Daily Ausaf:
2025-09-18@21:31:54 GMT

اللہ کی ناراضگی

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

گزشتہ پانچ ماہ سے اسلام آباد سمیت ملک کے بیشتر اضلاع شدید خشک سالی کا شکار ہیں۔ زمین پیاسی ہے، درخت مرجھا رہے ہیں، فصلیں سوکھ رہی ہیں، اور انسان و حیوان مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے پانی کی قلت، موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی بارشیں نہ ہونے کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ قدرتی آفات کے پیچھے ہمارے اعمال کا بھی کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بارش روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چرند پرند نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا‘‘۔ اس حدیث پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار قدرتی آفات کی صورت میں ہوتا ہے۔
جب بارش نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو کھلے میدان میں لے جاتے، سادہ لباس میں، عاجزی اور خشوع کے ساتھ۔ وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے، جس میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات عید کی نماز کی طرح زائد تکبیرات بھی کہتے، لیکن یہ لازم نہیں تھا۔نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حمد و ثنا کرتے اور پھر ہاتھ بلند کر کے بارش کے لیے دعا فرماتے۔ روایت میں آتا ہے کہ آپ نے دعا کے دوران ہتھیلیاں اوپر کی بجائے نیچے کی طرف کر لیں، جو عام دعا سے مختلف تھا۔ دعا طویل ہوتی اور اس میں گڑگڑا کر اللہ سے بارش کی درخواست کی جاتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم استغفار اور صدقے کی تاکید بھی فرماتے، کیونکہ گناہوں کی معافی اور خیرات بارش کے نزول کا سبب بنتے ہیں۔ ایک بار صحابہ نے بارش نہ ہونے کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، اور اسی وقت بارش شروع ہوگئی، جو مسلسل ایک ہفتے تک برستی رہی۔ پھر جب زیادہ بارش سے تکلیف ہوئی تو دعا فرمائی اور بارش تھم گئی۔
اگر آج ہم خشک سالی اور قحط جیسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے رویے، اخلاقی زوال، بددیانتی، جھوٹ، خیانت اور ظلم اس بات کا سبب بن رہے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہو جائے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں۔
سائنس کے مطابق فضائی آلودگی بھی بارشوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے شہروں میں دھوئیں اور آلودگی کی مقدار ناقابل برداشت ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف بارشیں کم ہو رہی ہیں بلکہ لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہے، جبکہ اسلام آباد، راولپنڈی،کراچی، ملتان، پشاور اور دیگر شہروں میں صنعتی دھواں، گاڑیوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات جلانے اور کوڑے کرکٹ کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ آلودگی سانس کی بیماریوں، آنکھوں میں جلن، دمہ، گلے کی تکلیف اور دیگر سنگین مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ یہ مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم نے قدرت کے اصولوں کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ قرآن و حدیث ہمیں واضح طور پر سکھاتے ہیں کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی کرتی ہے اور ظلم و فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کرتا ہے۔ ابن ماجہ میں روایت ہے کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالی ان سے بارش روک لیتا ہے۔
جب بارش نہ ہو، زمین سوکھ جائے، فصلیں تباہ ہونے لگیں، تو ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اسلام ہمیں نماز استسقا پڑھنے کا درس دیتا ہے، جو خاص طور پر ایسی صورتحال میں اللہ سے بارش کی دعا کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بارش نہ ہو تو نماز استسقا پڑھو اور صدقہ دو تاکہ اللہ تم پر اپنی رحمت نازل کرے۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ یعنی پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اگر یہ نعمت ہم سے روٹھ جائے تو ہمیں اللہ کی رحمت طلب کرنی چاہیے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس قدر شدید ماحولیاتی بحران اور بارشوں کی قلت کے باوجود نہ تو حکومت نے کوئی اجتماعی نماز استسقا کا اہتمام کیا اور نہ ہی مذہبی رہنمائوں نے حکومت کو اس طرف متوجہ کیا۔ دو ماہ پہلے صرف پنجاب اور اسلام آباد میں صرف ایک دن سرکاری طور پر نماز استسقا ادا کی گئی اور اسکے بعد اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
کیا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف سائنسی اقدامات اور حکومتی پالیسیاں ہی ان مسائل کا حل نہیں؟ جب تک ہم اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے، انفرادی و اجتماعی توبہ اور استغفار نہیں کریں گے، تب تک ان بحرانوں سے نجات ممکن نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ’ علی امین گنڈا پور، بلوچستان کے وزیر اعلی’ سرفراز بگٹی ، سندھ کے وزیر اعلیٰ اور دیگر حکام کو اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو اعتماد میں لے کر پورے ملک میں اجتماعی نماز استسقا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مساجد، مدارس، تعلیمی اداروں اور سرکاری سطح پر خصوصی دعائوں کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے تاکہ ہم اللہ کی رحمت کے مستحق بن سکیں۔ یہ نماز اور دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ بارش اللہ کی رحمت ہے، اور اگر کمی ہو تو ہمیں عاجزی سے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، استغفار کرنا چاہیے اور صدقہ دینا چاہیے تاکہ اللہ کی رحمت ہم پر نازل ہو۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رحمت اللہ تعالی کرنا چاہیے بارش نہ ہو وزیر اعلی کہ اللہ رہے ہیں کی طرف اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ تارا محمود نے اپنے والد کے سیاسی پس منظر کو چھپائے رکھنے کی وجہ پر سے پردہ اُٹھا دیا۔

حال ہی میں اداکارہ نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف امور پر کھل کر بات چیت کی۔

دورانِ انٹرویو انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے قریبی دوست احباب یہ جانتے تھے کہ میں شفقت محمود کی بیٹی ہوں اور ان کا سیاسی پس منظر کیا ہے لیکن کراچی میں یا انڈسٹری میں کسی نہیں ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شوبز میں کام شروع کیا تو مجھے کراچی آنا پڑا، اس دوران والد نے سیکیورٹی خدشات کے سبب مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ کسی کو بھی اس بارے میں نہ بتایا جائے۔ تاہم ڈرامہ سیریل چپکے چپکے کی شوٹنگ کے دوران سوشل میڈیا پر والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوگئیں۔

اداکارہ نے کہا کہ والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئیں تو تھوڑی خوفزدہ ہو گئی تھیں کیونکہ مجھے توجہ کا مرکز بننا نہیں پسند۔

انہوں نے بتایا کہ کوویڈ کے پہلے سال کے دوران وبائی مرض کے سبب اسکول بند کرنے پڑے تو بابا ہیرو بن گئے تھے لیکن جب انہوں نے دوسرے سال اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں کئی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔

تارا محمود نے چپکے چپکے کے سیٹ پر پیش آنے والا ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب یہ بات منظر عام پر آئی کہ میرے والد کون ہیں تو ایک دن میں شوٹ پر جاتے ہوئے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سیٹ پر پہنچی تو ہدایتکار دانش نواز مجھ سے مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود سیکیورٹی کیوں نہیں رکھتیں اور خود گاڑی کیوں چلاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے کبھی بھی اپنے والد کے اثر و رسوخ یا طاقت کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔

واضح رہے کہ تارا محمود کے والد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہنے والے شفقت محمود ہیں۔

انہیں طلبہ کے درمیان کوویڈ کے دوران امتحانات منسوخ کرنے اور تعلیمی ادارے بند کرنے کے سبب شہرت حاصل ہوئی۔

فلم میں رہے کہ شفقت محمود نے جولائی 2024 میں سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع
  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بند ہونا چاہیے‘، رانا ثنا اللہ نے ایسا کیوں کہا؟
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، محسن نقوی
  • خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا،معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود