8 فروری… ووٹ کی بیحرمتی کا دن
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
گزشتہ سال 8 فروری کو عام انتخابات ہوئے یعنی آئین کے مطابق عوام کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے کر وفاق اور صوبوں میں اپنی نمائندہ حکومتیں قائم کرسکتے ہیں اس مقصد کے لیے آئین کے تحت ایک خود مختار الیکشن کمیشن بھی موجود تھا جو انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو قانون کے مطابق تمام ضروری سہولتیں فراہم کرنے اور عوام کو ووٹ ڈالنے کے لیے ممکنہ رہنمائی دینے کا پابند تھا لیکن ان انتخابات میں ہوا یہ کہ الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کے خلاف فریق بن گیا، اس نے اس جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرکے عملاً اس کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی اور اس کے امیدواروں کو تتر بتر کردیا، لیکن جب یہ لوگ انتخابی میدان میں موجود رہے تو انہیں ایسے نامانوس اور مضحکہ خیز انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے کہ ووٹرز بیچارے کنفیوژ ہو کر رہ گئے، پھر الیکشن کمیشن نے اس سے بڑھ کر بددیانتی یہ کی کہ ووٹروں کے پولنگ اسٹیشن تبدیل کردیے گئے تا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ووٹ ہی نہ ڈال سکے اور وہ امیدوار نہ جیت سکیں جن کی جیت کا خوف الیکشن کمیشن پر سوار تھا۔ یہ واردات ہمارے ساتھ بھی پیش آئی اور ہم ووٹ نہ ڈال سکے کیونکہ ہمارے شناختی کارڈ پر مستقل پتا لاہور کا تھا اور ہم کہوٹا میں رہائش پزیر تھے اور یہاں ہمارا ووٹ بھی بنا ہوا تھا لیکن ووٹ دینے کے لیے لاہور بھیج دیا گیا۔ بے شمار لوگوں کے ساتھ یہ واردات کی گئی اور وہ اپنے حق رائے دہی سے محروم ہوگئے۔
تاہم عوام کے شعور کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے تمام رکاوٹوں اور گھپلوں کے باوجود معتوب جماعت کے امیدواروں کی بڑی تعداد کو اسمبلی میں پہنچادیا اور بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دیے۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن وہاں سے اس کا صفایا ہوگیا۔ خود میاں نواز شریف ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں بری طرح ہار گئے، یہ اور بات کہ فارم 47 کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی سیٹ انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کردی گئی۔ میاں نواز شریف کا ذکر آیا ہے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ انہوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات اور بعد میں جعلی حکومت سازی کے موقع پر نہایت گھٹیا سیاسی کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ پاناما لیکس میں نااہل ہونے کے بعد پاکستان سے لندن گئے تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لہرا رہے تھے۔ بلاشبہ ان کے خلاف سازش ہوئی تھی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اس سازش میں ملوث تھی میاں صاحب نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ پیش کرکے اس سازش کو بے نقاب کردیا تھا لیکن جب حالات بدلے اور عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو میاں صاحب لندن میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ دفن کرکے اسٹیبلشمنٹ کے ہمراز و دمساز تو بن گئے اور گزشتہ سال 8 فروری کو انتخابات اس حالات میں ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میاں نواز شریف کا مکمل سمجھوتا ہوگیا تھا اور یہ طے پا گیا تھا کہ انتخابات کے نتائج خواہ کچھ ہوں حکومت مسلم لیگ (ن) ہی کی بنے گی اور وزیراعظم میاں نواز شریف ہی ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ انتخابی نتائج مسلم لیگ (ن) کے لیے اتنے ذلت آمیز تھے کہ سارا منصوبہ الٹ گیا۔ میاں صاحب ’’چُپڑی اور دو دو‘‘ چاہتے تھے یعنی مرکز میں بھی ان کی حکومت ہو اور پنجاب میں بھی۔ لیکن مقتدرہ نے صورت حال دیکھ کر انہیں پنجاب پر ٹرخا دیا جہاں وہ بیٹی کی آڑ میں اپنی حکمرانی کی ٹھرک جھاڑ رہے ہیں اور قیدی 804 نے انہیں سیاسی بونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ رہی پیپلز پارٹی تو وہ حکومت میں شامل ضرور ہے لیکن شریک اقتدار نہیں ہے اور اپنی باری کا خاموشی سے انتظار کررہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے یہ آفر کی گئی تھی کہ بلاول آدھی مدت کے لیے وزیراعظم بن جائیں لیکن زرداری نے یہ آفر قبول نہیں کی۔ وہ اپنے بیٹے کو پانچ سال کے لیے وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے اگلے انتخابات کے انتظار میں ہیں جو مقررہ مدت سے پہلے کسی وقت بھی ہوسکتے ہیں۔ اس گھنائونے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا ہے جو کراچی سے صرف ایک سیٹ جیت سکتی تھی لیکن اسے اس کے امیدواروں سے زیادہ سیٹیں دے دی گئی ہیں اور وہ وفاق میں اقتدار بھی انجوائے کررہی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ جو 8 فروری کے انتخابات کے بعد قومی اُفق پر اُبھرا ہے اور جسے پوری قوم حیرت سے تک رہی ہے۔ 8 فروری عوام کے ووٹ کی بے حرمتی کا دن تھا اور یہ بے حرمتی الیکشن کمیشن سمیت تمام اداروں نے کھل کر کی۔ اس بے حرمتی کے خلاف یوم احتجاج اور یوم سیاہ منایا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میاں نواز شریف الیکشن کمیشن تھا لیکن کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
انٹرا پارٹی انتخابات: بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں تھے، پی ٹی آئی سربراہ کیسے بنے؟ الیکشن کمیشن
انٹرا پارٹی انتخابات: بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں تھے، پی ٹی آئی سربراہ کیسے بنے؟ الیکشن کمیشن WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت ہوئی، ممبر خیبر پختونخوا جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، پھر چیئرمین پی ٹی آئی کیسے بن گئے؟
تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں، نہ ہی انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر کمیشن جماعت کو ریگولیٹ کر سکتا ہے۔
تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں بینچ نے کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل دیے کہ لاہور ہائی کورٹ نے انٹرا پارٹی کیس میں الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لا نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہوتی ہے، پی ٹی آئی 2021 میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند تھی، پی ٹی آئی نے نیشنل کونسل کی عدم موجودگی میں جنرل باڈی سے آئین منظور کروایا، کیا پارٹی آئین میں جنرل باڈی ہے؟
انہوں نے کہا کہ انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں فنانشل اکاؤنٹ کسی تصدیق کے بغیر ہیں۔
درخواست گزار اکبر ایس بابر نے استدعا کی کہ پی ٹی آئی کے فنڈز منجمد کیے جائیں، انتظامی ڈھانچے کے بغیر انتخابات کیسے ہوئے؟ سلمان اکرم راجا کو سیکریٹری جنرل بنانا غیر آئینی ہے۔
الیکشن کمیشن کے ممبر کے پی جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس کہا کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، پھر پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات پارٹی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن تو کروائے، تاہم خلاف قانون ہوئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر 23 نومبر کو الیکشن کرائے گئے، لیکن کمیشن نے الیکشن تسلیم ہی نہیں کیا، آئین پاکستان 90 روز میں جنرل الیکشن کا کہتا ہے کیا وہ کرائے گئے؟۔
وکیل نے کہا کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائے جائیں تو کیا پارٹی ختم ہو جاتی ہے؟ اگر یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو پھر چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر سیاسی جماعت ریگولیٹ کرنے اور پارٹی معاملات میں مداخلت کا اختیار ہی نہیں۔
الیکشن کمیشن نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآنجہانی پوپ فرانسس کی آخری رسومات ہفتے کو ادا کی جائیں گی عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کی کاز لسٹ منسوخ کینال منصوبہ اگر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کیلئے نکلیں گے: وزیراعلیٰ سندھ سندھ پر 16 سال سے حکومت ہے، مراد علی شاہ اپنی کارکردگی بتائیں، عظمیٰ بخاری انسداد دہشتگردی عدالت سے علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری وزیراعظم شہباز شریف صدر اردوان کی دعوت پر 2 روزہ دورے پر ترکیہ روانہ بنوں میں پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ناکامCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم