Express News:
2025-11-05@02:51:40 GMT

کشمیر کا معاملہ: انسانی حقوق بارے آزمائش

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

کسی زمانے میں ’’زمین پر جنت‘‘ کے نام سے مشہور مقبوضہ کشمیر کی محصور وادی، انسانی حقوق کی عالمگیریت کے تصور کے لیے سخت چیلنج بن گئی ہے کیونکہ 9 لاکھ سے زیادہ بھارتی قابض فوجیوں کو بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرنے، اغوا کرنے، تشدد کرنے اور ان کی تذلیل کرنے سمیت لامحدود اختیارات حاصل ہیں جس سے اس پورے علاقے میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ کشمیریوں کو دہائیوں سے جس ناگفتہ بہ اور کربناک صورتحال کا سامنا ہے، اس کو دیکھ کر انسانی حقوق کی’’ آفاقیت‘‘ سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

تنازعہ1947 میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پیدا ہوا۔ ریاست کشمیر بھاری اکثریت رکھنے والی مسلم اکثریتی ریاست تھی تاہم اس کے باوجود اسے بھارت میں شامل کیے جانے سے مسلم اکثریتی یہ ریاست ایک مقامی ہندو حکمران کے ماتحت تھی۔ تاہم، اکتوبر 1947 میں، بھارتی افواج نے تقسیم کے فارمولے اور کشمیری عوام کی خواہشات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔

بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کے کشمیریوں کے عزم کی شدت کو مدنظر ہوئے، بھارت اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا، جس نے بڑے غور و خوض کے بعد جموں و کشمیر کے خطے میں استصواب رائے کا انعقاد کر کے پرامن حل پر زور دینے والی قراردادیں منظور کیں، تاکہ مسئلہ کشمیر کو اس طرح حل کیا جائے کہ عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔

تاہم، یہ جانتے ہوئے کہ بھارتی قبضہ لوگوں کی مرضی کے برعکس ہے، بھارت کشمیریوں اور عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں سے مکر گیا۔ اس کے بعد سے، بھارت جموں و کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو طول دینے کے لیے ایک کے بعد ایک سمیت تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر پر کیے گئے غیر قانونی قبضے کو پون صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، اس کے بعد بھی، بھارتی حکام غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے غیر قانونی اقدامات اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق کو مسلسل دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضے کو مزید مستحکم کرتے ہوئے اور بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے، 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کر دیا، تاکہ 5 اگست 2019 کو کی گئی غیر قانونی کارروائی کی سازش، انجینئرنگ ڈیمو گرافک اور مقبوضہ علاقے میں سیاسی تبدیلیوں کی آڑ میں کشمیریوں کو اپنی ہی سرزمین میں بے اختیار اقلیت میں تبدیل کردیا جائے۔

اس طرح کشمیریوں کے آزادی اور خود ارادیت کے مطالبے کو ختم کر دیا جائے۔ لہٰذا اب دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے بے لگام قابض فوج کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو اپنی ہی سرزمین میں اقلیت بنا ئے جانے کے براہ راست حملے کا سامنا ہے بھارت نے اپنی قابض افواج کو زیر محاصرہ علاقے میں دہشت کا راج قائم کرنے کے لیے ’’کھلی چھوٹ‘‘ دے دی ہے۔

انسانی حقوق کی معتبر تنظیموں کی طرف سے ان خلاف ورزیوں کی تفصیلی رپورٹس موجود ہیں جن میں ماورائے عدالت ہلاکتوں، حراست میں ہونے والی اموات، غیر ارادی طور پر گمشدگیوں، من مانی حراست، تشدد، ذلت آمیز سزائیں، عصمت دری اور چھیڑ چھاڑ، اجتماعی سزا، حقوق کی پامالی اظہار رائے کی آزادی اور مذہب اور عقیدہ تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔

بھارت یہ سب کرتے ہوئے اس بات سے غافل ہے کہ وہ طاقت اور دھوکا دہی سے ہی کچھ وقت لے سکتا ہے جو کسی دن ختم ہو جائے گا۔ پرامن اور جمہوری طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی مرضی کا حق خود ارادیت استعمال کرنے دیا جائے۔

