مہنگی ملک بدری یا سیاسی پیغام؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو شہر سے بغیردستاویزات والے تارکین وطن کو حراست میں لینے اورملک بدرکرنے کاآغازکیا اور اس کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔گزشتہ ہفتے کے آخر تک اسی قسم کی کارروائیاں اٹلانٹا، ڈینور، میامی اورسان انتونیومیں بھی شروع ہوگئیں لیکن کسی شہرکااپنے آپ کو’’پناہ گاہ‘‘کہنے کامطلب کیا ہے اوریہ بغیردستاویزات والے تارکین وطن کوکیسے فائدہ پہنچا سکتاہے؟
ان شہروں میں استعمال’’پناہ گاہ‘‘کی اصطلاح عہدوسطیٰ سے لی گئی ہے۔اس زمانے میں سرائے اورخانقاہیں یاموناسٹریزہوتی تھیں جو مسافروں کیلئے ایک پناہ گاہ یاتحفظ فراہم کرنے کاکام کرتی تھیں۔وہ ایسے لوگوں کوپناہ دیتی تھیں جو خود کو مجرموں سے بچانا چاہتے تھے یاپھران غلاموں کی پناہ دی جاتی تھی جوظلم ستم کاشکارتھے لیکن امریکامیں اس کااستعمال 20ویں صدی کے آخرمیں ہونا شروع ہوا۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی میں امیگریشن لیبارٹری اورسینٹرفارلیٹن امریکن سٹڈیز کے ڈائریکٹرارنیسٹوکاستانیدانے کے مطابق 1980ء اور1990ء کی دہائیوں میں اسے روایت کوکچھ مذہبی اراکین اورسماجی کارکنوں نے زندہ کیاجنہوں نے ایل سلواڈور یا گوئٹے مالاسے آنے والے تارکین وطن کوآمرانہ حکومتوں سے بچنے اورامریکا میں داخل ہونے اور لاس اینجلس،سان فرانسسکویا واشنگٹن جیسے شہروں میں محفوظ کمیونٹیز میں رہنے میں مددکی۔اس زمانے میں جاری تارکین وطن کے حقوق کی تحریک،جوفرانس اوردیگر ممالک میں ہونے والی جدوجہدسے متاثر تھی،کے کچھ کارکنوں نے امریکا میں ان شہروں کاپناہ گاہ کے طورپرحوالہ دینا شروع کیاجہاں بغیر دستاویزات والے افرادکی بڑی آبادی تھی۔ دراصل یہ ایک علامتی اعلان ہے۔ اس کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے،کوئی وفاقی ’’سین کچوئری‘‘ (پناہ گاہ)کاقانون نہیں ہے جویہ کہے کہ کیا قانونی ہے،کیاغیرقانونی ہے لیکن یہ وہ شہر ہیں جہاں غیرملکیوں،اقلیتوں اور بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کیلئے رواداری دیکھی جاتی ہے۔
بہرحال سوشل میڈیا پراس حوالے سے گرماگرم بحث جاری ہے اور’’سی 17‘‘ ٹرینڈ کررہاہے جس کے تحت طرح طرح کے میمزبھی شیئرکیے جارہے ہیں۔جبکہ انڈیاکے اس حلقے کو بھی نشانہ بنایاجارہا ہے جوٹرمپ کی حمایت میں اوران کی جیت کیلئے انڈیامیں پوجا پاٹ کروارہے تھے اوران کی جیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ انڈین میڈیامیں یہ بھی رپورٹ ہورہاہے کہ’’امریکا ملک بدری کیلئے ’’سی17‘‘فوجی طیارے استعمال کر رہا ہے حالانکہ یہ کام سستے سویلین طیاروں کے ذریعے بھی کیاجاسکتاتھا۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا اس ملک کودھمکانہ اورفوجی طاقت کاپیغام دینا چاہتا ہے جہاں وہ غیرقانونی تارکین وطن کوبھیج رہاہے‘‘۔
ایک صارف نے کپل سبل کے ٹویٹ کے جواب میں لکھاکہ’’ہتھکڑیوں میں؟یہ انتہائی ناانصافی ہے‘‘ ۔ وزارت خارجہ اورجے شنکرنے گزشتہ ہفتے امریکا کے دورے کے دوران اس عمل پر اتفاق کیاہوگا۔اس کا انڈین عوام پراچھااثرنہیں ہوگا۔’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کاکہنا ہے کہ فوجی طیاروں کے ذریعے ملک بدرکیے گئے غیرملکی تارکین وطن کوان کے ممالک بھیجناعلامتی ہے لیکن ٹرمپ نے اکثر غیرقانونی تارکین وطن کو ’’ایلین‘‘ اور ’’مجرم‘‘ قراردیاہے اوروہ انہیں’’امریکاپرحملہ کرنے والے‘‘ کہتے ہیں،ان الفاظ پرغورکرناہوگا۔
