حکمرانوں کو کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
ایک مشہور محاورہ ہے کہ ’’کفایت شعاری اوپر سے شروع ہوتی ہے‘‘ وطنِ عزیز میں اس محاورہ کے برعکس ہوتا نظر آرہا ہوتا ہے، حکمران سمیت اشرافیہ کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ ’’کفایت شعاری نیچے سے شروع کی جائے‘‘ وہ کچھ بھی کرتے رہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے۔
وطنِ عزیز کی یہ ستم ظریفی ہے کہ نواب زادہ خان لیاقت علی خان کے بعد ہمیں جتنے بھی حکمراں ملے ان میں سے کسی نے بھی کفایت شعاری کو اپنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے جیسے ملک آگے بڑھتا گیا ہمارے حکمرانوں کے انداز حکمرانی میں کفایت شعاری اور سادگی کی بجائے اصرافِ بے جا اور نمود و نمائش میں اضافہ ہوتا رہا اور ساتھ ہی ان کے اخراجات بھی آسماں سے باتیں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم، گورنر یا وزیرِ اعلیٰ جہاں سے ان کے قافلے کو گزرنا ہوتا ہے اس راستے پر کرفیو جیسا سماں ہوتا ہے سوائے پولیس و رینجرز کی نفری اور سرکاری گاڑیوں کے اور کچھ نہیں نظر آرہا ہوتا اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے رہمناؤں کو باہر کیا ہو رہا ہے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہوتا۔ کیا یہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اشخاص سے بھی نہیں پوچھتے کہ اس شہر کے عوام اچانک کہاں غائب ہوگئی ہے اور وہاں کی عوام کو ان کی اس نقل و حرکت سے کتنی تکالیف و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہنگامی صورتِ حال سے دو چار طبعی امداد کے لیے کئی افراد بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ اگر ہم اقوامِ عالم میں دیکھیں تو وہاں کے سربراہان جو ایک شہر سے دوسرے شہر یا اپنے ہی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو وہاں وطنِ عزیز جیسی کوئی صورتِ حال نظر نہیں آرہی ہوتی وہاں کے حکمران عام افراد کی طرح ہی اپنی نقل و حرکت جاری رکھتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات ضرور ہونے چاہیں اور مربوط انداز میں ہونے چاہیں لیکن ضرورت سے زیادہ اہتمام بھی مناسب نہیں۔
کئی ماہ سے پانی کی قلت اور تنازع کے بارے میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ عوام الناس کو روزمرہ کے استعمال اور ساتھ ہی پینے کے پانی کے حصول کے لیے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خصوصاً سندھ کے کئی شہر اس سے خاصے متاثر نظر آرہے ہیں جہاں پانی کی قلت شدد اختیار کر گئی ہے اور لمبی قطاریں بنی نظر آرہی ہوتی ہیں جس میں ہر عمر کے مرد، خواتین اور بچے برتن تھامے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وطنِ عزیز کے اشرافیہ، سیاست دان، صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِاعلیٰ سمیت تمام حکومتی عہد داران کی رہائش گاہیں و دفاتر کی طرف دیکھا جائے جہاں صبح و شام بڑی بڑی کیاریوں اور لان کو وافر مقدار پانی سے تر کیا جارہا ہوتا ہے۔ ان جگہوں میں رہائشی رقبہ تو مختصر ہوتا ہے لیکن غیراستعمال شدہ رقبہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہوتا ہے جس کو دیگر کسی مصرف میں لایا جاسکتا ہے۔ ان کیاریوں اور لانوں کو جس مقدر میں پانی استعمال کیا جاتا ہے اتنا پانی آدھے شہر کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ دراصل ہمارے حکمران سمیت عوام بھی بے حس ہوگئی ہے کہ کسی بھی چیز میں بھی اب برائی نظر نہیں آرہی ہوتی۔ عوام کو بنیادی سہولیات، صاف پانی، گیس، بجلی، صحت، طبعی سہولت ملے یا نہ ملے اس سے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں رہی۔
اصل میں یہ تمام چیزیں سوچنے کی ہیں لیکن ان پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب ہم کفایت شعاری اور سادگی کو اپنائیں، جس دن بھی حکمران اور سیاسی رہنما اپنے مفادات و عیاشیوں سے صرفِ نظر کرکے وطنِ عزیز کے ساتھ عوام کی بھلائی کے لیے سوچنے لگیں تو سمجھ لیں ان شاء اللہ اس دن سے وطن اور عوام کی حالت بدلنا شروع ہو جائے گی۔ دنیا سمیت پاکستان میں ایسے بے شمار شخصیات گزری ہیں جنہوں نے کفایت شعاری اور سادگی کو اپنا شعار بنایا انہیں الحمدللہ آج بھی عوام اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ملک کے سربراہ رہے ہیں، یہ لوگ حکمرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ کفایت شعاری اور سادگی کے حوالے سے یاد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی بنک میں کل رقم بتیس روپے تھی اور ان کی قمیص پیوند شدہ تھی۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو اپنی اچھی عادات کی وجہ سے آج بھی عوام الناس کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے بلاتفریق تمام سرکاری افسران کے لیے آٹھ سو سی سی کی گاڑی سے اوپر کی گاڑی استعمال کرنے پہ پابندی عائد کردی تھی اور خود بھی چھوٹی گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ آج ہمارے اربابِِ اختیار پرانی گاڑی کتنی بھی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اس میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر سال نئی ماڈل کی گاڑی انہیں درکار ہوتی ہے چاہے ان کے زیر استعمال گاڑی کتنی ہی اچھی حالت میں کیوں نہ ہو اور ہر سال ہی عوام کے ٹیکس سے اربوں روپوں کی نئی گاڑیوں کی خریداری کی جاتی ہے اور استعمال شدہ اچھی حالت کی گاڑیوں کو ضائع کردیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نئی رہائش گاہوں کی تعمیر کرائی جاتی ہیں یا نئے سرے سے تزئین و آرائش کے کام میں کرائے جارہے ہوتے ہیں اور ان سب عیاشیوں کا بوجھ وطنِ عزیز کے خزانہ اور عوام کے ناتواں کندھوں پر پڑتا ہے جبکہ وطنِ عزیز کی گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوتا ہے ساتھ ہی کی گاڑی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
