Nai Baat:
2025-06-10@06:21:54 GMT

خدا کی زیارت

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

خدا کی زیارت

اللہ کی مخلوق کولوٹ کرہم پھراس انتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہمیں اب اللہ اوراس کے پیارے حبیبﷺ کی زیارت ہو۔بھلاہمارے جیسے ظالموں اور گناہ گاروں کوبھی اللہ اوراس کے رسول کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔؟کہتے ہیں ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتاہے۔اللہ واقعی ملتاہے مگرملنے کی تڑپ ،خواہش اوردل میں خداکاخوف رکھنے والوں کو۔جن لوگوں کے شب وروزہماری طرح مخلوق خدا کو ایذا رسانی، دکھ، درد، نقصان،پریشانی اورتکلیف پہنچانے میں گزررہے ہوں ایسوں کو خدا کیسے ملے گا۔؟ اس سوال کاجواب شائد کسی کے پاس نہ ہو۔ خدا توکہتاہے کہ تم گرتے ہوئوں کو تھامو، غریبوں، مجبوروں اور مظلوموںکا ہاتھ پکڑو، میں تمہیں مل جائوں گا لیکن ہم غریبوں، مجبوروں، مظلوموں اور گرے ہوئوں کو دھکوں پردھکے دے کریہ سوچتے اورسمجھتے ہیں کہ اب خداہمیں مل جائے گا۔ایک طرف ہم خداکو ڈھونڈرہے ہیں لیکن دوسری طرف ہم اسی خداکی بے زبان مخلوق کولوٹنے اورمارنے سے بھی بازنہیں آ رہے۔ ڈاکٹر ہے، تاجر ہے، ڈرائیور ہے، ٹیچر ہے، انجینئر ہے، سرمایہ کار ہے، صنعتکار ہے، خان ہے ،نواب ہے، چوہدری ہے، وڈیرہ ہے، سیاستدان ہے یا پھر کوئی حکمران۔ ہرشخص اورفرداس تاک اورانتظارمیں بیٹھارہتاہے کہ مخلوق خداکی مجبوری اورکمزوری سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔؟آپ اپنے اردگرددیکھیں آپ کو روزانہ درجنوں اورسینکڑوں نہیں بلکہ ایسے ہزاروں لوگ ملیں گے جومخلوق خداکولوٹنے اورمارنے کے انتظارمیں بیٹھے ہوں گے۔ کسی مجبورکونہ تاجرمعاف کرتے ہیں اورنہ کوئی ڈاکٹرانہیں ٹیکہ لگائے بغیرچھوڑتاہے۔نہ صرف تاجر اور ڈاکٹر بلکہ ڈرائیور، ٹیچر، انجینئر،سرمایہ کار، صنعتکار،خان ،نواب ،چوہدری اورسیاستدان جوبھی کسی مجبور اور کمزور کو دیکھتے ہیں اس کوکاٹنے اورڈسنے کے لئے ان کاخون جوش مارنے لگتاہے۔مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناتواس ملک اورمعاشرے میں ایک عام سی بات ہے۔اللہ نہ کرے آپ کسی مجبوری میں ہوں اوراس کاکسی تاجر، ڈرائیور،ڈاکٹریاکسی سیاستدان کوپتہ لگے۔ مجبور کو تو محلے کادکاندار اورایک عام ریڑھی بان بھی نہیں بخشتا۔ آپ نے اگر غلطی سے کسی تاجر، ڈرائیور، ڈاکٹر یا سیاستدان کوکہہ دیاکہ میری مجبوری ہے میرے ساتھ یہ چھوٹی سی بھلائی کردیں جواب میں وہ آپ کے ساتھ ایسی بھلائی کریں گے کہ آپ کیا۔؟آپ کی آنے والی سات نسلیں بھی پھراس بھلائی کو یاد رکھیں گی۔ہمارے ایک دوست ماسٹر شوکت کہتے ہیں کہ غلطی سے بھی کبھی کسی تاجر، ڈرائیور اور سیاستدان کے سامنے اپنی مجبوری کاذکرنہ کرناورنہ ایساڈنک ماریں گے کہ پھرآپ برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، ماسٹرصاحب کہتے ہیں کہ ایک بارمیں کہیں جنازے پر جا رہاتھااس علاقے تک بکنگ پرہزارپندرہ سو تک میں گاڑی جاتی تھی میں نے غلطی سے اڈے میں موجودڈرائیورسے جنازے میں لازمی شرکت کی مجبوری کا ذکر کیا۔ پھر کیا ڈرائیور اڑ گیاکہ وہاں چار ہزار سے کم پر کوئی نہیں جاتا،میں دوسرے ڈرائیورکے پاس گیاتومیرے جانے سے پہلے اس ڈرائیورنے اسے بھی میری مجبوری کا بتا دیا تھا۔ یہاں تومجبوروں کویہ ظالم آسمان پرمانگتے ہیں ،زمین پر توان کے ہاتھ جولگااس کاپھراللہ ہی حافظ ہے۔یہ حالات ہیں ہمارے ۔ان حالات میں ہمیں اللہ کی رضااور خوشنودی کیسے ملے۔اللہ توان کو ملتا ہے جو مشکل، پریشانی، بیماری، آزمائش اورکسی مصیبت میںاللہ کی مخلوق کاسہارابنتے ہیں۔کہیں ایک واقعہ پڑھاتھاکہ کسی زمانے میں ایک عابد نے ”خدا کی زیارت” کے لئے چالیس دن کا چلہ کاٹا۔وہ عابد دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے وہ یکسر کٹا ہوا تھا۔ اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گزرتا تھا۔چلے کی36 ویں رات اس عابد نے غیب سے ایک آواز سنی۔ شام 6 بجے تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو۔ عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دکان کو ڈھونڈنے لگا۔وہ کہتا ہے میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی،اسے وہ بیچنا چاہتی تھی۔ وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا۔چار ریال ملیں گے،وہ بڑھیا کہتی نہیں چھ ریال میں بیچوں گی پر کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہیں تھا۔آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی۔ تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا۔بوڑھی عورت نے کہا۔میں یہ برتن بیچنے کے لئے لائی ہوں اور میں اسے چھ ریال میں بیچوں گی۔ کیا آپ اس کے چھ ریال دیں گے۔۔؟ تانبہ ساز نے پوچھا۔چھ ریال میں ہی کیوں۔۔؟ بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا۔میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لئے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت چھ ریال ہے۔تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا۔ماں جی یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا۔بوڑھی عورت نے کہا۔کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔۔؟تانبے والے نے کہاہرگز نہیں۔میں واقعی پچیس ریال دوں گا،یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے۔ بوڑھی عورت پہلے بہت حیران ہوئی پھردعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو میں نے تانبے کی دکان والے سے کہا۔چاچا لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا۔۔؟ بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور چار ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدلیا۔بوڑھے تانبہ ساز نے کہامیں نے برتن نہیں خریدا ہے،میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لئے اور ایک ہفتے تک اس کے بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں۔ میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے۔عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا۔ اتنے میں غیبی آواز آئی۔چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا۔ گرتے ہوئوں کو تھامو، غریب کا ہاتھ پکڑو، ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تانبہ ساز ریال میں کی زیارت ہے میں نے کہا خدا کی ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں

ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحیٰ پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ عیدالاضحٰی کی بنیاد ایثار ومحبت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔

یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللّہ سے لا زوال محبت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِنظر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللّہ کی اطاعت اور والد کی محبت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔ پھر اللّہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔

 قربانی در اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللّہ تعالٰی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 37)

لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِقرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحٰی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِقرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمودونمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللّہ کے یہاں مقبول نہیں کیوںکہ رب تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔

وہ بندوں کی شکل و صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔

عیدِقرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خوب دعوتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں! کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہے؟ در حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا تو ویسے بھی انتہائی غیراخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔

قربانی کرنے سے قبل قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟

قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللّہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔

قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امت محمدی ﷺ تک تقریباً ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللّہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امت محمدی ﷺ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی، جب کہ امت محمدی ﷺ کو اللّہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔

 فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو اپنے رب کے حکم اور مرضی و منشا پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار میں مضمر اس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔

 عیدقرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔

عیدِقرباں کے موقع پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللّہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتے دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللّہ تعالٰی نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔

اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔

 اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اور اللّہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی، تو نبی ﷺ نے دریافت کیا، اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کل امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا جو اللّہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔

علاوہ ازیں، گذشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خوب بڑھ گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانے اور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصاویر، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی مہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمائش سے نہ صرف لوگوں میں حسد، جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا تو جس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابر ہو، تب بھی اللّہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔

صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔

آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللّہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)

متعلقہ مضامین

  • چہرے روشن، دل سیاہ
  • قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • ن لیگ عوام کو نہیں خود کو بیوقوف بنا رہی ہے: پرویز الہیٰ
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی