Daily Ausaf:
2025-11-05@02:21:21 GMT

بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ان تمام واقعات کے پیچھے مذہبی انتہاپسندی کی سوچ کارفرماہے،جونہ صرف بھارت میں اقلیتی برادریوں کونشانہ بناتی ہے بلکہ عالمی سطح پربھی بھارت کی تصویرکومتاثرکرتی ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے ان مسائل کونظراندازکرنااوران کے خلاف مؤثرکارروائی نہ کرنا اس بات کاغمازہے کہ بھارت میں مذہبی جنونیت ایک سنگین مسئلہ بن چکاہے جس کے حل کے لئے عالمی برادری کوبھی مزیدفعال کرداراداکرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت میں مذہبی جنونیت اورانتہاپسندی نے کئی دہائیوں سے مختلف اقلیتی برادریوں کوشدید متاثرکیاہے۔خاص طورپرمسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کومذہبی شدت پسندی کانشانہ بنایاگیا ہے، جس کا اثر بھارت کی داخلی سیاست اورعالمی شہرت پربھی پڑاہے۔ گجرات کے فسادات،کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی اوردیگربڑے فسادات بھارت میں مذہبی جنونیت کی ایک افسوسناک تاریخ کوپیش کرتے ہیں۔
بھارت میں ہندوقوم پرستوں کی جانب سے بابری مسجدکو1992ء میں منہدم کیاگیا،جس کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی شناخت کومٹانااور ایک ’’ہندوراشٹر‘‘کے خواب کوحقیقت بناناتھا ۔اس عمل میں ہزاروں مسلمانوں کوقتل کیاگیااورمسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کوتباہ کر دیاگیا۔اس کے بعدبھارتی حکومت کی جانب سے مزید ایک ہزارمساجدکوگرانے اوروہاں ہندومندربنانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے خلاف ہیں بلکہ بھارت کے مذہبی ہم آہنگی کے اصولوں کوبھی چیلنج کرتے ہیں ۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ان اقدامات کی حمایت نے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اورمسلم کمیونٹی کے خلاف شدیدنفرت کو ہوادی ہے۔
گجرات کے2002کے فسادات کوبھارت کے سب سے بدنام مسلم کش فسادات کے طورپر جانا جاتا ہے۔ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کاایک منظم منصوبہ بندی کے تحت بے رحمی سے قتل عام کیاگیا،ان کی جائیدادوں کوآگ لگادی گئی،اوران کے مکانات اورکاروبارکوتباہ کردیاگیا۔
یہ فسادات نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کے لئے ایک شدیدانسانی المیہ بنے بلکہ دنیابھرمیں بھارت کے مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے اقلیتی گروپوں پرظلم وستم کوبے نقاب کیا۔اوراس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی پرالزامات عائدکیے گئے کہ انہوں نے ہندوشدت پسندوں کوکھلی چھوٹ دی جس کی انہوں نے آج تک تردیدنہیں کی۔فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف جسمانی تشددکیاگیا،بلکہ ان کی نسلی ومذہبی شناخت کوبھی نشانہ بنایاگیا۔عورتوں کی اجتماعی عصمت دری،بچوں کاقتل اورمسلمانوں کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ان فسادات میں بھارتی حکومت کی غفلت اورسیاسی قیادت کی جانب سے شدت پسندی کی پشت پناہی نے اس المیہ کومزیدبڑھادیا ۔
18فروری 2007ء کو سمجھوتہ ایکسپریس، جوبھارت اورپاکستان کے درمیان چلنے والی امن ٹرین تھی،کوایک منظم سازش کے تحت بم دھماکوں کے ذریعے جلادیاگیا۔اس واقعے میں 68 افرادہلاک ہوئے،جن میں زیادہ ترپاکستانی شہری تھے۔بھارتی فوج کے کرنل پروہت اوردیگرہندو انتہاپسندوں پراس حملے کاالزام عائدکیاگیا۔کرنل پروہت کوگرفتارکیاگیا اور اس نے اعتراف جرم بھی کیالیکن نہ صرف بھارتی حکومت نے قوم پرست تنظیموں کے دباؤمیں آکراسے بری کردیا بلکہ کرنل پروہت اوراس کے ساتھیوں کوانتہائی مشکل حالات میں تحقیق کرنے کے بعدجس پولیس افسرنے ان کوگرفتارکیاتھا،اس کوبھی ایک سازش کے تحت ممبئی میں ہونے والے ایک حملے کے دوران اسے پیچھے سے گولی مارکرریاستکی پولیس کوواضح پیغام دیاگیاکہ آئندہ ان کی جماعت کے کسی بھی فردکوگرفتارکرنے کی کیاسزاہوسکتی ہے۔اس واقعے نے بھارت میں ہندوانتہاپسندی اور ریاستی اداروں کے تعلقات کوبے نقاب کردیاہے۔
کشمیرمیں ہونے والی ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کبھی نہیں کی گئیں،اوربھارتی حکومت نے ان واقعات پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کی۔یہاں تک کہ بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے بنیادی حقوق اورآزادی کی آوازکودبایااور ان کی آوازکوعالمی سطح پربے اثرکردیا۔کشمیرمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی فورسزکی جانب سے مسلمانوں کے خلاف شدید ظلم وستم جاری ہے اوربھارتی حکومت پرکشمیرمیں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔1989ء سے لے کراب تک ایک لاکھ سے زائدکشمیری شہیدکیے جاچکے ہیں،ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی اورہزاروں نوجوانوں کو گرفتارکرکے غیرقانونی طریقے سے قتل کردیاگیا۔جس میں ماورائے عدالت قتل،لاپتہ افراد،اوراجتماعی قبروں کاانکشاف شامل ہے۔ ایک امریکی ہندواسکالر خاتون نے کشمیرمیں درجنوں اجتماعی قبروں کاانکشاف کرتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے کشمیر میں جابرانہ پالیسیاں اور مظالم روز بروز بڑھ رہے ہیں، درجنوں مرتبہ عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے شواہدکے ساتھ ان تمام مظالم کورپورٹ کیاہے لیکن انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کادعویدارامریکا اور اس کے اتحادی محض اس لئے خاموش ہیں کہ وہ انڈیاکو ’’کواڈ‘‘اتحادکے ذریعے چین کے محاصرے کے لئے استعمال کرناچاہتے ہیں اور مودی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقلیتوں کی نسل کشی کرنے والی اپنی جماعت بی جے پی کے ان مظالم پرنہ صرف خاموش ہے بلکہ اس خاموشی کی آڑمیں حکومتی ادارے بھی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے خوفزدہ ہیں۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بھارتی حکومت کی انسانی حقوق کی مسلمانوں کے کی جانب سے بھارت میں بھارت کے کے خلاف

پڑھیں:

بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری

ریاض احمدچودھری

انڈین اٹاامک انرجی ریگولیشن بورڈ نے براہموس میزائلوںکی سٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد وہاں سے جوہری مواد سے تابکاری کا الرٹ جاری کیا ہے۔بھارتی حکومت نے انڈین نیشنل ریڈیولاجیکل سیفٹی ڈویژن کے ذریعے، بیاس، پنجاب کے قریب 10مئی کو برہموس میزائل اسٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد 3سے 5کلومیٹر کے دائر ے میں مقیم لوگوں کو تابکاری کے اخراج کی وجہ سے فوری طورپر انخلاء کرنے گھرسے باہر نہ نکلنے ، کھڑکیاں بند کرنے، زیر زمین پانی کے استعمال سے گریز کرنے اور باہر نکلنے کی صورت میں حفاظتی ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال سے واضح ہوتاہے کہ بھارت کا جوہری پروگرام غیر محفوظ ہے جس سے خطے میں ماحولیاتی خرابی پیداہونے کے ساتھ ساتھ تابکاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔
بھارت کے جوہری پروگرام کو فوری طور پر بند کیاجانا چاہیے۔ پاکستان اب قانونی طور پر اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا سکتا ہے، آئی اے ای اے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں پر زور دے سکتا ہے کہ وہ بھارت کے جوہری اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھیں اور پابندیوں پر غور کریں۔بھارت کا ٹریک ریکارڈ، بشمول مارچ 2022میں پاکستان پر برہموس میزائل کی حادثاتی فائرنگ، لاپرواہی کے خطرناک رحجان کی عکاسی کرتا ہے۔
مودی حکومت جوہری مواد کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے، جس کے باعث یورینیم چوری، اسمگلنگ اور ایٹمی مواد کی بدانتظامی بھارت کی تاریخ کی سنگین مثال بن چکی ہے۔یہ تمام صورتحال بھارتی سیکیورٹی کی ناکامی اور مودی کی نااہلی و غفلت کو بے نقاب کرتی ہے، بین الاقوامی میڈیا مشرقی جھارکھنڈ ریاست میں تین سرکاری کانوں سے نکلنے والے تابکاری فضلے کو صحت کے لیے سنگین خطرہ قرار دے چکا ہے۔ انتہا پسند مودی کا جوہری جنون عوام کی صحت اور زندگیوں کو تابکاری کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہا ہے، جھارکھنڈ کے یورینیم ذخائر کو جوہری ہتھیاروں سے جوڑنا مودی حکومت کے سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ذمہ داری کا واضح ثبوت ہے۔ مودی حکومت کا جوہری ایجنڈا خطے میں کشیدگی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔امریکہ کے دارا لحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل تھریٹ انڈیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔جو دنیا کے170ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، ان کے پھیلاؤ اور عدم پھیلاؤ پر تحقیق کرتا ہے۔بعد از تحقیقات یہ ادارہ ایک رپورٹ شائع کرتا ہے،جس میں اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس ملک کے ایٹمی ہتھیار زیادہ محفوظ ہیں اور کس ملک کا حفاظتی انتظام ناقص ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کی جوہری، تابکاری سلامتی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جوہری مواد کی سکیورٹی امور میں 19ویں نمبر پر براجمان ہے۔پاکستان کے بعد ہندوستان، ایران اور شمالی کوریا کا درجہ ہے۔ پاکستان کا رواں سال 3 مزید پوائنٹس حاصل کرکے جوہری مواد کی سلامتی میں اسکور 49پر پہنچا، پاکستان نے 2020ء کے مقابلے میں 3پوائنٹس، 2012ء کے مقابلے میں 18 پوائنٹس بہتری دکھائی۔ ہندوستان میں جوہری سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث سکور جوں کا توں یعنی 40 رہا، جوہری تنصیبات کی سلامتی میں پاکستان 47میں سے 32 ویں نمبر پر رہا ہے۔
بھارتی صحافی اور سماجی کارکن کاویہ کرناٹیک نے کہا ہے کہ بھارت کے جوہری طاقت ہونے کی اصل قیمت جھارکھنڈ کے بھولے بھالے لوگ اور تباہ شدہ دیہات ادا کررہے ہیں جہاں جوہری فضلہ پھینکنے کی وجہ سے لوگوں کو جلتی ہوئی زمین، زہر آلود پانی اور آہستہ آہستہ موت کا سامنا ہے۔ کاویہ نے انکشاف کیا کہ جھارکھنڈ جو بھارت کے یورینیم اور کوئلے کا سب سے بڑا حصہ پیدا کرتا ہے، بنجر زمین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ہم نے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے بجائے معذوری دی ہے۔ جادو گورا نامی گائوں کی حالت المناک ہے کہ وہاں ہرپانچ میں سے ایک عورت اسقاط حمل سے گزرتی ہے کیونکہ ہم نے اپنا ایٹمی فضلہ وہاں پھینک دیا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہر تیسرا آدمی کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہے جبکہ لوگ اپنے پورے جسم پر دھبوں اور پگھلے ہوئے چہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ آدھے بچوں کو ذہنی کمزوری کا سامنا ہے۔ کوئلہ پیدا کرنے والے ایک علاقے میں ضرورت سے زیادہ کھدائی کی وجہ سے مٹی خود بخودجل رہی ہے اور لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کاویہ نے حکومت کے ترقی کے دعوئوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ بھارت وشوا گرو بن گیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممبئی میں بڑی فلک بوس عمارتیں ہیں لیکن اس میں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی ہے جہاں تقریبا بیس لوگ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں جو بارش میں پانی سے بھر جاتا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں لوگوں کو ایسا پانی پلایا جاتا ہے جو پیٹرول کی طرح دکھتا ہے۔آپ باقی بھارت کی صورتحال کا تصور اسی سے کر سکتے ہیں۔شہری خوشحالی کے سرکاری دعوئوںکی مذمت کرتے ہوئے کاویہ نے کہاکہ ہماری فلموں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ممبئی اور دہلی رہنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بھارتی شہر دنیا میں سب سے بدترین ہیں ، چاہے وہ آلودگی کا معاملہ ہو یا قدرت سے ہم آہنگی کا۔کچی آبادیوں میں بھی وائٹنر جیسی منشیات پہنچ چکی ہیں۔جب ہم باہر نکلتے ہیں، خاص طور پر خواتین کے طور پر، ہمیں کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ صحافی ایسی چیزوں کو رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کرنا چاہتے۔کاویہ کے انکشافات بھارت کی نام نہاد اقتصادی ترقی کے دعوئوں اور ماحولیاتی تباہی کی قلعی کھول دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب ترین علاقے کس طرح بھارت کے جوہری اور صنعتی طاقت کے حصول کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
  • صدر ٹرمپ پاکستان کو کیا سمجھتے ہیں؟ دوست یا دشمن؟
  • اہم انتظامی اختیارات پر بھارت کے کنٹرول کی وجہ سے کشمیر حکومت کے اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں، عمر عبداللہ
  • پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب
  • غزہ میں آگ کی روانی
  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • ویمنز ورلڈ کپ؛ بھارتی ٹیم جنوبی افریقہ کو باآسانی شکست دے کر عالمی چمپیئن بن گئی
  • ٹرمپ نے نائجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دیدیا