مسئلہ کشمیر سے بڑا مسئلہ کراچی کی زمینوں کا ہے : چیئرمین نیب
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) قومی احتساب بیورو کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمدبٹ نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے بڑا مسئلہ کراچی کی زمینوں کا مسئلہ ہے،سندھ کی زمینوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہورہی ہے،کراچی میں 7500 ایکڑ زمینوں کے دستاویزات جعلسازی سے 3 ہزار ارب روپے کی کرپشن کی گئی ہے، یہ فائلیں کھول دیں تو دنگل مچ جائے گا،ایل ڈی اے، کے ڈی اے، ایم ڈی اے کی جانب سے انفرا اسٹرکچر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے 22 برس سے اپنے الاٹیز کو قبضے نہ دینا افسوسناک ہے، آباد ٹھوس شواہد پیش کرے تو ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بلڈرز اور ڈیولپرز کے مسائل سے آگاہ ہوں، آپ کے ساتھ ہوں، آباد نیب کو اپنا دست بازو سمجھے۔
تفصیلات کے مطابق چیئر مین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد بٹ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ کراچی میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد ہاؤس) کا دورہ کیا اس موقع پر پیٹرن انچیف آباد محسن شیخانی، چیئرمین آباد محمد حسن بخشی نے استقبال کیا جبکہ سینئر وائس چیئرمین سید افضل حمید، وائس چیئرمین طارق عزیز، چیئرمین سدرن ریجن احمد اویس تھانوی، نیب سندھ کے ڈائریکٹر جنرل جاوید اکبر ریاض اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔
چیئرمین نیب نذیر احمد بٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر سے بڑا مسئلہ کراچی کی زمینوں کا مسئلہ ہے۔ کراچی میں بلڈرز کے بے شمار مسائل ہیں،تمام نوٹ کرلیے ہیں، نیب کا ادراہ بلڈرز اور ڈیولپرز کے ساتھ کھڑا ہے، نیب قوانین میں اصلاحات کی گئی ہیں، نیب میں کون سے کیسز اب فائل ہوں اس کا سسٹم اپڈیٹ کردیا ہے، آباد کراچی میں 85 ہزار غیر قانونی عمارتوں کے ثبوت پیش کرے تو یہ عمارتیں آبادکے مشورے پر ریگولرائز کی جائیں گی، اب کراچی میں نسلا ٹاور جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا۔
چیئرمین نیب نے انکشاف کیا کہ نیب نے سندھ میں 8 ماہ کے دوران 4 ہزار ارب روپے مالیت کی 18 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی سے قبضے چھڑواکر محکمہ ریونیو کے حوالے کی ہے۔ ماضی میں ہر کوئی کسی کے خلاف بھی شکایت درج کرواسکتا تھا،چیئرمین کا منصب سنبھالنے کے بعد اصلاحت کی ہیں جس کے بعد نیب کے پاس شکایات کاحجم ماہانہ 4500 سے گھٹ کر 150 سے 200 پر آگیا ہے، 2022 سے قبل کے درج کی گئی تقریبا 21 ہزار شکایتوں کو ختم کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی نیب افسر نے کسی کو غیر قانونی ہراساں کیا تو اسکی شکایت کریں، ہر صورت ایکشن ہوگا۔آباد بلڈرز کے تمام مسائل میرے علم میں ہیں۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ سندھ زمینوں میں ریکارڈ کا کوئی سسٹم نہیں ہے، لینڈ ڈپارٹمنٹ کے الگ الگ محکمے کسی سے لنک نہیں۔عنقریب سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ کے حوالے سے بڑا ایکشن لیا جائے گا۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ کراچی ماسٹر پلان کی دیکھ بھال کیلیے ڈی جی نیب کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی۔گوادر میں نیب کا ریجنل دفتر قائم کردیا وہاں بھی زمینوں میں کرپشن ہورہی ہے۔گوادر میں تقریبا 3 ہزار ارب روپے مالیت کی زمینوں پر مقدمات درج ہیں۔گوادر انڈسٹریل ایریا میں گزشتہ3 ماہ میں تین فیکٹریاں لگی ہیں نیب میں ون ونڈو آپریشن شروع کیا جارہا ہے۔پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے نئی پالیسی بنارہے ہیں۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ہرقسم کی ادائیگیوں کا نظام بینکوں کے توسط سے ہونا چاہیئے۔
اس موقع پر آباد کے پیٹرن انچیف محسن شیخا نی نے کہا کہ زمینوں کی خریدو فروخت کیلئے نیب سے باقاعدہ جانچ پڑتال سے مشروط کیا جائے۔سندھ میں زمینوں کا ریکارڈ ڈیجیٹل ہونا چاہیے جس سے کرپشن ختم ہوگی۔سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ میں خورد برد کا سلسلہ طول پکڑ گیا ہے۔کرپٹ ادارے اپنا ریکارڈ خود ڈیجٹل کررہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن کے لیے تھرڈ پارٹی کی خدمات حاصل کی جائیں۔
قبل ازیں آباد کے چیئرمین آباد محمد حسن بخشی نے چئیرمین نیب کے سامنے صوبائی اور بلدیاتی اداروں کی شکایتوں کے انبار لگا دیئے،انھوں نے کہا کہ سندھ میں زمینوں کی نیلامی کی کوئی پالیسی نہیں، من پسند افراد کو زمینیں فروخت کی جاتی ہیں۔ کراچی میں 5 سال کے دوران 85 ہزار عمارتیں غیر قانونی طور پر تعمیر ہوئی ہیں، سندھ حکومت زمینوں کی شفاف نیلامی کرنے کے بجائے من پسند افراد کو فروخت کرتی ہے، لینڈ گرانٹ پالیسی متعارف کرائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں لینڈ گرانٹ پالیسی لائی جائے توسندھ حکومت کو اس سے 500 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوگا۔حسن بخشی نے کہا کہ۔ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی،لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ایل ڈی اے،ایم ڈی اے اور کے ڈی اے کے ماتحت چھوٹی رہائشی اسکیموں میں شہریوں کا سرمایہ پھنس گیا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ نیب کے ساتھ ملکر مسائل کاحل نکالا جائے۔آج کراچی میں جو خوبصورت عمارتیں ہیں وہ آباد کی کاوش ہے۔ بلڈرز اور ڈیولپرز کا دارومدار زمینوں سے منسلک ہے۔حسن بخشی نے کہا کہ کراچی میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات پر اس دور کے ڈی جیز کے خلاف کارروائی کی جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چیئرمین نیب کراچی میں زمینوں کا کی زمینوں نے کہا کہ ارب روپے سے بڑا گیا ہے
پڑھیں:
مہاجرین جموں و کشمیر کی نمائندگی نظریاتی، تاریخی اور سیاسی تناظر
آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان وہ خطہ جسے کشمیری مجاہدین نے قبائلی لشکر اور پاک فوج کی تائید سے بھارتی اور ڈوگرہ افواج کو پسپا کرتے ہوئے آزاد کرایا، یہ صرف ایک خطہ زمین نہیں بلکہ ایک نظریے کا مظہر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں آزادی کے متوالوں نے اس خطے میں ایک انقلابی حکومت قائم کی، جسے ”آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر” کا نام دیا گیا۔ یہ حکومت ریاست کے آزاد اور مقبوضہ حصوں کی نمائندہ تھی، جس میں مہاجرین اور مقامی افراد کی مساوی شمولیت تھی، اس حکومت کا قیام کسی علاقائی خودمختاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی منزل کی طرف ایک قدم تھا۔
