Jasarat News:
2025-09-17@23:30:20 GMT

8 فروری… ووٹ کی بیحرمتی کا دن

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

8 فروری… ووٹ کی بیحرمتی کا دن

گزشتہ سال 8 فروری کو عام انتخابات ہوئے یعنی آئین کے مطابق عوام کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے کر وفاق اور صوبوں میں اپنی نمائندہ حکومتیں قائم کرسکتے ہیں اس مقصد کے لیے آئین کے تحت ایک خود مختار الیکشن کمیشن بھی موجود تھا جو انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو قانون کے مطابق تمام ضروری سہولتیں فراہم کرنے اور عوام کو ووٹ ڈالنے کے لیے ممکنہ رہنمائی دینے کا پابند تھا لیکن ان انتخابات میں ہوا یہ کہ الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کے خلاف فریق بن گیا، اس نے اس جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرکے عملاً اس کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی اور اس کے امیدواروں کو تتر بتر کردیا، لیکن جب یہ لوگ انتخابی میدان میں موجود رہے تو انہیں ایسے نامانوس اور مضحکہ خیز انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے کہ ووٹرز بیچارے کنفیوژ ہو کر رہ گئے، پھر الیکشن کمیشن نے اس سے بڑھ کر بددیانتی یہ کی کہ ووٹروں کے پولنگ اسٹیشن تبدیل کردیے گئے تا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ووٹ ہی نہ ڈال سکے اور وہ امیدوار نہ جیت سکیں جن کی جیت کا خوف الیکشن کمیشن پر سوار تھا۔ یہ واردات ہمارے ساتھ بھی پیش آئی اور ہم ووٹ نہ ڈال سکے کیونکہ ہمارے شناختی کارڈ پر مستقل پتا لاہور کا تھا اور ہم کہوٹا میں رہائش پزیر تھے اور یہاں ہمارا ووٹ بھی بنا ہوا تھا لیکن ووٹ دینے کے لیے لاہور بھیج دیا گیا۔ بے شمار لوگوں کے ساتھ یہ واردات کی گئی اور وہ اپنے حق رائے دہی سے محروم ہوگئے۔

تاہم عوام کے شعور کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے تمام رکاوٹوں اور گھپلوں کے باوجود معتوب جماعت کے امیدواروں کی بڑی تعداد کو اسمبلی میں پہنچادیا اور بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دیے۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن وہاں سے اس کا صفایا ہوگیا۔ خود میاں نواز شریف ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں بری طرح ہار گئے، یہ اور بات کہ فارم 47 کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی سیٹ انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کردی گئی۔ میاں نواز شریف کا ذکر آیا ہے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ انہوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات اور بعد میں جعلی حکومت سازی کے موقع پر نہایت گھٹیا سیاسی کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ پاناما لیکس میں نااہل ہونے کے بعد پاکستان سے لندن گئے تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لہرا رہے تھے۔ بلاشبہ ان کے خلاف سازش ہوئی تھی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اس سازش میں ملوث تھی میاں صاحب نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ پیش کرکے اس سازش کو بے نقاب کردیا تھا لیکن جب حالات بدلے اور عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو میاں صاحب لندن میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ دفن کرکے اسٹیبلشمنٹ کے ہمراز و دمساز تو بن گئے اور گزشتہ سال 8 فروری کو انتخابات اس حالات میں ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میاں نواز شریف کا مکمل سمجھوتا ہوگیا تھا اور یہ طے پا گیا تھا کہ انتخابات کے نتائج خواہ کچھ ہوں حکومت مسلم لیگ (ن) ہی کی بنے گی اور وزیراعظم میاں نواز شریف ہی ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ انتخابی نتائج مسلم لیگ (ن) کے لیے اتنے ذلت آمیز تھے کہ سارا منصوبہ الٹ گیا۔ میاں صاحب ’’چُپڑی اور دو دو‘‘ چاہتے تھے یعنی مرکز میں بھی ان کی حکومت ہو اور پنجاب میں بھی۔ لیکن مقتدرہ نے صورت حال دیکھ کر انہیں پنجاب پر ٹرخا دیا جہاں وہ بیٹی کی آڑ میں اپنی حکمرانی کی ٹھرک جھاڑ رہے ہیں اور قیدی 804 نے انہیں سیاسی بونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ رہی پیپلز پارٹی تو وہ حکومت میں شامل ضرور ہے لیکن شریک اقتدار نہیں ہے اور اپنی باری کا خاموشی سے انتظار کررہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے یہ آفر کی گئی تھی کہ بلاول آدھی مدت کے لیے وزیراعظم بن جائیں لیکن زرداری نے یہ آفر قبول نہیں کی۔ وہ اپنے بیٹے کو پانچ سال کے لیے وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے اگلے انتخابات کے انتظار میں ہیں جو مقررہ مدت سے پہلے کسی وقت بھی ہوسکتے ہیں۔ اس گھنائونے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا ہے جو کراچی سے صرف ایک سیٹ جیت سکتی تھی لیکن اسے اس کے امیدواروں سے زیادہ سیٹیں دے دی گئی ہیں اور وہ وفاق میں اقتدار بھی انجوائے کررہی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ جو 8 فروری کے انتخابات کے بعد قومی اُفق پر اُبھرا ہے اور جسے پوری قوم حیرت سے تک رہی ہے۔ 8 فروری عوام کے ووٹ کی بے حرمتی کا دن تھا اور یہ بے حرمتی الیکشن کمیشن سمیت تمام اداروں نے کھل کر کی۔ اس بے حرمتی کے خلاف یوم احتجاج اور یوم سیاہ منایا گیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میاں نواز شریف الیکشن کمیشن تھا لیکن کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

مہمان خصوصی کاحشرنشر

یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔

اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل

 پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول

 چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔

مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔

یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔

بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔

اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔

کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی

کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں

 آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔

وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔

ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • میاں مقصود شکارپورڈسٹرکٹ بار میں آج جلسہ سیرت النبی ؐ سے خطاب کرینگے
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • طلبہ یونین الیکشن کا ضابطہ اخلاق 21دن میں تیارکرنے کا حکم
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر
  • 8 فروری الیکشن میں کچھ امیدواروں کو غیر قانونی طور پر کامیاب قرار دیا گیا
  • بلوچستان ہائیکورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • عدالت نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں محمود الرشید کی ضمانت خارج کردی
  • دولت مشترکہ کا پاکستان میں 2024کے عام انتخابات پر حتمی رپورٹ سے متعلق بیان
  • دولت مشترکہ کا پاکستان میں 2024 کےعام انتخابات پر حتمی رپورٹ سے متعلق بیان