تنازعہ کے دونوں فریق، پاکستان اور بھارت پہلے ہی کشمیریوں کی مرضی کا پتہ لگانے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے پر رضامندی ظاہر کر چکے تھے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے 12 فروری 1951 کو بھارتی پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’ہم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا اور اس کے پرامن حل کے لیے اپنی عزت کا لفظ دیا ہے۔

ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس سلسلے میں ہم نے مسئلہ کو کشمیر کے عوام پر چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کی پاسداری کے لیے پرعزم ہیں۔ ‘‘ان حالات میں جب بین الاقوامی امن اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے، یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں و کشمیر کے تنازع پر اپنی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

بھارت پر زور دیا جائے کہ وہ غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے کیے گئے اپنے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لے تاکہ انسانی حقوق کی عالمگیریت میں کمزوروں اور مظلوموں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔

آئیے ! ہم یہ عہد کریں کہ حق خودارادیت کے کشمیریوں کے منصفانہ اور جائز مطالبے کے ساتھ اپنی مضبوط یکجہتی کا اعادہ کریں اور بھارت سے مطالبہ کریں کہ وہ کشمیری عوام کی مرضی کا تعین کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔ ایک دن ظالموں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیاجائے گا اور آخرکار انصاف کا بول بالا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انسانی حقوق کی کشمیریوں کو اقوام متحدہ کشمیر کے کرتے ہوئے دیا جائے کرنے کے قبضے کو کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں مساوات، یکجہتی و انسانی حقوق کا احترام ہو، آصف زرداری

دوحہ:۔ صدر ملکت آصف علی زرداری نے مساوات، یکجہتی اور انسانی حقوق کے احترام پر مبنی سماجی ہم آہنگی کی ضرورت پر زور د یتے ہوئے کہا ہے کہ غربت کے تمام مظاہر کو ختم کرنا، مکمل اور بامقصد روزگار کو فروغ دینا اور سب کے لیے باعزت کام کے مواقع فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

دوحہ میں منعقدہ ورلڈ سمٹ برائے سماجی ترقی سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے حوالے سے ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ عالمی ادارے جامع اور جوابدہ ہوں۔

صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان پالیسی سازی میں عوام کو مرکز میں رکھنے کے اپنے عزم پر قائم ہے جبکہ ہمارا جامع اور پائیدار ترقی کا وژن دوحہ اعلامیے کی روح کے عین مطابق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا نمایاں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اب تک 90 لاکھ خاندانوں کو مالی امداد، صحت اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کر چکا ہے، یہ تاریخی پروگرام دنیا کے لیے ایک مثال بن چکا ہے اور اس نے لاکھوں زندگیاں بدل دی ہیں۔

صدر پاکستان نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) ہماری ترجیحات میں شامل ہیں جب کہ پاکستان کا ہدف شرحِ خواندگی کو 90 فیصد تک بڑھانا اور ہر بچے کو اسکول میں یقینی طور پر داخل کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے ذریعے نوجوانوں کو بااختیار بنایا جا رہا ہے اور آئندہ 5 سال میں ہر بچے کے اسکول میں داخلے کے لیے بھی پرعزم ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان پائیدار اور مزاحمتی ترقی میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ ترقی سبز، جامع اور دیرپا ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اب ایک نئے خطرے کا سامنا ہے جو پانی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کی صورت میں ہے، مخالف فریق کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، تاہم اس طرح کے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوں گے۔

صدر آصف علی زرداری نے آخر میں فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان مسائل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں مساوات، یکجہتی و انسانی حقوق کا احترام ہو، آصف زرداری
  • ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں مساوات، یکجہتی اور انسانی حقوق کا احترام ہو، آصف زرداری
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جائے گا
  • نومبر 1947: جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب، بھارت کے ظلم و بربریت کی لرزہ خیز داستان
  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب