Nawaiwaqt:
2025-08-17@08:11:50 GMT

سپریم کورٹ ، 6مستقل جج تعینات کرنیکی منظوری 

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

سپریم کورٹ ، 6مستقل جج تعینات کرنیکی منظوری 

اسلام آباد (اعظم گِل/ خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار) جوڈیشل کمشن نے سپریم کورٹ میں 6 مستقل اور ایک قائم مقام جج کی تعیناتی کی منظوری دیدی ہے۔ جوڈیشل کمشن اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا کہ اجلاس میں 6 ججز کی بطور سپریم کورٹ جج تقرری کی منظوری دی گئی۔ اجلاس چیف جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں ہوا۔ کمیشن نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق‘ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ شفیع صدیقی،  بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم، سندھ ہائیکورٹ کے جج صلاح الدین پنور اور پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد کی سپریم کورٹ جج کی منظوری دی گئی ہے۔ اعلامیے کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں قائم مقام جج لگانے کی منظوری دی گئی۔ ذرائع کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کا عارضی جج تعیناتی کی منظوری دی گئی، ان کی تقرری ایک سال کے لیے کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں ٹیکس مقدمات کے بڑھتے بوجھ کی وجہ سے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی تعیناتی آرٹیکل 181 کے تحت کی گئی ہے۔قائم مقام جج بننے کے بعد جسٹس گل حسن اورنگزیب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ قائم مقام جج کی تعیناتی مخصوص مدت کیلئے ہوتی ہے کوئی آئینی مدت مقرر نہیں  ہے، آئین کے مطابق صدر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی بطور عارضی جج تعیناتی کریں گے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں ججز تعینات کرنے کا معاملہ موخر کردیا گیا۔ چیف جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمشن کے اجلاس کا جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر‘ بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارا اعتراض تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک اجلاس مؤخر کیا جائے۔ اس اعتراض پر ووٹنگ ہوئی اور اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ اجلاس جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 2 جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ واضح رہے کہ 6 نئے مستقل ججز کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں اب مستقل ججز کی تعداد 22 جبکہ قائم مقام ایک اور دو ایڈہاک ججز ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحق خان سے عدالت کے قانونی امور کی ذمہ داری واپس لے لی گئی اور ان کی جگہ ایڈیشنل جج جسٹس راجا انعام کو قانونی امور کا جج مقرر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری سے ڈپٹی رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے مطابق جسٹس راجا انعام امین اسلام آباد ہائی کورٹ کے قانونی ونگ کے امور کو سپروائز کریں گے۔ جسٹس راجا انعام امین منہاس کو عوامی مفاد میں فوری طور پر قانونی امور کا جج مقرر کیا جاتا ہے۔ 2022 ء میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحق کو قانونی ونگ کو سپروائز کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ 7 فروری 2025  کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کو خط لکھ کر کہا تھا کہ 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔ 26ویں آئینی ترمیم اور جوڈیشل کمشن کے اجلاس کے خلاف وکلاء ایکشن کمیٹی نے احتجاج کے دوران اسلام آباد کے سرینا چوک سے سپریم کورٹ جانے کی کوشش کی تو وکلاء اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ پولیس نے احتجاجی وکلاء پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ وکلاء نے احتجاج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب مارچ کا آغاز کیا۔ اس دوران انتظامیہ نے سرینا چوک کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا تھا۔ انتظامیہ نے ریڈ زون کو بھی مکمل سیل  رکھا۔ وکلاء اس وقت ڈی چوک پہنچ گئے  جہاں انہوں نے دھرنا دے دیا۔ پولیس اور وکلاء کے درمیان جھڑپ کے بعد احتجاجی وکلاء منتشر ہوگئے اور سری نگر ہائی وے پر دھرنا دے دیا اور مری جانے والی سڑک کو بند کر دیا، تاہم مری سے آنے والی سڑک پر ٹریفک رواں دواں رہی۔ انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد کے ریڈ زون کے تمام راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی اور تمام گیٹ بند کر دیے گئے تھے۔  اسی وجہ سے شہریوں کو آمد و رفت میں شدید پریشانی کا بھی سامنا رہا۔ اسلام آباد پولیس کی پیش قدمی پر وکلاء ایکشن کمیٹی نے سری نگر ہائی وے بھی خالی کر دیا۔ وکلاء سری نگر ہائی وے خالی کر کے ایک بار پھر سرینا چوک روڈ پر پہنچ گئے، پولیس اور وکلاء میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔ بعد ازاں وکلاء ایکشن کمیٹی کی احتجاجی ریلی ڈی چوک پہنچ گئی، وکلاء نے ڈی چوک پر احتجاجی دھرنا دیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی منظوری دی گئی سپریم کورٹ میں باد ہائی کورٹ جوڈیشل کمشن اسلام ا باد اسلام آباد کی تعیناتی اور جسٹس کے مطابق چیف جسٹس کورٹ کے کر دیا

پڑھیں:

نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلے میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے سدباب کیلیے نظام انصاف میں جدت لانے اور منصوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر زور دیا ہے،یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے بینچ کا ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

18جولائی کی عدالتی کارروائی کا 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جو 28دن بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر پبلک ہوا ہے غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی سے متعلق اپیل کا ہے۔عدم پیروی پر اپیل کو مسترد کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ انصاف میں تاخیر محض انصاف سے انکار نہیں بلکہ اکثر اوقات انصاف کے خاتمے کے مترادف ہوتی ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر عوام کے عدلیہ کے عوام پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے،قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے،کمزور اور پسماندہ طبقات کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل عدالتی کارروائی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔

یہ سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو غیر حقیقی بناتی ہے اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے،اس وقت پاکستان بھرکی عدالتوں میں 22لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے تقریباً 55ہزار 9سو 41مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ عدالت کو بطور ادارہ جاتی پالیسی اور آئینی ذمہ داری فوری طور پر ایک جدید، جواب دہ اور سمارٹ کیس مینجمنٹ نظام کی طرف منتقل ہونا ہوگا ۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ جج کیلئے 2 گاڑیاں، 2 ڈرائیور، 600 لیٹر پٹرول ماہانہ
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا آئندہ 2 ہفتوں کا ججز ڈیوٹی روسٹر جاری
  • نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے: سپریم کورٹ
  • سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف الیکشن کمشنر اور 2 ارکان کیخلاف شکایات خارج کر دیں
  • نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ میں 1980 کی جگہ 2025کے رولز باقاعدہ لاگو 
  • سپریم کورٹ: 1980 کے رولز کی جگہ 2025 کے نئے رولز نافذ کردیے گئے
  • چیف جسٹس پاکستان کا جسٹس منصور کو بھیجا گیا جوابی خط پہلی بار منظر عام پر
  • سپریم کورٹ میں 1980ء کی جگہ 2025ء کے رولز باقاعدہ لاگو
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس پر سپریم کورٹ ججز کی رائے اور اجلاسوں کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں