WE News:
2025-11-05@01:50:23 GMT

زمین بچائیے، صرف اپنے لیے

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

زمین بچائیے، صرف اپنے لیے

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

موسمیاتی تبدیلیوں نے کچھ ایسا اثر ڈالا ہے کہ اب تو یہ شعر ہر موسم پر پورا اترتا ہے۔ سرد موسم کو ہی لے لیجیے، دیر کی مہرباں آتے آتے، سرد موسم کے دیوانے افراد بھی یہ ہی کہتے رہ گئے۔

نہ چلیں سرد ہوائیں، آسمان سے گرے روئی کے گالے بھی کم

اس طرح سردیوں کا موسم کبھی آیا نہ تھا

سرد علاقوں میں تو منظر سفید ہوگئے مگر پھر بھی موسمیاتی تبدیلی کے رنگ ہر سو ہیں، ہر جگہ ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک نہیں، کئی وجوہات ہیں اور ہماری پیاری زمین کو اس حال پر کسی اور نے نہیں، ہم نے خود پہنچایا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی ہے کیا اور اس کی وجوہات کون سی ہیں، آئیے پڑھتے ہیں، صرف پڑھتے نہیں، غور بھی کرتے ہیں۔ زمین کی فطری موسمی حالتوں میں تیز رفتار تبدیلیاں، موسمیاتی تبدیلی کہلاتی ہے۔

درجہ حرارت میں اضافہ، طوفانوں کی شدت میں اضافہ، غیر متوقع بارشیں موسم کی اہم تبدیلیاں ہیں۔ موسم میں تبدیلیاں غیرمعمولی بات نہیں مگر انسانی سرگرمیوں نے ان تبدیلیوں کو غیر متوقع حد تک خطرناک بنا دیا ہے۔

ماضی میں چلتے ہیں اور وجوہات تلاش کرتے ہیں، تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال شروع  ہوا، اس وقت سے ہماری سرزمین تقریباً 1.

2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔

کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار 19ویں صدی کے بعد سے تقریباً 50فیصد اور گذشتہ 2دہائیوں میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی بھی ہے۔

درخت کٹتے ہیں یا انہیں جلایا جاتا ہے، یہ عوامل بھی ہمارے ماحول کے لیے زہر قاتل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے گلیشیئر بھی بچ نہ پائے،  ہمالیہ کے گلیشیئرز پر برف انتہائی تیزی سے پگھل رہی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق، اگر صورتحال میں بہتری نہ آئی تو سن 2100تک ہمالیہ اور ہندوکش کے 36فیصد گلیشیئر ختم ہوجائیں گے۔ یہ گلیشیئرز 8ممالک میں رہنے والے تقریباً 25کروڑ افراد کے لیے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔

کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند و بالا چوٹیاں بھی ان پہاڑی سلسلوں کا حصہ ہیں، گلگت اور ہنزہ کے گلیشیئر بھی سطح سمندر سے اونچائی کم ہونے کے باعث پگھلنے کے خطرے کی قریب ہیں۔

گلیشیئر کے تیزی سے پگھلنے سے سیلاب کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے علاوہ برفباری والے علاقوں کے جانوروں کی نسلیں بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں ہماری زندگی پر انتہائی خطرناک اثرات ڈالتی ہیں،  زراعت اور  معیشت کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر اسے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

2022کا تباہ کن سیلاب کس کو بھولا ہوگا، 1700سے زائد افراد جاں بحق ہوئے،  3کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی، 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

چوالیس لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ 8 ہزار سے زیادہ سڑکوں اور 440پلوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔

ماہرین  نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے بحران یا واقعات  سے ایک پاکستانی شہری کی موت کا امکان دوسرے ممالک کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ہے۔

عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اسی رفتار سے جاری رہیں تو  کئی تاریخی اور خوبصورت شہر صرف یادوں میں رہ جائیں گے۔ انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ ہر برس 6.7 انچ ڈوب رہا ہے اور خطرے میں ہے۔

امریکی شہر ہوسٹن بھی ہر سال 2 انچ کی رفتار سے ڈوب رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں میں بنگلہ دیش کا حصہ صرف 0.3 فیصد ہے مگر  نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2050 تک ملک کا 17 فیصد حصہ ڈوب جائے گا اور 2کروڑ کے قریب افراد دربدر ہوجائیں گے۔

سیاحوں کا پسندیدہ تفریح مقام وینس بھی خطرے میں ہے۔ بینکاک سے متعلق کچھ اچھی خبر نہیں۔ گارڈین کے مطابق، یہ خوبصورت شہر 2030 تک سطح سمندر سے نیچے آسکتا ہے۔ برطانوی شہر ہل کی تاریخی بندرگاہیں اور بحری ورثہ بھی سیلاب کی زد میں آسکتا ہے۔

بھارتی شہر کولکتہ کی تاریخی عمارتیں تاریخ کا حصہ بن سکتی ہیں۔ آسٹریلیا کا مشہور سیاحتی مقام گولڈ کوسٹ کے لیے کچھ زیادہ اچھی خبر نہیں ہے۔

دنیا میں برف کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ گرین لینڈ بھی خطرے میں ہے، 2016 سے 2021 کے درمیان شگاف ظاہر ہونے کی رفتار میں چار اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے، گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار میں بھی اضافہ جاری ہے، اگر صورتحال نہ بدلی تو ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بھی ماضی کا حصہ بن سکتا ہے۔