بھارت از خود انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل یا منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ،ماہرین
بھارت از خود انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل یا منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ،ماہرین WhatsAppFacebookTwitter 0 23 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی بلاشبہ بھارت کے جارحیت اور انتہا پسندی کی نشاندہی کرتی ہے،مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا۔ انڈس واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت یافتہ معاہدہ ہے اگر بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرتا ہے تو پھر ان تمام معاہدوں پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے جو دیگر ممالک کے ساتھ کئے گئے ہیں ۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک بھی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت یکطرفہ طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کو منسوخ یا معطل کرسکتا ہے۔؟معاہدے کے تحت بھارت از خود انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوئی قانونی اہلیت نہیں رکھتا۔ معاہدے کا آرٹیکل 12(4) صرف اس صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا حق دیتا ہے جب بھارت اور پاکستان دونوں تحریری طور پر راضی ہوں۔ دوسرے لفظوں میں، انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کرنے کے لیے دونوں ریاستوں کی طرف سے ایک برطرفی کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنا ہوگا اور پھر دونوں کی طرف سے اس کی توثیق کرنی ہوگی۔ اس معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق نہیں ہے۔ یہ ایک غیر معینہ مدت کا ہے اور اس کا مقصد کبھی بھی وقت کے ساتھ مخصوص یا واقعہ سے متعلق نہیں ہے۔
یہ دونوں ممالک انڈس واٹر ٹریٹی کے یکساں طور پر پابند ہیں ۔ کسی معاہدے سے ہٹنا دراصل اس کی خلاف ورزی ہے۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر تنسیخ، معطلی، واپس لینے یا منسوخ وغیرہ جیسے جواز پیش کرکے معاہدے کی پیروی کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں پانی کے بہا میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جسے بھارت منسوخ یا دستبرداری کہے گا، پاکستان اسے خلاف ورزی سے تعبیر کرے گا۔سوال یہ بھی کہ کیا ہوگا اگر بھارت پاکستانی پانی کو نیچے کی طرف روکتا ہے اور کیا یہ چین کے لیے اوپر کی طرف کوئی مثال قائم کر سکتا ہے؟ اگر بھارت پاکستانی دریاں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نہ صرف بین الاقوامی آبی قانون کی خلاف ورزی ہوگی، بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرے گا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق، بالا دستی والا ملک (جیسے بھارت)زیریں ملک (جیسے پاکستان)کے پانی کو روکنے کا حق نہیں رکھتا، چاہے سندھ طاس معاہدہ موجود ہو یا نہ ہو۔
اگر بھارت ایسا قدم اٹھاتا ہے تو یہ علاقائی سطح پر ایک نیا طرزِ عمل قائم کرے گا، جو بین الاقوامی قانون میں ایک مثال کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا فائدہ چین اٹھا سکتا ہے، جو دریائے برہمپترا کے پانی کو روکنے کے لیے اسی بھارتی طرزِ عمل کو بنیاد بنا سکتا ہے۔ اس طرح بھارت کا یہ قدم نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ خود بھارت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ چین جیسی طاقتیں اس صورتحال کو بغور دیکھ رہی ہوں گی۔
سندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں طے پایا، اپنی نوعیت میں ایک مضبوط اور دیرپا معاہدہ ہے جس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ معطلی یا خاتمے کی شق شامل نہیں، بلکہ اس میں ترمیم صرف دونوں فریقین کی باہمی رضامندی اور باقاعدہ توثیق شدہ معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ۔ بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل کرنا نہ صرف اس کے طے شدہ طریقہ کار، جیسے مستقل انڈس کمیشن، غیر جانبدار ماہرین یا ثالثی عدالت کے ذریعے تنازع کے حل، کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ معاہدے کی روح کے بھی منافی ہے۔ یہ معاہدہ ماضی میں کئی جنگوں اور سیاسی کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا ہے، جو اس کی قانونی اور اخلاقی طاقت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد، شادی کی تقریب میں شرکت کے بہانے بلاکر بندوق کی نوک پر خواجہ سرا کا گینگ ریپ اسلام آباد، شادی کی تقریب میں شرکت کے بہانے بلاکر بندوق کی نوک پر خواجہ سرا کا گینگ ریپ حکومت کا مزید ایک ہزار یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ بار کا تمام بھارتی سفارتکاروں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا مطالبہ بھارتی اقدامات کے بعد قومی سلامتی کونسل کا اجلاس کل طلب کرلیا کلبھوشن جیسا ایک اور بندہ پاکستان نے ایران افغان سرحد پر پکڑا ہے،خواجہ آصف کا انکشاف پہلگام واقعہ، بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل ، اٹاری چیک پوسٹ بند کرنے کا اعلان،پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم