دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
موسمیاتی تبدیلیوں نے کچھ ایسا اثر ڈالا ہے کہ اب تو یہ شعر ہر موسم پر پورا اترتا ہے۔ سرد موسم کو ہی لے لیجیے، دیر کی مہرباں آتے آتے، سرد موسم کے دیوانے افراد بھی یہ ہی کہتے رہ گئے۔
نہ چلیں سرد ہوائیں، آسمان سے گرے روئی کے گالے بھی کم
اس طرح سردیوں کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سرد علاقوں میں تو منظر سفید ہوگئے مگر پھر بھی موسمیاتی تبدیلی کے رنگ ہر سو ہیں، ہر جگہ ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک نہیں، کئی وجوہات ہیں اور ہماری پیاری زمین کو اس حال پر کسی اور نے نہیں، ہم نے خود پہنچایا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی ہے کیا اور اس کی وجوہات کون سی ہیں، آئیے پڑھتے ہیں، صرف پڑھتے نہیں، غور بھی کرتے ہیں۔ زمین کی فطری موسمی حالتوں میں تیز رفتار تبدیلیاں، موسمیاتی تبدیلی کہلاتی ہے۔
درجہ حرارت میں اضافہ، طوفانوں کی شدت میں اضافہ، غیر متوقع بارشیں موسم کی اہم تبدیلیاں ہیں۔ موسم میں تبدیلیاں غیرمعمولی بات نہیں مگر انسانی سرگرمیوں نے ان تبدیلیوں کو غیر متوقع حد تک خطرناک بنا دیا ہے۔
ماضی میں چلتے ہیں اور وجوہات تلاش کرتے ہیں، تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال شروع ہوا، اس وقت سے ہماری سرزمین تقریباً 1.
کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار 19ویں صدی کے بعد سے تقریباً 50فیصد اور گذشتہ 2دہائیوں میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی بھی ہے۔
درخت کٹتے ہیں یا انہیں جلایا جاتا ہے، یہ عوامل بھی ہمارے ماحول کے لیے زہر قاتل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے گلیشیئر بھی بچ نہ پائے، ہمالیہ کے گلیشیئرز پر برف انتہائی تیزی سے پگھل رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، اگر صورتحال میں بہتری نہ آئی تو سن 2100تک ہمالیہ اور ہندوکش کے 36فیصد گلیشیئر ختم ہوجائیں گے۔ یہ گلیشیئرز 8ممالک میں رہنے والے تقریباً 25کروڑ افراد کے لیے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔
کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند و بالا چوٹیاں بھی ان پہاڑی سلسلوں کا حصہ ہیں، گلگت اور ہنزہ کے گلیشیئر بھی سطح سمندر سے اونچائی کم ہونے کے باعث پگھلنے کے خطرے کی قریب ہیں۔
گلیشیئر کے تیزی سے پگھلنے سے سیلاب کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے علاوہ برفباری والے علاقوں کے جانوروں کی نسلیں بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں ہماری زندگی پر انتہائی خطرناک اثرات ڈالتی ہیں، زراعت اور معیشت کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر اسے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
2022کا تباہ کن سیلاب کس کو بھولا ہوگا، 1700سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 3کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی، 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
چوالیس لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ 8 ہزار سے زیادہ سڑکوں اور 440پلوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے بحران یا واقعات سے ایک پاکستانی شہری کی موت کا امکان دوسرے ممالک کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ہے۔
عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اسی رفتار سے جاری رہیں تو کئی تاریخی اور خوبصورت شہر صرف یادوں میں رہ جائیں گے۔ انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ ہر برس 6.7 انچ ڈوب رہا ہے اور خطرے میں ہے۔
امریکی شہر ہوسٹن بھی ہر سال 2 انچ کی رفتار سے ڈوب رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں میں بنگلہ دیش کا حصہ صرف 0.3 فیصد ہے مگر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2050 تک ملک کا 17 فیصد حصہ ڈوب جائے گا اور 2کروڑ کے قریب افراد دربدر ہوجائیں گے۔
سیاحوں کا پسندیدہ تفریح مقام وینس بھی خطرے میں ہے۔ بینکاک سے متعلق کچھ اچھی خبر نہیں۔ گارڈین کے مطابق، یہ خوبصورت شہر 2030 تک سطح سمندر سے نیچے آسکتا ہے۔ برطانوی شہر ہل کی تاریخی بندرگاہیں اور بحری ورثہ بھی سیلاب کی زد میں آسکتا ہے۔
بھارتی شہر کولکتہ کی تاریخی عمارتیں تاریخ کا حصہ بن سکتی ہیں۔ آسٹریلیا کا مشہور سیاحتی مقام گولڈ کوسٹ کے لیے کچھ زیادہ اچھی خبر نہیں ہے۔
دنیا میں برف کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ گرین لینڈ بھی خطرے میں ہے، 2016 سے 2021 کے درمیان شگاف ظاہر ہونے کی رفتار میں چار اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے، گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار میں بھی اضافہ جاری ہے، اگر صورتحال نہ بدلی تو ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بھی ماضی کا حصہ بن سکتا ہے۔
اپنی دنیا کو تو ہم نے بہت نقصان پہنچا دیا، اسے بچانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں کئی تنظمیں قائم ہیں، لاکھوں روپے خرچ کرکے تقریبات بھی ہوتی ہیں، کوپ یعنی کانفرنس آف دی پارٹیز دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سب سے اہم اجلاسوں میں سے ایک ہے جس میں دنیا بھر کے 197ملکوں کے نمائندے آلودگی اور ماحولیاتی تپش کے مسائل سے نمٹنے کے لیے غور کرتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مزید کیا کیا جاسکتا ہے، سب سے اہم ماحول دوست اقدامات میں ماحولیاتی قوانین پر عمل کرانا ہے، قوانین تو ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا، صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے، درخت نہ کاٹیں اور نئے درخت لگائیں، پاکستان میں وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے نام سے وزارت بھی کام کر رہی ہے۔
الیکٹرک وہیکلز کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں زگ زیگ ٹیکنالوجی جیسے کئی منصوبوں پر کام کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی پر عمل نہ کرنے والے کئی بھٹے گرائے بھی گئے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی اقدامات ہم انفرادی طور پر بھی کرسکتے ہیں، جیسے سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کرکے گاڑیوں پر انحصار کم کریں، ہوائی سفر کم کیا جائے۔ گوشت اور ڈیری مصنوعات کی فارمنگ دنیا میں 15 فیصد نقصان دہ گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے ان کے بجائے سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔
اس خوبصورت زمین کو ہم نے خود ہی بچانا ہے، سنوارنا ہے، اگر موثر اقدامات اور زندگی میں تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو اسے ہم خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلیوں موسمیاتی تبدیلی خبردار کیا تبدیلی کے کی رفتار سکتا ہے کے لیے کا حصہ
پڑھیں:
جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
عطاء اللہ ذکی ابڑو
آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