ویب ڈیسک — 

وائٹ ہاؤس میں منگل کو واشنگٹن ڈی سی کے دورے پر آنے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کاانتظام سنبھال لے گا اور ہم اس پر کام بھی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ غزہ کی ترقی چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ وہ غزہ پر کنٹرول کے اپنے منصوبے پر کس طرح عمل کریں گے۔ لیکن انہوں نے امریکی فوج غزہ بھیجنے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ضروری ہوا تو ہم یہ بھی کریں گے۔ ہم اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس کی تعمیرِ نو کریں گے۔

ٹرمپ اور نیتن یاہو پریس کانفرنس کے دوران

بدھ کو بیرون ملک مریکی اتحادیوں اور مخالفین دونوں نےصدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر امریکہ کےانتظامی کنٹرول اور فلسطینی رہائشیوں کو مستقل طور پر کسی اور ملک میں آباد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور اس کی مذمت کی۔

متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب، آسٹریلیا، آئر لینڈ، چین ، نیوزی لینڈاور جرمنی اسی طرح یورپی یونین اورکریملن کے ایک ترجمان، سب نےدو ریاستی حل کےلیے حمایت کا اعادہ کیا۔۔

مصر ، اردن اور مشرق وسطیٰ میں دوسرے امریکی اتحادی 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو غزہ سے کسی اور مقام پر از سرنو آباد کرنے کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے تبصروں کے بعد مصر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیاجس میں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے باہر منتقل کیے بغیر، تعمیر نو کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔




سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی الگ ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا۔سعودی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینیوں سے متعلق اس کا مؤقف غیر متزلزل ہے۔بیان میں فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز‘ کے مطابق سعودی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے مؤقف کی واضح اور غیر مبہم انداز میں تصدیق کی ہے جس کی کسی بھی صورت میں کوئی اور تشریح نہیں کی جا سکتی۔

2017میں صدر ٹرمپ سعودی عرب کے دورے میں موجودہ ولی عہد سلمان کے ساتھ، فوٹو اے پی

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ غزہ کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ” یورپی یونین دو ریاستی حل کے بارے میں مستحکم طور پر پرعزم ہے، جو ہمارے خیال میں اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کے لیے طویل مدتی امن کا واحد راستہ ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ مستقبل کی کسی فلسطینی ریاست کا اٹوٹ حصہ ہے۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البنیز نے کہا، ’’ آسٹریلیا کا موقف وہی ہے جو آج صبح تھا ، جوگزشتہ سال تھا ، جو دس سال قبل تھا۔‘‘

آئرلینڈ کے وزیر اعظم مائیکل مارٹن نے کہا، ’’ گزشتہ رات کے تبصرے ، بلا شبہ بہت تشویش نا ک تھے ، میں ہمیشہ ، جب بھی امریکی انتظامیہ کی بات آتی ہے تو کوئی فیصلہ اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں، نہ کہ وہ کیا کہتےہیں۔‘‘

برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے ان ہزاروں فلسطینیوں کی تصاویر کا حوالہ دیا جوملبے سے گزر کر اپنے گھروں میں سے جو کچھ بچا ہے، وہاں واپس جا رہے ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر فائل فوٹو

اسٹارمرنے کہاکہ،’’ انہیں گھر واپسی کی اجازت دی جانی چاہیے، انہیں تعمیر نو کی اجازت دی جانی چاہیےاور ہمیں دو ریاستی حل کے راستے پر اس تعمیر نو میں ان کا ساتھ دینا چاہئے ۔‘‘

ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ ایجنسی کو بتایا کہ’’ غزہ سے ملک بدریوں کی ٹرمپ کی تجویز کو نہ تو خطہ اور نہ ہی ہم قبول کریں گے۔‘‘

فیدان نے کہا کہ ، ’’ میری رائے میں ، اس کے بارے میں سوچنا بھی ، غلط اور مضحکہ خیز ہے۔‘‘

ترک وزیر خارجہ حقان فیدان

فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ "فلسطینی عوام اور ان کے ناقابل تنسیخ حقوق کا تحفظ کرے،” اور کہا کہ ٹرمپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ "بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی” ہوگی۔

فلسطینی پناہ گزین گروپ

بیروت میں مار الیاس پناہ گزین کیمپ میں فلسطینی پناہ گزین گروپوں کے نمائندوں نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہر صورت ناکام ہو گی ۔

لبنان تقریباً 200,000 پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے، جن میں سے بہت سے 1948 کے بعد قائم کیے گئے کیمپوں میں رہتے ہیں، جب ان کے والدین یا دادا دادی کو اس سرزمین کو چھوڑنا پڑا جو اسرائیل بن گئی۔

بائیں بازو کے سیاسی دھڑے ڈیموکریٹک فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے رکن فتحی کلاب نے کہا کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی قوانین کے منافی ہو گا۔

انہوں نے کہا ،’’ انسانی ہمدردی کی آڑ میں رہائشیوں کی نقل مکانی کو ایک جنگی جرائم سمجھاجاتا ہے جو قانون کےمطابق قابل سزا ہے ، جیساکہ متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے تسلیم کیا ہے ۔‘‘ انہوں نے کہا، اس سے انسانی ہمدردی سے متعلق ان حالات کا استحصال ہوتا ہے جن سے غزہ کے لوگ بہت سے واقعات میں دوچار ہیں۔‘‘

حماس نے جسے امریکہ اور متعدد مغربی ملکوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہےاورجس کے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں جنگ شروع ہوئی تھی، کہا ہے کہ ٹرمپ کی تجویز خطے میں افرا تفری اور کشیدگی پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

امریکی سیا ست دانوں کا ردعمل

امریکہ میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ ڈیمو کریٹک سینیٹر کرس کونز نے ان بیانات کو جارحانہ ،اور خطرناک قرار دیا۔

ڈیمو کریٹ سینیٹر کرس کونز فائل فوٹو

کونزنے بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے کو ختم کرنے کے فیصلے کے حوالے سےسوال کرتے ہوئے کہا ،’’ ہم کیوں دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کے عشروں سے اچھی طرح سے چلنے والے پروگراموں کو ترک کریں گے ، اور اب انسانی ہمدردی کے ایک سب سے بڑے چیلنج کا آغاز کریں گے ؟‘‘

ایوان کے اسپیکر ، ایوان نمائندگان کی ری پبلکن اکثریت کے لیڈر ،مائیک جانسن نے غزہ پر قبضے کی ٹرمپ کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ’’ بالکل ، ہم اس کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔‘‘

ایوان نمائندگان کی ری پبلکن اکثریت کے لیڈراسپیکر ،مائیک جانسن فائل فوٹو

سینیٹ میں ا کثریتی لیڈر ، ر پبلکن جان تھون نے ایک غیر جانبدارانہ خیال پیش کرتے ہوئے کہا، ’’ ٹرمپ ایک زیادہ پر امن اور محفوظ مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں اور وہا ں کے لیے کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘

اسرائیل پر اپنے حملے میں حماس نے، اسرائیلی اعدادو شمار کے مطابق 1200 لوگوں کو ہلاک کیا ، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے اور 250 کو یرغمال بنایا تھا۔

جوابی طور پر اسرائیل کی فضائی اور زمینی جنگ میں ، غزہ میں حماس کے زیر انتظام صحت کے عہدے داروں کے مطابق 47ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سےنصف سےزیادہ عورتیں اور بچے تھے۔ صحت کے حکام یہ نہیں بتاتے کہ ہلاک ہونےوالوں میں سے کتنے جنگجو تھے۔

اس جنگ نے غزہ کے متعدد شہروں کے بڑے حصو ں کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

اس رپورٹ کےلئے کچھ معلومات اے پی اور اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ٹرمپ کی تجویز کرتے ہوئے کہا بین الاقوامی انہوں نے کہا ریاستی حل کے یورپی یونین کی تجویز کو چاہتے ہیں نے کہا کہ کو مسترد کریں گے کرنے کی کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی

امریکا اور چین نے مقبول ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک کی ملکیت کے حوالے سے ایک فریم ورک معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ اعلان امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے اسپین میں ہفتہ وار تجارتی مذاکرات کے بعد کیا۔

بیسنٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی وزیر اعظم شی جن پنگ جمعہ کو براہ راست بات چیت کریں گے تاکہ ڈیل کو حتمی شکل دی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصد ٹک ٹاک کی ملکیت کو چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے منتقل کرکے کسی امریکی کمپنی کو دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیے ٹک ٹاک نے امریکا کے لیے نئی ایپ بنانے کی رپورٹس کو مسترد کردیا

