Daily Ausaf:
2025-09-18@17:11:49 GMT

حکمرانوں کو کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ایک مشہور محاورہ ہے کہ ’’کفایت شعاری اوپر سے شروع ہوتی ہے‘‘ وطنِ عزیز میں اس محاورہ کے برعکس ہوتا نظر آرہا ہوتا ہے، حکمران سمیت اشرافیہ کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ ’’کفایت شعاری نیچے سے شروع کی جائے‘‘ وہ کچھ بھی کرتے رہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے۔
وطنِ عزیز کی یہ ستم ظریفی ہے کہ نواب زادہ خان لیاقت علی خان کے بعد ہمیں جتنے بھی حکمراں ملے ان میں سے کسی نے بھی کفایت شعاری کو اپنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے جیسے ملک آگے بڑھتا گیا ہمارے حکمرانوں کے انداز حکمرانی میں کفایت شعاری اور سادگی کی بجائے اصرافِ بے جا اور نمود و نمائش میں اضافہ ہوتا رہا اور ساتھ ہی ان کے اخراجات بھی آسماں سے باتیں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم، گورنر یا وزیرِ اعلیٰ جہاں سے ان کے قافلے کو گزرنا ہوتا ہے اس راستے پر کرفیو جیسا سماں ہوتا ہے سوائے پولیس و رینجرز کی نفری اور سرکاری گاڑیوں کے اور کچھ نہیں نظر آرہا ہوتا اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے رہمناؤں کو باہر کیا ہو رہا ہے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہوتا۔ کیا یہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اشخاص سے بھی نہیں پوچھتے کہ اس شہر کے عوام اچانک کہاں غائب ہوگئی ہے اور وہاں کی عوام کو ان کی اس نقل و حرکت سے کتنی تکالیف و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہنگامی صورتِ حال سے دو چار طبعی امداد کے لیے کئی افراد بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ اگر ہم اقوامِ عالم میں دیکھیں تو وہاں کے سربراہان جو ایک شہر سے دوسرے شہر یا اپنے ہی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو وہاں وطنِ عزیز جیسی کوئی صورتِ حال نظر نہیں آرہی ہوتی وہاں کے حکمران عام افراد کی طرح ہی اپنی نقل و حرکت جاری رکھتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات ضرور ہونے چاہیں اور مربوط انداز میں ہونے چاہیں لیکن ضرورت سے زیادہ اہتمام بھی مناسب نہیں۔
کئی ماہ سے پانی کی قلت اور تنازع کے بارے میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ عوام الناس کو روزمرہ کے استعمال اور ساتھ ہی پینے کے پانی کے حصول کے لیے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خصوصاً سندھ کے کئی شہر اس سے خاصے متاثر نظر آرہے ہیں جہاں پانی کی قلت شدد اختیار کر گئی ہے اور لمبی قطاریں بنی نظر آرہی ہوتی ہیں جس میں ہر عمر کے مرد، خواتین اور بچے برتن تھامے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وطنِ عزیز کے اشرافیہ، سیاست دان، صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِاعلیٰ سمیت تمام حکومتی عہد داران کی رہائش گاہیں و دفاتر کی طرف دیکھا جائے جہاں صبح و شام بڑی بڑی کیاریوں اور لان کو وافر مقدار پانی سے تر کیا جارہا ہوتا ہے۔ ان جگہوں میں رہائشی رقبہ تو مختصر ہوتا ہے لیکن غیراستعمال شدہ رقبہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہوتا ہے جس کو دیگر کسی مصرف میں لایا جاسکتا ہے۔ ان کیاریوں اور لانوں کو جس مقدر میں پانی استعمال کیا جاتا ہے اتنا پانی آدھے شہر کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ دراصل ہمارے حکمران سمیت عوام بھی بے حس ہوگئی ہے کہ کسی بھی چیز میں بھی اب برائی نظر نہیں آرہی ہوتی۔ عوام کو بنیادی سہولیات، صاف پانی، گیس، بجلی، صحت، طبعی سہولت ملے یا نہ ملے اس سے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں رہی۔
اصل میں یہ تمام چیزیں سوچنے کی ہیں لیکن ان پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب ہم کفایت شعاری اور سادگی کو اپنائیں، جس دن بھی حکمران اور سیاسی رہنما اپنے مفادات و عیاشیوں سے صرفِ نظر کرکے وطنِ عزیز کے ساتھ عوام کی بھلائی کے لیے سوچنے لگیں تو سمجھ لیں ان شاء اللہ اس دن سے وطن اور عوام کی حالت بدلنا شروع ہو جائے گی۔ دنیا سمیت پاکستان میں ایسے بے شمار شخصیات گزری ہیں جنہوں نے کفایت شعاری اور سادگی کو اپنا شعار بنایا انہیں الحمدللہ آج بھی عوام اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ملک کے سربراہ رہے ہیں، یہ لوگ حکمرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ کفایت شعاری اور سادگی کے حوالے سے یاد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی بنک میں کل رقم بتیس روپے تھی اور ان کی قمیص پیوند شدہ تھی۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو اپنی اچھی عادات کی وجہ سے آج بھی عوام الناس کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے بلاتفریق تمام سرکاری افسران کے لیے آٹھ سو سی سی کی گاڑی سے اوپر کی گاڑی استعمال کرنے پہ پابندی عائد کردی تھی اور خود بھی چھوٹی گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ آج ہمارے اربابِِ اختیار پرانی گاڑی کتنی بھی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اس میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر سال نئی ماڈل کی گاڑی انہیں درکار ہوتی ہے چاہے ان کے زیر استعمال گاڑی کتنی ہی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اور ہر سال ہی عوام کے ٹیکس سے اربوں روپوں کی نئی گاڑیوں کی خریداری کی جاتی ہے اور استعمال شدہ اچھی حالت کی گاڑیوں کو ضائع کردیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نئی رہائش گاہوں کی تعمیر کرائی جاتی ہیں یا نئے سرے سے تزئین و آرائش کے کام میں کرائے جارہے ہوتے ہیں اور ان سب عیاشیوں کا بوجھ وطنِ عزیز کے خزانہ اور عوام کے ناتواں کندھوں پر پڑتا ہے جبکہ وطنِ عزیز کی گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہوتا ہے ساتھ ہی کی گاڑی ہے اور کے لیے

پڑھیں:

قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیرِ دفاع خواجہ آصف

وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا، مسلم ممالک کو نیٹو کے طرز پر اتحاد بنانا چاہیے، مجھے مسلم ممالک کے اجلاس میں مایوسی نہیں ہوئی۔

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معرکۂ حق میں تو ہم نے ثابت کر دیا کہ بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

قطر پر اسرائیلی حملہ: نیتن یاہو نے ٹرمپ کو پہلے سے آگاہ کیا یا نہیں؟ تضاد سامنے آ گیا

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات میں تضاد سامنے آ گیا ہے کہ آیا قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے سے متعلق واشنگٹن کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی یا نہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، اسے سوڈان سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ حماس کی قیادت امریکا کی مرضی سے قطر میں بیٹھی تھی، غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے یہ سب کچھ امریکا کی مرضی کے ساتھ ہوا ہے، مسلم دنیا کو سمجھنا چاہیے اور اپنے دوست نما دشمن میں تفریق کر لیں، بڑا واقعہ ہے کچھ وقت لگے گا لیکن کچھ نہ کچھ ہو گا۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ شام میں امریکا کی مرضی سے حکومت آئی ہے، اسرائیل اس پر بھی حملے سے باز نہیں آ رہا، امریکا اور مغرب میں جو رائے عامہ بن رہی ہے یہ اسرائیل کے لیے زیادہ خطرناک ہے، امریکا اور باقی دنیا میں رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نااہل حکمرانوں نے کراچی کو کچرا کنڈی بنا دیا ہے، فہیم خان
  • اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے. جسٹس حسن اظہر رضوی
  • ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع
  • اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے، جج سپریم کورٹ
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • سیلاب سے تقریباً 3 ملین لوگ متاثر ہیں، پاکستان کو مقامی وسائل کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ سے مدد کی اپیل کرنی چاہیے، سینیٹر شیری رحمان
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیرِ دفاع خواجہ آصف
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے دہی کھانے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