی بھی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ قومی انتخابات فروری 2026 کے اوائل میں منعقد کیے جائیں گے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر فریقین کے درمیان آئندہ چند دنوں میں اتفاق نہ ہوا تو عبوری حکومت کا یکطرفہ اقدام ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا نئے انوائرمنٹ ایکٹ لانے کا مطالبہ
  • وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا پی کے ایل آئی کے جگر کی پیوندکاری کے 1000 کامیاب آپریشن پر اظہار تشکر
  • پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  •  اہوریوں کو غیر معیاری گوشت فروخت کرنے والوں کیخلاف شکنجہ سخت 
  • سرحد پار دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • طالبان کی غیر نمائندہ حکومت اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، خواجہ آصف
  • اسلام آباد، سرپرائز انسپکشن،ریسٹورنٹس و فوڈ پوائنٹس کیلئے نئے قوانین
  • پنجاب : لاؤڈ سپیکر ایکٹ سختی سے نافذ کرنے کا فیصلہ