اپنی دنیا کو تو ہم نے بہت نقصان پہنچا دیا، اسے بچانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں کئی تنظمیں قائم ہیں، لاکھوں روپے خرچ کرکے تقریبات بھی ہوتی ہیں، کوپ یعنی کانفرنس آف دی پارٹیز دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سب سے اہم اجلاسوں میں سے ایک ہے جس میں دنیا بھر کے 197ملکوں کے نمائندے آلودگی اور ماحولیاتی تپش کے مسائل سے نمٹنے کے لیے غور کرتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مزید کیا کیا جاسکتا ہے، سب سے اہم ماحول دوست اقدامات میں ماحولیاتی قوانین پر عمل کرانا ہے، قوانین تو ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا، صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم  کرنے کی بھی ضرورت ہے، درخت نہ کاٹیں اور نئے درخت لگائیں، پاکستان میں وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے نام سے وزارت بھی کام کر رہی ہے۔

الیکٹرک وہیکلز کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں زگ زیگ ٹیکنالوجی جیسے کئی منصوبوں پر کام کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی پر عمل نہ کرنے والے کئی بھٹے گرائے بھی گئے ہیں۔

اس کے علاوہ کئی اقدامات ہم انفرادی طور پر بھی کرسکتے ہیں، جیسے سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال  کرکے گاڑیوں پر انحصار کم کریں، ہوائی سفر کم کیا جائے۔ گوشت اور ڈیری مصنوعات کی فارمنگ دنیا میں 15 فیصد نقصان دہ گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔  اس لیے ان کے بجائے سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔

اس خوبصورت زمین کو ہم نے خود ہی بچانا ہے، سنوارنا ہے، اگر موثر اقدامات اور زندگی میں تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو اسے ہم خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلیوں موسمیاتی تبدیلی خبردار کیا تبدیلی کے کی رفتار سکتا ہے کے لیے کا حصہ

پڑھیں:

’استغفراللہ کہنا مناسب نہیں تھا‘، صبا قمر کے کراچی سے متعلق بیان پر حنا بیات کا ردعمل

سینئر اداکارہ حنا خواجہ بیات نے اداکارہ صبا قمر کے کراچی سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’استغفراللہ کہنا مناسب نہیں تھا‘ اور شہریوں کے درمیان تفریق کے بجائے ملک کے اتحاد پر زور دیا۔

گزشتہ دنوں ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران صبا قمر نے کہا تھا کہ انہیں کراچی پسند نہیں، وہ وہاں صرف کام کے سلسلے میں جاتی ہیں اور کام مکمل ہوتے ہی واپس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد چلی جاتی ہیں۔

میزبان نے جب ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کبھی مستقل طور پر کراچی منتقل ہونے کا سوچا ہے؟ تو صبا قمر نے فوراً ’استغفراللہ‘ کہتے ہوئے جواب دیا کہ انہیں سندھ کا دارالحکومت پسند نہیں۔

اداکارہ کی جانب سے کراچی کو ناپسند کرنے اور اس کے ذکر پر ’استغفراللہ‘ پڑھنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین سمیت شوبز شخصیات نے بھی انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ کئی افراد نے ان کی حمایت بھی کی۔

اسی تنازع پر معروف اداکارہ حنا خواجہ بیات نے حال ہی میں اپنے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ردعمل دیا۔

ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ ایک پرانی کہاوت ہے ’پہلے تولو پھر بولو‘، کیونکہ بعض اوقات ہم مذاق میں ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن کے پیچھے کوئی تلخ حقیقت یا منفی رویہ چھپا ہوتا ہے۔

حنا خواجہ بیات کے مطابق لوگ درست کہہ رہے ہیں کہ صبا قمر کو کراچی کے بارے میں اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی، کیونکہ ’استغفراللہ‘ کہنا کراچی کے شہریوں کی دل آزاری کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خود اپنے اردگرد ایسے کئی لوگوں کو جانتی ہیں جو کراچی والوں کے لہجے، شہر کی بدبو اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اداکارہ کے مطابق وہ ساری عمر کراچی میں رہی ہیں، یہ ان کا شہر اور ان کا گھر ہے، انہوں نے کراچی کی بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور روز دیکھ بھی رہی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لاہور کی خوبصورتی اور ہریالی کی تعریف نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ وہ لاہور کی تعریف کرتی ہیں مگر اس کی اسموگ یا فضائی آلودگی کا مذاق نہیں اڑاتیں، کیونکہ کسی کو نیچا دکھا کر آپ بہتر نہیں بن سکتے۔

ان کے مطابق شہروں کے درمیان یہ تفریق ایک غیر ضروری لڑائی بن چکی ہے۔

حنا بیات نے کہا کہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں ملک کے ہر حصے سے لوگ اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں، یہ ایک ثقافتی امتزاج ہے جو پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ کراچی میں کام کرنے آتے ہیں، انہیں شہر پر تنقید کا حق ضرور ہے، مگر وہ تعمیری ہونی چاہیے۔

اپنے پیغام کے اختتام پر حنا بیات نے کہا کہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور تمام شہر اس گھر کے مختلف کمرے ہیں، ہم چاہے کسی بھی شہر میں رہیں، ہمیں پورے ملک کا مالک بننا چاہیے، نہ کہ صرف اپنے اپنے شہر کا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی والوں کی روایت رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ہر حصے کے لوگوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، اس لیے دوسرے شہروں کے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ کراچی کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔

View this post on Instagram

A post shared by Hina Bayat (@hinakhwajabayatofficial)

متعلقہ مضامین

  • ہمارا 70 فیصد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے: مصدق ملک
  • کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا
  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • ’استغفراللہ کہنا مناسب نہیں تھا‘، صبا قمر کے کراچی سے متعلق بیان پر حنا بیات کا ردعمل
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی