Daily Ausaf:
2025-06-12@03:44:14 GMT

حکمرانوں کو کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ایک مشہور محاورہ ہے کہ ’’کفایت شعاری اوپر سے شروع ہوتی ہے‘‘ وطنِ عزیز میں اس محاورہ کے برعکس ہوتا نظر آرہا ہوتا ہے، حکمران سمیت اشرافیہ کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ ’’کفایت شعاری نیچے سے شروع کی جائے‘‘ وہ کچھ بھی کرتے رہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے۔
وطنِ عزیز کی یہ ستم ظریفی ہے کہ نواب زادہ خان لیاقت علی خان کے بعد ہمیں جتنے بھی حکمراں ملے ان میں سے کسی نے بھی کفایت شعاری کو اپنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے جیسے ملک آگے بڑھتا گیا ہمارے حکمرانوں کے انداز حکمرانی میں کفایت شعاری اور سادگی کی بجائے اصرافِ بے جا اور نمود و نمائش میں اضافہ ہوتا رہا اور ساتھ ہی ان کے اخراجات بھی آسماں سے باتیں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم، گورنر یا وزیرِ اعلیٰ جہاں سے ان کے قافلے کو گزرنا ہوتا ہے اس راستے پر کرفیو جیسا سماں ہوتا ہے سوائے پولیس و رینجرز کی نفری اور سرکاری گاڑیوں کے اور کچھ نہیں نظر آرہا ہوتا اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے رہمناؤں کو باہر کیا ہو رہا ہے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہوتا۔ کیا یہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اشخاص سے بھی نہیں پوچھتے کہ اس شہر کے عوام اچانک کہاں غائب ہوگئی ہے اور وہاں کی عوام کو ان کی اس نقل و حرکت سے کتنی تکالیف و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہنگامی صورتِ حال سے دو چار طبعی امداد کے لیے کئی افراد بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ اگر ہم اقوامِ عالم میں دیکھیں تو وہاں کے سربراہان جو ایک شہر سے دوسرے شہر یا اپنے ہی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو وہاں وطنِ عزیز جیسی کوئی صورتِ حال نظر نہیں آرہی ہوتی وہاں کے حکمران عام افراد کی طرح ہی اپنی نقل و حرکت جاری رکھتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات ضرور ہونے چاہیں اور مربوط انداز میں ہونے چاہیں لیکن ضرورت سے زیادہ اہتمام بھی مناسب نہیں۔
کئی ماہ سے پانی کی قلت اور تنازع کے بارے میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ عوام الناس کو روزمرہ کے استعمال اور ساتھ ہی پینے کے پانی کے حصول کے لیے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خصوصاً سندھ کے کئی شہر اس سے خاصے متاثر نظر آرہے ہیں جہاں پانی کی قلت شدد اختیار کر گئی ہے اور لمبی قطاریں بنی نظر آرہی ہوتی ہیں جس میں ہر عمر کے مرد، خواتین اور بچے برتن تھامے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وطنِ عزیز کے اشرافیہ، سیاست دان، صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِاعلیٰ سمیت تمام حکومتی عہد داران کی رہائش گاہیں و دفاتر کی طرف دیکھا جائے جہاں صبح و شام بڑی بڑی کیاریوں اور لان کو وافر مقدار پانی سے تر کیا جارہا ہوتا ہے۔ ان جگہوں میں رہائشی رقبہ تو مختصر ہوتا ہے لیکن غیراستعمال شدہ رقبہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہوتا ہے جس کو دیگر کسی مصرف میں لایا جاسکتا ہے۔ ان کیاریوں اور لانوں کو جس مقدر میں پانی استعمال کیا جاتا ہے اتنا پانی آدھے شہر کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ دراصل ہمارے حکمران سمیت عوام بھی بے حس ہوگئی ہے کہ کسی بھی چیز میں بھی اب برائی نظر نہیں آرہی ہوتی۔ عوام کو بنیادی سہولیات، صاف پانی، گیس، بجلی، صحت، طبعی سہولت ملے یا نہ ملے اس سے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں رہی۔
اصل میں یہ تمام چیزیں سوچنے کی ہیں لیکن ان پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب ہم کفایت شعاری اور سادگی کو اپنائیں، جس دن بھی حکمران اور سیاسی رہنما اپنے مفادات و عیاشیوں سے صرفِ نظر کرکے وطنِ عزیز کے ساتھ عوام کی بھلائی کے لیے سوچنے لگیں تو سمجھ لیں ان شاء اللہ اس دن سے وطن اور عوام کی حالت بدلنا شروع ہو جائے گی۔ دنیا سمیت پاکستان میں ایسے بے شمار شخصیات گزری ہیں جنہوں نے کفایت شعاری اور سادگی کو اپنا شعار بنایا انہیں الحمدللہ آج بھی عوام اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ملک کے سربراہ رہے ہیں، یہ لوگ حکمرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ کفایت شعاری اور سادگی کے حوالے سے یاد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی بنک میں کل رقم بتیس روپے تھی اور ان کی قمیص پیوند شدہ تھی۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو اپنی اچھی عادات کی وجہ سے آج بھی عوام الناس کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے بلاتفریق تمام سرکاری افسران کے لیے آٹھ سو سی سی کی گاڑی سے اوپر کی گاڑی استعمال کرنے پہ پابندی عائد کردی تھی اور خود بھی چھوٹی گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ آج ہمارے اربابِِ اختیار پرانی گاڑی کتنی بھی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اس میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر سال نئی ماڈل کی گاڑی انہیں درکار ہوتی ہے چاہے ان کے زیر استعمال گاڑی کتنی ہی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اور ہر سال ہی عوام کے ٹیکس سے اربوں روپوں کی نئی گاڑیوں کی خریداری کی جاتی ہے اور استعمال شدہ اچھی حالت کی گاڑیوں کو ضائع کردیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نئی رہائش گاہوں کی تعمیر کرائی جاتی ہیں یا نئے سرے سے تزئین و آرائش کے کام میں کرائے جارہے ہوتے ہیں اور ان سب عیاشیوں کا بوجھ وطنِ عزیز کے خزانہ اور عوام کے ناتواں کندھوں پر پڑتا ہے جبکہ وطنِ عزیز کی گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہوتا ہے ساتھ ہی کی گاڑی ہے اور کے لیے

پڑھیں:

سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جون2025ء) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوٹیج کو درست طریقے سے تصدیق شدہ قرار دیا جائے تو وہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری(خاموش گواہ اصول) کے تحت بنیادی شہادت کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔صرف حالات و واقعات کی بنیاد پر سزا دینا قانوناً ممنوع نہیں لیکن ایسے شواہد ملزم کی بیگناہی سے مطابقت نہیں رکھنے چاہئیں اور ان شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے۔

جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اسے استعمال کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کی جس نے 20 مئی کو ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی، یاد رہے کہ نور مقدم کے 2021 کے اندوہناک قتل نے ملک بھر میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم عدالت میں ایک مایوس شخص کے طور پر سامنے آیا، جس پر بینچ کے کسی بھی رکن کو کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، تاہم بینچ کے رکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ جلد ہی اپنا اضافی نوٹ جاری کریں گے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پچھلے 25 سالوں میں تقریباً تمام ممالک میں ’سائلنٹ وٹنس تھیوری‘ (خاموش گواہ کا اصول) کو اپنایا گیا ہے، اس اصول کے تحت، اگر کسی تصویر یا ویڈیو کو اس طریقہ کار یا نظام کی درستگی سے ثابت کیا جا سکے جس کے ذریعے وہ بنائی گئی ہے، تو پھر وہ خود بخود ایک گواہ کے طور پر تسلیم کی جا سکتی ہے، یعنی یہ تصاویر یا ویڈیوز اپنی صداقت خود بیان کرتی ہیں۔

سائلنٹ وٹنس تھیوری ایک ایسا قانون ہے جو تصویر، ویڈیو یا دیگر ریکارڈ شدہ مواد کو اس بات کے پختہ ثبوت کے طور پر قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جس واقعے کو دکھا رہے ہیں، وہ حقیقت میں پیش آیا اور اس کے لیے کسی عینی شاہد کی گواہی درکار نہیں ہوتی کہ اس نے وہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔عدالت نے تسلیم کیا کہ کافی عرصے تک ملکی عدالتیں ڈیجیٹل شواہد کو بروئے کار نہ لا سکیں کیونکہ انہیں صرف سنی سنائی باتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، حالانکہ یہ شواہد صرف قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 164 کے تحت قابلِ قبول تھے۔

تاہم، مجرموں کی شناخت اور سراغ رسانی میں ڈیجیٹل شواہد کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بعض اہم قانونی تبدیلیاں کی گئیں تاکہ ان شواہد کو بنیادی شہادت کا درجہ دیا جا سکے۔عدالت نے فوٹیج کی شہادتی حیثیت کے حوالے سے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کی مثالیں بھی دی ہیں، ماضی قریب تک پاکستان میں اس قسم کے شواہد کو ثانوی یا سنی سنائی شہادت سمجھا جاتا تھا، لیکن مجرموں کی شناخت میں اس کی افادیت کے پیش نظر متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی گئی اور ڈیجیٹل شواہد کو بنیادی شہادت تسلیم کیا گیا۔

عدالت نے مزید وضاحت کی کہ یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ سزا محض حالات و واقعاتی شواہد کی بنیاد پر بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ سخت اصولوں اور معیارات پر پورا اتری.سپریم کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار (ملزم) نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ مقتولہ اس کے گھر پر کیوں موجود تھی اور اس کی لاش اسی جگہ سے کیوں برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ 27 سالہ لڑکی نور مقدم 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے انتہائی بے دردی سے قتل شدہ حالت میں ملی تھیں، ظاہر جعفر کو مرکزی ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا اور 24 فروری 2022 کو ٹرائل کورٹ نے اسے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔

عدالت نے اسے جنسی زیادتی کا بھی مجرم قرار دیتے ہوئے 25 سال قیدِ بامشقت اور 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے زیادتی کے جرم میں عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • بجٹ، ایک جائزہ
  • سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ
  • ثنا یوسف کا قتل ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیے،آصفہ زرداری
  • دیہات کی عید۔سادگی اور اپنائیت کا تہوار
  •  وزیراعظم پاکستان کو امریکی صدر ٹرمپ کو امن کا داعی نہیں قرار دینا چاہیے تھا، حبیب اللہ شاکر 
  • کیلیفورنیا عوام کی اکثریت آزادی چاہتی ہے، سروے رپورٹ
  • کیلیفورنیا عوام کی اکثریت آزادی چاہتی ہے، رپورٹ
  • والدین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اُن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اریج محی الدین
  • بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