Daily Ausaf:
2025-11-05@01:50:39 GMT

حکمرانوں کو کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ایک مشہور محاورہ ہے کہ ’’کفایت شعاری اوپر سے شروع ہوتی ہے‘‘ وطنِ عزیز میں اس محاورہ کے برعکس ہوتا نظر آرہا ہوتا ہے، حکمران سمیت اشرافیہ کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ ’’کفایت شعاری نیچے سے شروع کی جائے‘‘ وہ کچھ بھی کرتے رہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے۔
وطنِ عزیز کی یہ ستم ظریفی ہے کہ نواب زادہ خان لیاقت علی خان کے بعد ہمیں جتنے بھی حکمراں ملے ان میں سے کسی نے بھی کفایت شعاری کو اپنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے جیسے ملک آگے بڑھتا گیا ہمارے حکمرانوں کے انداز حکمرانی میں کفایت شعاری اور سادگی کی بجائے اصرافِ بے جا اور نمود و نمائش میں اضافہ ہوتا رہا اور ساتھ ہی ان کے اخراجات بھی آسماں سے باتیں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم، گورنر یا وزیرِ اعلیٰ جہاں سے ان کے قافلے کو گزرنا ہوتا ہے اس راستے پر کرفیو جیسا سماں ہوتا ہے سوائے پولیس و رینجرز کی نفری اور سرکاری گاڑیوں کے اور کچھ نہیں نظر آرہا ہوتا اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے رہمناؤں کو باہر کیا ہو رہا ہے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہوتا۔ کیا یہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اشخاص سے بھی نہیں پوچھتے کہ اس شہر کے عوام اچانک کہاں غائب ہوگئی ہے اور وہاں کی عوام کو ان کی اس نقل و حرکت سے کتنی تکالیف و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہنگامی صورتِ حال سے دو چار طبعی امداد کے لیے کئی افراد بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ اگر ہم اقوامِ عالم میں دیکھیں تو وہاں کے سربراہان جو ایک شہر سے دوسرے شہر یا اپنے ہی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو وہاں وطنِ عزیز جیسی کوئی صورتِ حال نظر نہیں آرہی ہوتی وہاں کے حکمران عام افراد کی طرح ہی اپنی نقل و حرکت جاری رکھتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات ضرور ہونے چاہیں اور مربوط انداز میں ہونے چاہیں لیکن ضرورت سے زیادہ اہتمام بھی مناسب نہیں۔
کئی ماہ سے پانی کی قلت اور تنازع کے بارے میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ عوام الناس کو روزمرہ کے استعمال اور ساتھ ہی پینے کے پانی کے حصول کے لیے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خصوصاً سندھ کے کئی شہر اس سے خاصے متاثر نظر آرہے ہیں جہاں پانی کی قلت شدد اختیار کر گئی ہے اور لمبی قطاریں بنی نظر آرہی ہوتی ہیں جس میں ہر عمر کے مرد، خواتین اور بچے برتن تھامے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وطنِ عزیز کے اشرافیہ، سیاست دان، صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِاعلیٰ سمیت تمام حکومتی عہد داران کی رہائش گاہیں و دفاتر کی طرف دیکھا جائے جہاں صبح و شام بڑی بڑی کیاریوں اور لان کو وافر مقدار پانی سے تر کیا جارہا ہوتا ہے۔ ان جگہوں میں رہائشی رقبہ تو مختصر ہوتا ہے لیکن غیراستعمال شدہ رقبہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہوتا ہے جس کو دیگر کسی مصرف میں لایا جاسکتا ہے۔ ان کیاریوں اور لانوں کو جس مقدر میں پانی استعمال کیا جاتا ہے اتنا پانی آدھے شہر کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ دراصل ہمارے حکمران سمیت عوام بھی بے حس ہوگئی ہے کہ کسی بھی چیز میں بھی اب برائی نظر نہیں آرہی ہوتی۔ عوام کو بنیادی سہولیات، صاف پانی، گیس، بجلی، صحت، طبعی سہولت ملے یا نہ ملے اس سے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں رہی۔
اصل میں یہ تمام چیزیں سوچنے کی ہیں لیکن ان پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب ہم کفایت شعاری اور سادگی کو اپنائیں، جس دن بھی حکمران اور سیاسی رہنما اپنے مفادات و عیاشیوں سے صرفِ نظر کرکے وطنِ عزیز کے ساتھ عوام کی بھلائی کے لیے سوچنے لگیں تو سمجھ لیں ان شاء اللہ اس دن سے وطن اور عوام کی حالت بدلنا شروع ہو جائے گی۔ دنیا سمیت پاکستان میں ایسے بے شمار شخصیات گزری ہیں جنہوں نے کفایت شعاری اور سادگی کو اپنا شعار بنایا انہیں الحمدللہ آج بھی عوام اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ملک کے سربراہ رہے ہیں، یہ لوگ حکمرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ کفایت شعاری اور سادگی کے حوالے سے یاد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی بنک میں کل رقم بتیس روپے تھی اور ان کی قمیص پیوند شدہ تھی۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو اپنی اچھی عادات کی وجہ سے آج بھی عوام الناس کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے بلاتفریق تمام سرکاری افسران کے لیے آٹھ سو سی سی کی گاڑی سے اوپر کی گاڑی استعمال کرنے پہ پابندی عائد کردی تھی اور خود بھی چھوٹی گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ آج ہمارے اربابِِ اختیار پرانی گاڑی کتنی بھی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اس میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر سال نئی ماڈل کی گاڑی انہیں درکار ہوتی ہے چاہے ان کے زیر استعمال گاڑی کتنی ہی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اور ہر سال ہی عوام کے ٹیکس سے اربوں روپوں کی نئی گاڑیوں کی خریداری کی جاتی ہے اور استعمال شدہ اچھی حالت کی گاڑیوں کو ضائع کردیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نئی رہائش گاہوں کی تعمیر کرائی جاتی ہیں یا نئے سرے سے تزئین و آرائش کے کام میں کرائے جارہے ہوتے ہیں اور ان سب عیاشیوں کا بوجھ وطنِ عزیز کے خزانہ اور عوام کے ناتواں کندھوں پر پڑتا ہے جبکہ وطنِ عزیز کی گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہوتا ہے ساتھ ہی کی گاڑی ہے اور کے لیے

پڑھیں:

بہت ہوگیا، اب افغان طالبان کی تجاویز نہیں حل چاہیے، جو ہم خود نکال لیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل اب بہت ہوگئی، ہمیں افغان طالبان کی تجاویز نہیں، مسائل کا حل چاہیے، جو ہم خود نکال لیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • لگتا ہے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان سے سبق نہیں سیکھا، کاشف شیخ
  • عمران خان نے اچکزئی کو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا اختیار دے دیا
  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان
  • ہر ڈس آنر چیک فوجداری جرم نہیں ہوتا جب تک بدنیتی ثابت نہ ہو، لاہور ہائیکورٹ
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر عوام کیلئے چالان نہیں انعام ہونا چاہیے، نبیل ظفر
  • بہت ہوگیا، اب افغان طالبان کی تجاویز نہیں حل چاہیے، جو ہم خود نکال لیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • کراچی میں ای چالان سسٹم پر نبیل ظفر کا تبصرہ: “چالان نہیں، عوام کو انعام ملنا چاہیے”
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر عوام کیلئے جرمانہ نہیں انعام ہونا چاہیے، نبیل ظفر
  • سہیل آفریدی کسی طور پر وزارتِ اعلیٰ کےاہل نہیں رہے، اختیار ولی