لیبیا کشتی واقعے پر وزیراعظم کا اظہار افسوس، ایک بار پھر انسانی اسمگلرز کیخلاف کارروائی کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے گزشتہ روز لیبیا میں کشتی ڈوبنے کے واقعے کی مزمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لیے دعا اور لواحقین سے اظہار تعزیت کی جبکہ متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔
شہباز شریف نے اپنے بیان میں وزارت خارجہ کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ واقعے میں جاں بحق پاکستانیوں کی شناخت جلد مکمل کرکے رپورٹ پیش کریں۔
مزید پڑھیں: لیبیا میں 65 مسافروں سے بھری کشتی الٹ گئی، پاکستانی بھی سوار تھے، ترجمان دفتر خارجہ
وزیراعظم نے حکام کو ہدایت جاری کی کہ متاثرہ افراد کو ہر ممکن امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
اپنے بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ جیسے مکروہ کام میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لیبیا کے ساحل کے قریب بحری حادثہ پیش آیا جس میں 65 مسافروں سے بھری کشتی الٹ گئی۔ پاکستانی سفارتخانے کے مطابق حادثے میں پاکستانی شہری بھی متاثر ہوئے ہیں تاہم ابھی تک تعداد کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کی جاسکی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق حادثہ لیبیا کے شہر زوایہ کے شمال مغرب میں مرسا ڈیلا کے قریب پیش آیا۔
مزید پڑھیں: انسانی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن: ایف آئی اے کے 13 اہلکار برطرف، اہم گرفتاریاں
یہ بات یاد رہے کہ یہ پہلا کشتی واقعہ نہیں جس میں پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بلکہ گزشتہ ڈیرھ سال میں لیبیا، مراکش اور یونان میں متعدد واقعات ہوچکے ہیں جس میں اب تک 500 سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے۔
اس دوران حکومت کی جانب سے کئی کارروائیاں بھی عمل میں آئیں جن میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور ایف آئی اے کے کئی ملازمین بھی برطرف ہوئے مگر یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