امریکی حکام نے کہا کہ ڈیل کی تجارتی تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں کیونکہ یہ 2 نجی فریقین کا معاملہ ہے، تاہم بنیادی شرائط پر اتفاق ہو چکا ہے۔

چینی نمائندہ تجارت لی چنگ گانگ نے بھی تصدیق کی کہ دونوں ممالک نے ’بنیادی فریم ورک اتفاق‘ حاصل کر لیا ہے تاکہ ٹک ٹاک تنازع کو باہمی تعاون سے حل کیا جا سکے اور سرمایہ کاری میں رکاوٹیں کم کی جا سکیں۔

معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

امریکی حکام طویل عرصے سے ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ بائٹ ڈانس کے چینی تعلقات اور چین کے سائبر قوانین امریکی صارفین کا ڈیٹا بیجنگ کے ہاتھ لگنے کا خطرہ پیدا کرتے ہیں۔

میڈرڈ مذاکرات میں امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے کہا کہ ٹیم کا فوکس اس بات پر تھا کہ معاہدہ چینی کمپنی کے لیے منصفانہ ہو اور امریکی سلامتی کے خدشات بھی دور ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بہت امیر خریدار TikTok خریدنے کو تیار ہے‘، صدر ٹرمپ کا انکشاف

چینی سائبر اسپیس کمیشن کے نائب ڈائریکٹر وانگ جِنگ تاؤ نے بتایا کہ دونوں فریقین نے ٹک ٹاک کے الگورتھم اور دانشورانہ املاک کے حقوق کے استعمال پر بھی اتفاق کیا ہے، جو سب سے بڑا اختلافی نکتہ تھا۔

دیگر تنازعات بدستور باقی

میڈرڈ مذاکرات میں مصنوعی کیمیکلز (فینٹانل) اور منی لانڈرنگ سے متعلق مسائل بھی زیرِ بحث آئے۔ بیسنٹ نے کہا کہ منشیات سے جڑے مالیاتی جرائم پر دونوں ممالک میں ’ غیر معمولی ہم آہنگی‘ پائی گئی۔

چینی نائب وزیراعظم ہی لی فینگ نے مذاکرات کو ’واضح، گہرے اور تعمیری‘ قرار دیا، مگر چین کے نمائندہ تجارت لی چنگ گانگ نے کہا کہ بیجنگ ٹیکنالوجی اور تجارت کی ’سیاسی رنگ آمیزی‘ کی مخالفت کرتا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کو چینی کمپنیوں پر یکطرفہ پابندیوں سے گریز کرنا چاہیے۔

ممکنہ ٹرمپ شی سربراہی ملاقات

ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ صدر ٹرمپ کو بیجنگ سرکاری دورے کی دعوت دے گا یا نہیں، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اکتوبر کے آخر میں جنوبی کوریا میں ہونے والی آسیان پیسفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کانفرنس اس ملاقات کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

اگرچہ فریم ورک ڈیل ایک مثبت قدم ہے، مگر تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے تجارتی معاہدے کے لیے وقت کم ہے، اس لیے اگلے مرحلے میں فریقین چند جزوی نتائج پر اکتفا کر سکتے ہیں جیسے چین کی طرف سے امریکی سویابین کی خریداری میں اضافہ یا امریکا کی جانب سے نئی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ پابندیوں میں نرمی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ٹک ٹاک ٹیکنالوجی چین ڈونلڈ ٹرمپ شی جن پنگ

متعلقہ مضامین

  • امریکی جج نے فلسطینی نژاد محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم دے دیا
  • برطانیہ کا رواں ہفتے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا امکان
  • برطانیہ کا رواں ہفتے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنیکا امکان
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • !ورزش اور غذا کے ساتھ بلڈپریشر کے مؤثر کنٹرول کیلئے یہ عوامل بھی اہم ہیں
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • فلسطینی جنگلی جانور ہیں، امریکی وزیر خارجہ کی بوکھلاہٹ
  • ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی
  •  امریکی پابندیوں پر ردعمل‘ سوڈان کا براہِ راست روابط پر زور
  • ٹرمپ کی ایمرجنسی نافذ کرکے واشنگٹن ڈی سی کو وفاق کے کنٹرول میں لینے کی دھمکی