ماضی میں جوکچھ ہواہے ابھی تک اس سے بہت مختلف پیمانے پرکچھ بھی نہیں ہواہے یہاں تک کہ وائٹ ہاس میں ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دور میں بھی۔نقل مکانی کے ماہرکہتے ہیں کہ ’’جوبائیڈن اور اوباماسمیت ہردورمیں ملک بدریاں ہوئی ہیں، جو بڑے پیمانے پرتھیں لیکن ان روزمرہ جلاوطنیوں کی میڈیاکوریج کم تھی اورفی الحال تعداد ویسی ہی ہے لیکن کیاہو رہاہے اوریہ کیسے ہورہاہے اس طرح کی باتوں پربہت زیادہ عوامی توجہ ہے لیکن ایسالگتاہے کہ وہ(ٹرمپ)زیادہ جارحیت کے ساتھ،تیزرفتاری سے اوربڑے پیمانے پرکچھ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکاغیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کیلئے عموماکمرشل طیارے استعمال کرتاہے اوریہ طیارے امریکی کسٹمز اینڈامیگریشن انفورسمنٹ(آئی سی ای)کی نگرانی میں روانہ کیے جاتے ہیں۔امریکاسے ملک بدری کاعمل برسوں سے جاری ہے لیکن ماہرین کا کہناہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہازکے ذریعے کیاجارہاہے تواس کانوٹس لیاجا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔ (جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: والے تارکین وطن تارکین وطن کو پناہ گاہ ملک بدری ہے لیکن ہے اور
پڑھیں:
اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جولائی 2025ء ) عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعطم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ کرپشن انتہا کو پہنچ گئی۔ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال گزرنے کے بعد اب نو مئی کے فیصلے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ اس طرح کے فیصلے پہلے بھی اس ملک میں آئے، نہ انہیں سیاستدان قبول کرتے ہیں اور نہ ہی قانون دان مانتے ہین، نو مئی بڑا واقعہ ہے لیکن جب دو سال گزر جائیں تو کوئی فیصلے قبول نہیں کرے گا، جس ملک کا چیف جسٹس آئینی درخواست سُن ہی نہ سکتا ہو تو وہاں پر پھر کون سا انصاف رہ گیا ہے؟ اور جس ملک میں قانون نہ ہو وہ نہیں چلتا یہ تاریخ کا سبق ہے۔(جاری ہے)
سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ بے شک سارے اختیارات اپنے پاس رکھ لیں، 26 کے بعد 27 ویں ترمیم کر لیں لیکن اگر صلاحیت نہیں تو ملک نہیں چلا سکتے، حکومت ناکام ہے اور اسے خود اپنے آپ سے چیلنج ہے، یہ جتنے برس بھی رہیں ملک آگے نہیں بڑھے گا، آج جتنے چیلنجز پاکستان کو درپیش ہیں یہ پہلے کبھی نہیں تھے، ملک کو آگے لے جانے کی بات کریں کیوں کہ ملک اس وقت ترقی نہیں کر رہا، سیاسی ڈائیلاگ کریں جس میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کرپشن حد سے زیادہ ہے گورننس نہیں ہے، پنجاب کی حقیقت بھی وہی ہے جو باقی صوبوں کی ہے، ایک بات ہوئی کہ سفارش کا خاتمہ ہوگیا، درحقیقت کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے، اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ اب سیدھا پیسے لگائیں، انصاف بھی پیسے سے ملتا ہے، پولیس، گورننس اور ترقیاتی کام سب پیسے سے ہے، ماضی میں گیس ڈویلپمنٹ چارجز لگائے 6 سو ارب حکومت کو چلے گئے، کاربن لیوی بھی یہی ہے، معاشی اعشارے اسٹاک مارکیٹ غریب کی میز پر کھانا نہیں رکھتے، ترقی نہیں ہو رہی تو ملک آگے نہیں جائے گا۔