Jasarat News:
2025-07-24@22:07:39 GMT

8 فروری… ووٹ کی بیحرمتی کا دن

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

8 فروری… ووٹ کی بیحرمتی کا دن

گزشتہ سال 8 فروری کو عام انتخابات ہوئے یعنی آئین کے مطابق عوام کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے کر وفاق اور صوبوں میں اپنی نمائندہ حکومتیں قائم کرسکتے ہیں اس مقصد کے لیے آئین کے تحت ایک خود مختار الیکشن کمیشن بھی موجود تھا جو انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو قانون کے مطابق تمام ضروری سہولتیں فراہم کرنے اور عوام کو ووٹ ڈالنے کے لیے ممکنہ رہنمائی دینے کا پابند تھا لیکن ان انتخابات میں ہوا یہ کہ الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کے خلاف فریق بن گیا، اس نے اس جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرکے عملاً اس کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی اور اس کے امیدواروں کو تتر بتر کردیا، لیکن جب یہ لوگ انتخابی میدان میں موجود رہے تو انہیں ایسے نامانوس اور مضحکہ خیز انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے کہ ووٹرز بیچارے کنفیوژ ہو کر رہ گئے، پھر الیکشن کمیشن نے اس سے بڑھ کر بددیانتی یہ کی کہ ووٹروں کے پولنگ اسٹیشن تبدیل کردیے گئے تا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ووٹ ہی نہ ڈال سکے اور وہ امیدوار نہ جیت سکیں جن کی جیت کا خوف الیکشن کمیشن پر سوار تھا۔ یہ واردات ہمارے ساتھ بھی پیش آئی اور ہم ووٹ نہ ڈال سکے کیونکہ ہمارے شناختی کارڈ پر مستقل پتا لاہور کا تھا اور ہم کہوٹا میں رہائش پزیر تھے اور یہاں ہمارا ووٹ بھی بنا ہوا تھا لیکن ووٹ دینے کے لیے لاہور بھیج دیا گیا۔ بے شمار لوگوں کے ساتھ یہ واردات کی گئی اور وہ اپنے حق رائے دہی سے محروم ہوگئے۔

تاہم عوام کے شعور کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے تمام رکاوٹوں اور گھپلوں کے باوجود معتوب جماعت کے امیدواروں کی بڑی تعداد کو اسمبلی میں پہنچادیا اور بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دیے۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن وہاں سے اس کا صفایا ہوگیا۔ خود میاں نواز شریف ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں بری طرح ہار گئے، یہ اور بات کہ فارم 47 کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی سیٹ انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کردی گئی۔ میاں نواز شریف کا ذکر آیا ہے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ انہوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات اور بعد میں جعلی حکومت سازی کے موقع پر نہایت گھٹیا سیاسی کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ پاناما لیکس میں نااہل ہونے کے بعد پاکستان سے لندن گئے تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لہرا رہے تھے۔ بلاشبہ ان کے خلاف سازش ہوئی تھی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اس سازش میں ملوث تھی میاں صاحب نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ پیش کرکے اس سازش کو بے نقاب کردیا تھا لیکن جب حالات بدلے اور عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو میاں صاحب لندن میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ دفن کرکے اسٹیبلشمنٹ کے ہمراز و دمساز تو بن گئے اور گزشتہ سال 8 فروری کو انتخابات اس حالات میں ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میاں نواز شریف کا مکمل سمجھوتا ہوگیا تھا اور یہ طے پا گیا تھا کہ انتخابات کے نتائج خواہ کچھ ہوں حکومت مسلم لیگ (ن) ہی کی بنے گی اور وزیراعظم میاں نواز شریف ہی ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ انتخابی نتائج مسلم لیگ (ن) کے لیے اتنے ذلت آمیز تھے کہ سارا منصوبہ الٹ گیا۔ میاں صاحب ’’چُپڑی اور دو دو‘‘ چاہتے تھے یعنی مرکز میں بھی ان کی حکومت ہو اور پنجاب میں بھی۔ لیکن مقتدرہ نے صورت حال دیکھ کر انہیں پنجاب پر ٹرخا دیا جہاں وہ بیٹی کی آڑ میں اپنی حکمرانی کی ٹھرک جھاڑ رہے ہیں اور قیدی 804 نے انہیں سیاسی بونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ رہی پیپلز پارٹی تو وہ حکومت میں شامل ضرور ہے لیکن شریک اقتدار نہیں ہے اور اپنی باری کا خاموشی سے انتظار کررہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے یہ آفر کی گئی تھی کہ بلاول آدھی مدت کے لیے وزیراعظم بن جائیں لیکن زرداری نے یہ آفر قبول نہیں کی۔ وہ اپنے بیٹے کو پانچ سال کے لیے وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے اگلے انتخابات کے انتظار میں ہیں جو مقررہ مدت سے پہلے کسی وقت بھی ہوسکتے ہیں۔ اس گھنائونے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا ہے جو کراچی سے صرف ایک سیٹ جیت سکتی تھی لیکن اسے اس کے امیدواروں سے زیادہ سیٹیں دے دی گئی ہیں اور وہ وفاق میں اقتدار بھی انجوائے کررہی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ جو 8 فروری کے انتخابات کے بعد قومی اُفق پر اُبھرا ہے اور جسے پوری قوم حیرت سے تک رہی ہے۔ 8 فروری عوام کے ووٹ کی بے حرمتی کا دن تھا اور یہ بے حرمتی الیکشن کمیشن سمیت تمام اداروں نے کھل کر کی۔ اس بے حرمتی کے خلاف یوم احتجاج اور یوم سیاہ منایا گیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میاں نواز شریف الیکشن کمیشن تھا لیکن کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلان کیا کہ نادار افراد کو عدلیہ کے تمام درجوں پر ریاستی خرچ پر قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس کے تحت ریاست غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی، جو 50 ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔

کیا یہ نیا اقدام ہے؟

نظام عدل سے وابستہ ماہرین کے مطابق یہ کوئی نیا اقدام نہیں کیونکہ پاکستان میں فری لیگل ایڈ کا نظام پہلے سے موجود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ طویل عرصے سے اعلانات کے ذریعے توجہ تو حاصل کرتی آئی ہے لیکن عملی اقدامات کی کمی کی وجہ سے عام شہریوں، خواہ وہ صاحبِ حیثیت ہوں یا نادار، کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ریٹائرڈ جسٹس شاہد جمیل کا کہنا ہے، ''افتخار چوہدری کے دور سے عدالتیں خبروں میں آنے کے فن میں ماہر ہو چکی ہیں لیکن عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔

(جاری ہے)

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ فری لیگل ایڈ سیلز ہر جگہ موجود ہیں اور ٹرائل کورٹس کے ججوں کو اختیار ہے کہ وہ نادار افراد کے لیے وکیل مقرر کریں، جو وہ کرتے بھی ہیں، ''میں ہائی کورٹ بار کا ممبر رہا ہوں اور وہاں بھی غریب افراد کے لیے امدادی فنڈ موجود ہے۔‘‘

ماہرین کا خیال ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے فیصلوں اور اعلانات پر مؤثر عمل درآمد ضروری ہے، جو پاکستان میں طویل عرصے سے مفقود ہے۔

یہ عنصر کسی بھی فیصلے کو اخبارات کی سرخیوں تک تو لے جاتا ہے لیکن عام عوام کے لیے عملی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ قابلِ ذکر ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے حلف اٹھانے کے بعد تمام کمرہ عدالتوں کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ بھی تاحال مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔

سپریم کورٹ میں چون ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا: وجوہات کیا ہیں؟

شاہد جمیل کے مطابق، ''دلکش اعلانات سرخیاں تو بنوا سکتے ہیں لیکن ایک باقاعدہ نظام کے قیام کے بغیر عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

اس کے لیے پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہے کیونکہ عدالتیں ایک حد سے آگے قانون سازی یا فنڈز مختص نہیں کر سکتیں۔‘‘ امید کی کرن یا قبل از وقت تنقید؟

تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عمل درآمد پر تنقید قبل از وقت ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی کہتے ہیں، ''اگرچہ غریب افراد کے لیے قانونی معاونت کا نظام پہلے سے موجود ہے لیکن چیف جسٹس کی جانب سے اس عزم کو دہرانا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش ایک خوش آئند قدم ہے۔

‘‘ بے بنیاد مقدمات کے خاتمے کا چیلنج

پاکستان میں یہ عمومی تاثر ہے کہ عدالتوں میں بڑی تعداد میں غیر سنجیدہ اور بے بنیاد مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ اگر کسی غریب فرد کے خلاف ایسا مقدمہ دائر ہو، تو ریاست کو اس کے لیے وکیل کی فیس ادا کرنا ہو گی۔ وکلاء برادری کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ ریاست کو غریب افراد کی قانونی مدد جاری رکھنی چاہیے اور چیف جسٹس کا یہ اقدام درست سمت میں ہے۔

تاہم بے بنیاد مقدمات کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت کو خود کوئی مؤثر کردار ادا کرنا ہو گا۔

معروف قانون دان فاروق ایچ نائیک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو یہ ایک بڑی خدمت ہو گی۔ بے بنیاد مقدمات کے مالی بوجھ سے نمٹنے کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ ایک ایسا قانون بنائے، جس کے تحت مقدمہ دائر کرنے والے کو مدعا علیہ کے عدالتی اخراجات کا کچھ حصہ پیشگی جمع کرانا لازم ہو۔

اگر مقدمہ سچا ثابت ہو تو جمع شدہ رقم واپس کر دی جائے اور ہارنے والے کو اخراجات ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ وکیل کی عدم دستیابی ہی واحد رکاوٹ نہیں

قانونی ماہرین مجموعی طور پر چیف جسٹس کے اقدام سے اختلاف نہیں کرتے لیکن ان کا خیال ہے کہ وکیل کی عدم دستیابی ہی انصاف کی راہ میں واحد رکاوٹ نہیں۔ سن 2024 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال کے ذمہ دار صرف جج نہیں بلکہ وکلاء کا کردار بھی اہم ہے۔ وہ مختلف حربوں سے مقدمات کو طول دیتے ہیں، خصوصاً وہ وکلاء، جو ''جعلی مقدمات‘‘ لڑتے ہیں اور فیصلے سے زیادہ مدعی کو تھکا کر اس کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔

جسٹس (ر) شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی اصل توجہ نچلی عدالتوں پر ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا، ''سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایسے وکلاء کو پابند کرے، جو پیشی پر حاضر نہیں ہوتے کہ وہ دوسرے فریق کے اخراجات ادا کریں، کیونکہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں وکیل بغیر بھاری مالی جرمانے کے عدالت سے غیر حاضر نہیں ہو سکتا۔‘‘

ان کے بقول یہ اقدام فوری انصاف کی فراہمی کے لیے سب سے ضروری ہے۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • نیل کٹر میں موجود اس سوراخ کی وجہ جانتے ہیں؟
  • خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں بیلٹ پیپرز باہر آنے کا انکشاف
  • حمیرا اصغر کی موت یا قتل؟ اسٹائلسٹ نے مزید تہلکہ خیز انکشافات کردیے
  • گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • امریکا کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت، ٹرمپ نے اوباما کو ’غدار‘ قرار دے دیا
  • سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں
  • ناخن کٹر میں موجود یہ سوراخ کس کام آتا ہے؟
  • اداکارہ حمیرا اصغر کی گمشدگی اور موت میں نیا موڑ