Nai Baat:
2025-07-26@22:57:54 GMT

خدا کی زیارت

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

خدا کی زیارت

اللہ کی مخلوق کولوٹ کرہم پھراس انتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہمیں اب اللہ اوراس کے پیارے حبیبﷺ کی زیارت ہو۔بھلاہمارے جیسے ظالموں اور گناہ گاروں کوبھی اللہ اوراس کے رسول کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔؟کہتے ہیں ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتاہے۔اللہ واقعی ملتاہے مگرملنے کی تڑپ ،خواہش اوردل میں خداکاخوف رکھنے والوں کو۔جن لوگوں کے شب وروزہماری طرح مخلوق خدا کو ایذا رسانی، دکھ، درد، نقصان،پریشانی اورتکلیف پہنچانے میں گزررہے ہوں ایسوں کو خدا کیسے ملے گا۔؟ اس سوال کاجواب شائد کسی کے پاس نہ ہو۔ خدا توکہتاہے کہ تم گرتے ہوئوں کو تھامو، غریبوں، مجبوروں اور مظلوموںکا ہاتھ پکڑو، میں تمہیں مل جائوں گا لیکن ہم غریبوں، مجبوروں، مظلوموں اور گرے ہوئوں کو دھکوں پردھکے دے کریہ سوچتے اورسمجھتے ہیں کہ اب خداہمیں مل جائے گا۔ایک طرف ہم خداکو ڈھونڈرہے ہیں لیکن دوسری طرف ہم اسی خداکی بے زبان مخلوق کولوٹنے اورمارنے سے بھی بازنہیں آ رہے۔ ڈاکٹر ہے، تاجر ہے، ڈرائیور ہے، ٹیچر ہے، انجینئر ہے، سرمایہ کار ہے، صنعتکار ہے، خان ہے ،نواب ہے، چوہدری ہے، وڈیرہ ہے، سیاستدان ہے یا پھر کوئی حکمران۔ ہرشخص اورفرداس تاک اورانتظارمیں بیٹھارہتاہے کہ مخلوق خداکی مجبوری اورکمزوری سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔؟آپ اپنے اردگرددیکھیں آپ کو روزانہ درجنوں اورسینکڑوں نہیں بلکہ ایسے ہزاروں لوگ ملیں گے جومخلوق خداکولوٹنے اورمارنے کے انتظارمیں بیٹھے ہوں گے۔ کسی مجبورکونہ تاجرمعاف کرتے ہیں اورنہ کوئی ڈاکٹرانہیں ٹیکہ لگائے بغیرچھوڑتاہے۔نہ صرف تاجر اور ڈاکٹر بلکہ ڈرائیور، ٹیچر، انجینئر،سرمایہ کار، صنعتکار،خان ،نواب ،چوہدری اورسیاستدان جوبھی کسی مجبور اور کمزور کو دیکھتے ہیں اس کوکاٹنے اورڈسنے کے لئے ان کاخون جوش مارنے لگتاہے۔مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناتواس ملک اورمعاشرے میں ایک عام سی بات ہے۔اللہ نہ کرے آپ کسی مجبوری میں ہوں اوراس کاکسی تاجر، ڈرائیور،ڈاکٹریاکسی سیاستدان کوپتہ لگے۔ مجبور کو تو محلے کادکاندار اورایک عام ریڑھی بان بھی نہیں بخشتا۔ آپ نے اگر غلطی سے کسی تاجر، ڈرائیور، ڈاکٹر یا سیاستدان کوکہہ دیاکہ میری مجبوری ہے میرے ساتھ یہ چھوٹی سی بھلائی کردیں جواب میں وہ آپ کے ساتھ ایسی بھلائی کریں گے کہ آپ کیا۔؟آپ کی آنے والی سات نسلیں بھی پھراس بھلائی کو یاد رکھیں گی۔ہمارے ایک دوست ماسٹر شوکت کہتے ہیں کہ غلطی سے بھی کبھی کسی تاجر، ڈرائیور اور سیاستدان کے سامنے اپنی مجبوری کاذکرنہ کرناورنہ ایساڈنک ماریں گے کہ پھرآپ برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، ماسٹرصاحب کہتے ہیں کہ ایک بارمیں کہیں جنازے پر جا رہاتھااس علاقے تک بکنگ پرہزارپندرہ سو تک میں گاڑی جاتی تھی میں نے غلطی سے اڈے میں موجودڈرائیورسے جنازے میں لازمی شرکت کی مجبوری کا ذکر کیا۔ پھر کیا ڈرائیور اڑ گیاکہ وہاں چار ہزار سے کم پر کوئی نہیں جاتا،میں دوسرے ڈرائیورکے پاس گیاتومیرے جانے سے پہلے اس ڈرائیورنے اسے بھی میری مجبوری کا بتا دیا تھا۔ یہاں تومجبوروں کویہ ظالم آسمان پرمانگتے ہیں ،زمین پر توان کے ہاتھ جولگااس کاپھراللہ ہی حافظ ہے۔یہ حالات ہیں ہمارے ۔ان حالات میں ہمیں اللہ کی رضااور خوشنودی کیسے ملے۔اللہ توان کو ملتا ہے جو مشکل، پریشانی، بیماری، آزمائش اورکسی مصیبت میںاللہ کی مخلوق کاسہارابنتے ہیں۔کہیں ایک واقعہ پڑھاتھاکہ کسی زمانے میں ایک عابد نے ”خدا کی زیارت” کے لئے چالیس دن کا چلہ کاٹا۔وہ عابد دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے وہ یکسر کٹا ہوا تھا۔ اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گزرتا تھا۔چلے کی36 ویں رات اس عابد نے غیب سے ایک آواز سنی۔ شام 6 بجے تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو۔ عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دکان کو ڈھونڈنے لگا۔وہ کہتا ہے میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی،اسے وہ بیچنا چاہتی تھی۔ وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا۔چار ریال ملیں گے،وہ بڑھیا کہتی نہیں چھ ریال میں بیچوں گی پر کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہیں تھا۔آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی۔ تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا۔بوڑھی عورت نے کہا۔میں یہ برتن بیچنے کے لئے لائی ہوں اور میں اسے چھ ریال میں بیچوں گی۔ کیا آپ اس کے چھ ریال دیں گے۔۔؟ تانبہ ساز نے پوچھا۔چھ ریال میں ہی کیوں۔۔؟ بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا۔میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لئے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت چھ ریال ہے۔تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا۔ماں جی یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا۔بوڑھی عورت نے کہا۔کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔۔؟تانبے والے نے کہاہرگز نہیں۔میں واقعی پچیس ریال دوں گا،یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے۔ بوڑھی عورت پہلے بہت حیران ہوئی پھردعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو میں نے تانبے کی دکان والے سے کہا۔چاچا لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا۔۔؟ بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور چار ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدلیا۔بوڑھے تانبہ ساز نے کہامیں نے برتن نہیں خریدا ہے،میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لئے اور ایک ہفتے تک اس کے بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں۔ میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے۔عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا۔ اتنے میں غیبی آواز آئی۔چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا۔ گرتے ہوئوں کو تھامو، غریب کا ہاتھ پکڑو، ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تانبہ ساز ریال میں کی زیارت ہے میں نے کہا خدا کی ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

اک چادر میلی سی

آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر پسند کی شادی میں بے غیرتی کہاں آ جاتی ہے؟

بیٹی نے اگر اپنی مرضی سے کسی کو چن لیا، تو قیامت کیوں ٹوٹ پڑتی ہے؟

غیرت کے علمبرداروں کو تب تو کچھ محسوس نہیں ہوتا جب اپنی بیٹی کو ڈھول تاشوں کے ساتھ ایک اجنبی کے حوالے کر دیتے ہیں، ایسے مرد کے بستر پر پھینک دیتے ہیں جسے اُس نے نہ کبھی دیکھا، نہ جانا، نہ سمجھا ہوتا ہے ـ ہاں البتہ یہ بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی ہے کہ بچی نے بنا چوں چراں،  بنا سوال کیے اپنی زندگی کے سب سے اہم اور بڑے فیصلے پر خاندان کی مرضی کے آگے سر جھکا دیا۔

اور  یہی بیٹی کی قربانی خاندان کی عزت کہلاتی ہے۔

قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں عورت

ایک نجی ملکیت سمجھی جاتی ہے،

کبھی باپ کی، کبھی شوہر کی، کبھی بھائی کی، اور کبھی بیٹے کی …..

عزت کا استعارہ،

غیرت کا بہانہ ـ

عورت …اس معاشرے میں انسان کہاں سمجھی جاتی ہے؟

اس کی سوچ؟

اس کی رضا؟

اس کی پسند، ناپسند؟

یہ تمام الفاظ تو اس کے مقدر میں لکھے ہی نہیں گئےـ

وہ تو بس ایک چیز ہے، جیسے کرسی،  میز

جیسے بکری،

جیسے بھینس،

جیسے کھیت کا کوئی زرخیز ٹکڑا،

جسے وقت آنے پر بیچ دیا جائے،

یا دشمنی کے بدلے میں دے دیا جائے،

یا کسی رشتے کی سیج پر رکھ کر اپنی غیرت یا عزت بچانے کا ہتھیار بنا دیا جائے !

کیا کسی نے پوچھا

وہ کیا چاہتی ہے؟

کیا اس کے کوئی خواب ہیں؟

نیلے پیلے اودے….ست رنگی ……رنگ برنگے ـ لیکن …

بھلا ایک عورت کیسے خواب دیکھ سکتی ہے

جس کی گواہی بھی آدھی تسلیم کی جائے وہ کیونکر ایک مکمل انسان ہو سکتی ہے ـ

وہ تو اپنی قسمت کا نوحہ پڑھتی ایک مخلوق ہے

ایک جسم کا لوتھڑا ہے

جو جینے کے لیے نہیں

صرف حکم ماننے اور نبھانے کے لیے ہے ـ

کیا بانو اس معاشرے کی پہلی عورت تھی؟

جو اپنی زندگی کی قیمت

کسی عدالت میں نہیں

بلکہ مقتل میں ادا کر آئی ـ

کسی نے کہا کہ ’قبائل میں اگر کوئی عورت یا مرد ایسی حرکت کریں تو جرگے کو ایسا فیصلہ دینا لازمی ہوتا ہے تاکہ آئندہ کوئی لڑکی ایسا قدم اٹھانے سے پہلے 10 بار سوچے‘  گویا عورت کی عزت کا تحفظ قتل سے مشروط ہے، اور عورت کی ’بھٹکی ہوئی راہ‘ کا حل تعلیم، شعور، یا برابری کے حق میں نہیں بلکہ اس کی جان لینے میں پوشیدہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ قبائلی غیرت کے نظام میں عورت کو کیا کبھی انسان سمجھا گیا ہے؟ اگر اسے اپنی مرضی سے جینے کا اختیار ہو، تو جرگہ کیونکر بیٹھے؟ اگر بیٹی کو تعلیم کے ساتھ اعتماد ، اپنی پسند سے جینے کا حق دیا جائے ، اسے اپنی مرضی کا ہم سفر چننے کی اجازت ہو، اگر اسے کم عمری میں بیاہنے سے گریز کیا جائے، اگر اسے یہ سکھایا جائے کہ اس کی زندگی کا فیصلہ وہ خود کر سکتی ہے، اور اگر شادی ناکام بھی ہو جائے تو ماں باپ کا دروازہ اس کے لیے ہمیشہ کھلا ہو،  تو پھر نہ کوئی بھاگے گی، نہ کسی کو مارنے کے جواز تراشے جائیں گے۔

