WE News:
2025-09-18@14:10:15 GMT

زمین بچائیے، صرف اپنے لیے

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

زمین بچائیے، صرف اپنے لیے

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

موسمیاتی تبدیلیوں نے کچھ ایسا اثر ڈالا ہے کہ اب تو یہ شعر ہر موسم پر پورا اترتا ہے۔ سرد موسم کو ہی لے لیجیے، دیر کی مہرباں آتے آتے، سرد موسم کے دیوانے افراد بھی یہ ہی کہتے رہ گئے۔

نہ چلیں سرد ہوائیں، آسمان سے گرے روئی کے گالے بھی کم

اس طرح سردیوں کا موسم کبھی آیا نہ تھا

سرد علاقوں میں تو منظر سفید ہوگئے مگر پھر بھی موسمیاتی تبدیلی کے رنگ ہر سو ہیں، ہر جگہ ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک نہیں، کئی وجوہات ہیں اور ہماری پیاری زمین کو اس حال پر کسی اور نے نہیں، ہم نے خود پہنچایا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی ہے کیا اور اس کی وجوہات کون سی ہیں، آئیے پڑھتے ہیں، صرف پڑھتے نہیں، غور بھی کرتے ہیں۔ زمین کی فطری موسمی حالتوں میں تیز رفتار تبدیلیاں، موسمیاتی تبدیلی کہلاتی ہے۔

درجہ حرارت میں اضافہ، طوفانوں کی شدت میں اضافہ، غیر متوقع بارشیں موسم کی اہم تبدیلیاں ہیں۔ موسم میں تبدیلیاں غیرمعمولی بات نہیں مگر انسانی سرگرمیوں نے ان تبدیلیوں کو غیر متوقع حد تک خطرناک بنا دیا ہے۔

ماضی میں چلتے ہیں اور وجوہات تلاش کرتے ہیں، تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال شروع  ہوا، اس وقت سے ہماری سرزمین تقریباً 1.

2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔

کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار 19ویں صدی کے بعد سے تقریباً 50فیصد اور گذشتہ 2دہائیوں میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی بھی ہے۔

درخت کٹتے ہیں یا انہیں جلایا جاتا ہے، یہ عوامل بھی ہمارے ماحول کے لیے زہر قاتل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے گلیشیئر بھی بچ نہ پائے،  ہمالیہ کے گلیشیئرز پر برف انتہائی تیزی سے پگھل رہی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق، اگر صورتحال میں بہتری نہ آئی تو سن 2100تک ہمالیہ اور ہندوکش کے 36فیصد گلیشیئر ختم ہوجائیں گے۔ یہ گلیشیئرز 8ممالک میں رہنے والے تقریباً 25کروڑ افراد کے لیے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔

کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند و بالا چوٹیاں بھی ان پہاڑی سلسلوں کا حصہ ہیں، گلگت اور ہنزہ کے گلیشیئر بھی سطح سمندر سے اونچائی کم ہونے کے باعث پگھلنے کے خطرے کی قریب ہیں۔

گلیشیئر کے تیزی سے پگھلنے سے سیلاب کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے علاوہ برفباری والے علاقوں کے جانوروں کی نسلیں بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں ہماری زندگی پر انتہائی خطرناک اثرات ڈالتی ہیں،  زراعت اور  معیشت کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر اسے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

2022کا تباہ کن سیلاب کس کو بھولا ہوگا، 1700سے زائد افراد جاں بحق ہوئے،  3کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی، 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

چوالیس لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ 8 ہزار سے زیادہ سڑکوں اور 440پلوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔

ماہرین  نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے بحران یا واقعات  سے ایک پاکستانی شہری کی موت کا امکان دوسرے ممالک کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ہے۔

عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اسی رفتار سے جاری رہیں تو  کئی تاریخی اور خوبصورت شہر صرف یادوں میں رہ جائیں گے۔ انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ ہر برس 6.7 انچ ڈوب رہا ہے اور خطرے میں ہے۔

امریکی شہر ہوسٹن بھی ہر سال 2 انچ کی رفتار سے ڈوب رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں میں بنگلہ دیش کا حصہ صرف 0.3 فیصد ہے مگر  نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2050 تک ملک کا 17 فیصد حصہ ڈوب جائے گا اور 2کروڑ کے قریب افراد دربدر ہوجائیں گے۔

سیاحوں کا پسندیدہ تفریح مقام وینس بھی خطرے میں ہے۔ بینکاک سے متعلق کچھ اچھی خبر نہیں۔ گارڈین کے مطابق، یہ خوبصورت شہر 2030 تک سطح سمندر سے نیچے آسکتا ہے۔ برطانوی شہر ہل کی تاریخی بندرگاہیں اور بحری ورثہ بھی سیلاب کی زد میں آسکتا ہے۔

بھارتی شہر کولکتہ کی تاریخی عمارتیں تاریخ کا حصہ بن سکتی ہیں۔ آسٹریلیا کا مشہور سیاحتی مقام گولڈ کوسٹ کے لیے کچھ زیادہ اچھی خبر نہیں ہے۔

دنیا میں برف کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ گرین لینڈ بھی خطرے میں ہے، 2016 سے 2021 کے درمیان شگاف ظاہر ہونے کی رفتار میں چار اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے، گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار میں بھی اضافہ جاری ہے، اگر صورتحال نہ بدلی تو ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بھی ماضی کا حصہ بن سکتا ہے۔

اپنی دنیا کو تو ہم نے بہت نقصان پہنچا دیا، اسے بچانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں کئی تنظمیں قائم ہیں، لاکھوں روپے خرچ کرکے تقریبات بھی ہوتی ہیں، کوپ یعنی کانفرنس آف دی پارٹیز دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سب سے اہم اجلاسوں میں سے ایک ہے جس میں دنیا بھر کے 197ملکوں کے نمائندے آلودگی اور ماحولیاتی تپش کے مسائل سے نمٹنے کے لیے غور کرتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مزید کیا کیا جاسکتا ہے، سب سے اہم ماحول دوست اقدامات میں ماحولیاتی قوانین پر عمل کرانا ہے، قوانین تو ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا، صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم  کرنے کی بھی ضرورت ہے، درخت نہ کاٹیں اور نئے درخت لگائیں، پاکستان میں وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے نام سے وزارت بھی کام کر رہی ہے۔

الیکٹرک وہیکلز کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں زگ زیگ ٹیکنالوجی جیسے کئی منصوبوں پر کام کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی پر عمل نہ کرنے والے کئی بھٹے گرائے بھی گئے ہیں۔

اس کے علاوہ کئی اقدامات ہم انفرادی طور پر بھی کرسکتے ہیں، جیسے سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال  کرکے گاڑیوں پر انحصار کم کریں، ہوائی سفر کم کیا جائے۔ گوشت اور ڈیری مصنوعات کی فارمنگ دنیا میں 15 فیصد نقصان دہ گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔  اس لیے ان کے بجائے سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔

اس خوبصورت زمین کو ہم نے خود ہی بچانا ہے، سنوارنا ہے، اگر موثر اقدامات اور زندگی میں تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو اسے ہم خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلیوں موسمیاتی تبدیلی خبردار کیا تبدیلی کے کی رفتار سکتا ہے کے لیے کا حصہ

پڑھیں:

وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست

سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔

 اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔

انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔

متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔

پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

 خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کر دی
  • سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کردی
  • سندھ:موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کیلئے جامع منصوبہ تیار
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • یوسف پٹھان سرکاری زمین پر قابض قرار، مشہور شخصیات قانون سے بالاتر نہیں، گجرات ہائیکورٹ
  • موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دنیا بھر کو درپیش ہے، وزیر بلدیات سندھ
  • ایشیا کپ: آئی سی سی نے اینڈی پائیکرافٹ کی تبدیلی کا مطالبہ مسترد کردیا، بھارتی میڈیا
  • کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک ملاقات کررہے ہیں