پہلے بانو کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ـ ہاہا کار مچ گئی ـ کسی نے اسکی شان میں قصیدے پڑھے تو کسی نے نوحہ۔

اگلے ہی روز وزیراعلیٰ صاحب پریس کانفرنس کرنے آئے اور کیس کو زنا بالرضا کا ڈنکا بجا کر قتل کا بالواسطہ جواز مہیا کر گئے ـ

اس کے بعد جو الزامات کی بوچھاڑ ہوئی، کردار پر کیچڑ اچھالا گیا، اور آخرکار اس کے قتل کو بھی کچھ لوگوں نے ’عبرت کا سامان‘ قرار دے دیا۔

بات یہیں تک نہ رہی بلکہ تیسرے روز بانو کی والدہ نے بَبانگ دُہل اپنی بیٹی کے ہی قصور وار ہونے کا اعلان کردیا جِس سے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے ـ

مان لیں کہ وہ  غلط تھی …. مجرم بھی تھی …. تو گویا ماورائے عدالت قتل جائز قرار دے دیا جائے؟  ایک قبیلے کا سردار کیا خدا بن بیٹھا ہے جو کسی کی بھی جان لینے کا حکم صادر کر سکتا ہے؟

اگر ہے …. تو پھر تالے لگادیں قانون کے تمام اداروں کو، اور پھر چلنے دیں  ملک میں جنگل کا قانون۔

چلیں بانو کے کیس میں تو ’آئیں بائیں شائیں‘، ’اگر مگر‘ شامل ہو گیا ہے ـ لیکن کیا یہ عورت کے ساتھ تشدد کی واحد کہانی ہے؟

کراچی کے علاقے لیاری کی 19 سالہ شانتی کی مثال لیجیے۔

شانتی نے محبت میں خاندان کا نام رسوا نہیں کیا تھا۔ وہ چپ چاپ گھر سے بھاگ کر کسی غیر مرد سے شادی کرنے نہیں گئی تھی۔ اس نے اپنے گھر والوں کی رضا سے، رسم و رواج نبھاتے ہوئے اشوک کے ساتھ 7 پھیرے لیے۔ وہ تمام مراحل طے کیے جو ایک ’مہذب‘ شادی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن پھر شادی کے تیسرے دن ہی اشوک ’اس کے اپنے شوہر‘  نے اس کے جسم کو کیوں دوزخ بنا دیا؟

وہ تو ایک بیوی تھی،

جسے شوہر نے انسان نہیں

اپنی ملکیت سمجھا ـ

جسے مارنا، پیٹنا، نوچنا، روندنا اُس کا حق تھا۔

وہی ظلم جو دہلی کی بس میں ہوا، وہی اذیتیں، وہی زخم، وہی چیخیں ـ فرق صرف اتنا تھا کہ دہلی کی بس میں وہ 6 ریپسٹ غیر مرد تھے، اور یہاں شانتی کا ریپسٹ اس کا اپنا شوہر تھا۔

دلی بس ریپ والا واقعہ اور اشوک نے جو شانتی کے ساتھ کیا وہ ہوبہو ایک جیسا تھاـ

وہی راڈ تھی،

وہی سفاکیت تھیـ

انتڑیاں تھیں،

خون تھا،

اور عورت کی زندہ لاش تھی،

کہانی ختم ۔

جان بھی گئی اور شان بھی گئی۔

چلیے شانتی تو ہندو مذہب کی ایک کمتر لڑکی تھی غریب ـ چمار … اس کے مر جانے سے کون سے ہمارے مسلم ملک میں کوئی فرق پڑ جائے گا ـ

لیکن کورنگی کی عائشہ نور کا کیا قصور تھا، جو 2 بچیوں کی ماں تھی۔ نہ جانے کس بات پر اس کے شوہر کو غصہ آیا شاید صرف اس لیے کہ وہ اس کے سامنے جواب دینے کی جرأت کر بیٹھی، یا آواز بلند ہو گئی۔ پہلے تو شوہر نے بے رحمی سے مارا پیٹا، جیسے وہ کوئی انسان نہیں، ایک چیز ہو۔ پھر جب وہ جان بچانے کے لیے بھاگی تو شوہر نے اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ مل کر اس کے منہ میں تیزاب انڈیل دیا۔ جلتا ہوا جسم، جھلستی چیخیں، لڑکھڑاتی سانسیں….

عائشہ بھی عورت تھی، اور عورت ملکیت ہوتی ہے۔

ایک اور کہانی ختم ہوئی۔

جھنگ کی کنزی، زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کی طالبہ، تعلیم کے خواب آنکھوں میں سجائے، ایک روشن کل کی امید لیے جینے والی کنزی، اپنے عم زاد ادریس کے ہاتھوں برباد ہو گئی۔ پہلے اس نے کنزی کا ریپ کیا، پھر زہر دے کر اسے مار ڈالا۔ ….وجہ؟  رشتے سے انکار….گویا عورت کا انکار بھی موت کا پروانہ ہے۔

ویہاڑی کی نائلہ کی کہانی بھی لرزہ خیز ہے۔ محض کھانے میں دیر ہو جانے پر اس کے بھائی نے غصے میں چھری اٹھائی، ایک بہن کو موقعے پر ہلاک کیا، دوسری کو شدید زخمی کر دیا۔ کیونکہ گھر میں عورت مرد کی ملکیت ہوتی ہے۔

اب قانون حرکت میں آئے، عدالتیں لگیں ، کیس چلے، دیت ہو جائے،  معافی نامہ ہو یا سزا مل جائے ـ جان تو گئی … سج دھج سے گئی یا خوف سے … کیا فرق پڑتا ہےـ

یہ واقعات انفرادی نہیں، یہ ایک اجتماعی المیہ ہیں۔

مقامی این جی او ساحل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تا جون تک خواتین پر تشدد، ریپ اور قتل کے 3958 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جو کہ پچھلے سال 1732 تھےـ ان میں 80% پنجاب، 13% سندھ اور بقیہ کیسز بلوچستان،  کے پی،  گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہیں ـ لیکن یہ پوری سچائی نہیں کیونکہ حالات اسے کہیں زیادہ بدتر ہیں ـ

دس دنوں میں، ملک کے مختلف حصوں میں، سینکڑوں عورتیں قتل ہو گئیں۔ سب کی کہانیاں الگ الگ دکھ سے بھری ہیں لیکن سچ ایک ہے : عورت کو مارنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ عورت ہے ـ

چونکہ وہ ایک ملکیت ہے، ایک شے…..جسے خریدنا، بیچنا، قابو رکھنا اور بوقتِ ضرورت ختم کرنا مرد کا پیدائشی حق مان لیا گیا ہے۔ اور جب تک اس سوچ کی بنیادیں نہیں ہلائی جاتیں، جب تک ریاست اس ظلم کے خلاف تن کر نہیں کھڑی ہوتی تب تک عورت قتل ہوتی رہے گی نام بدل بدل کر …… اور ہم صرف ان کے نام یاد رکھیں گے، ان کے زخم نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

بلوچستان دہرا قتل عورت کا قصور عورت ہونا قاتل بھائی قاتل شوہر کراچی کی شانتی

متعلقہ مضامین

  • نام ماں کا بھی
  • کیا یہ ہے وہ پاکستان
  • یہ غلط ہو رہا ہے
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • اک چادر میلی سی
  • رائے عامہ
  • سعودی عرب اور شام کے درمیان 24 ارب ریال کے سرمایہ کاری معاہدے، اقتصادی تعاون کے نئے دور کا آغاز
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