ابتدائی حکومت اورمہاجرین کا کردارپہلی کابینہ کی قیادت بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان نےکی اور اسکی ساخت میں مہاجرین اور انصار (مقامی باشندگان) کی مساوی نمائندگی شامل تھی۔ یہ حکومت پلندری کے مقام ’’جونجال ہل‘‘ پر قائم کی گئی، جہاں سے مہاجرین کی بحالی مجاہدین کی مدد اور ریاستی نظم و نسق کی بنیاد رکھی گئی۔ معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب، جو خود جموں کے مہاجر تھے اس حکومت کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے،آزادخطے میں مقامی تعلیم یافتہ افرادی قوت کی قلت تھی، چنانچہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین نے انتظامیہ، تعلیم، عدلیہ اور ریاستی نظام کے دیگر شعبوں میں کلیدی کردار ادا کیا، ان کی قربانیوں اور خدمات نے نہ صرف آزاد کشمیر کو سنوارا بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کی سمت متعین کی۔
ریاستی سطح پرمہاجرین کی نمائندگی کو ابتدا ہی سے ایک بنیادی حیثیت حاصل رہی، ساٹھ کی دہائی تک اسٹیٹ کونسل میں مہاجرین اور انصار کی مساوی نمائندگی موجود تھی۔ 1970 ء کے ایکٹ میں 25 رکنی اسمبلی میں 8 نشستیں مہاجرین کے لیے مخصوص کی گئیں،تاہم 1974 کے عبوری آئین میں ان کی نمائندگی میں کمی واقع ہوئی، اور اب صرف 12 نشستیں (6 جموں، 6 وادی کشمیر) مہاجرین کے لیے مخصوص ہیں۔جموں کی نشستوں پر ووٹرز کی تعداد بعض آزادکشمیر حلقوں سےبھی زیادہ ہے، جبکہ وادی کے ووٹرز کی تعداد نسبتا کم ہے۔ اس تناظر میں مہاجرین کی نمائندگی محض عددی توازن کا مسئلہ نہیں بلکہ تحریک آزادی کشمیر کی نظریاتی اور سیاسی ضرورت ہے تاکہ وہ ریفرنڈم کی صورت میں اپنی شناخت کے ساتھ رائے دہی میں حصہ لے سکیں۔بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ مہاجرین کی نشستوں پر دھاندلی ہوتی ہے، اس لیے ان کا خاتمہ کیا جائے یہ موقف سراسر کمزور اور یک طرفہ ہے دھاندلی کا مسئلہ صرف مہاجر نشستوں تک محدود نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے عمومی انتخابی نظام پر بھی اس کا سایہ رہا ہے، اگر یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر پوری اسمبلی ہی سوال کے دائرے میں آ جائے گی۔ایک اور اعتراض یہ ہےکہ مہاجر نمائندے تحریک آزادی میں فعال کردار ادا نہیں کر رہے، یہ ایک جائز اور بروقت تنبیہ ہے۔ ہم نے خود بھی ان نمائندوں کو بارہا متوجہ کیا ہے کہ ان کی غیر فعالیت نمائندگی کے حق پر سوالیہ نشان بن سکتی ہےلیکن کیا آزاد کشمیر کے اندر منتخب نمائندے تحریک کے حوالےسے کوئی مثالی کردار ادا کرسکے ہیں؟اگر جواب نفی میں ہے تو پھر مہاجرین کی نمائندگی کو تنقید کا نشانہ بنانا سراسر ناانصافی ہے۔
اگر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو ایک نظریاتی حکومت کی حیثیت میں قائم رکھا جائے، جو تحریک آزادی کی نمائندہ ہو اور پوری ریاست کی نمائندگی کرے، تو مہاجرین کی نمائندگی اس کی روح ہے۔ بصورت دیگر اگر آزاد حکومت کو ایک محض علاقائی حکومت میں تبدیل کرنا مقصود ہے، تو پھر جو چاہیں کیجیے۔
بھارت ہمیشہ سے یہی چاہتا رہا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت تحریک آزادی سے علیحدہ ہو جائے، اور اسے ایک بے ضرر انتظامی یونٹ بنا دیا جائے۔ ایسی صورتحال میں اگر ہم خود ہی مہاجرین کی نمائندگی کو ختم کریں، تو ہم بھارتی بیانیے کی تائید کر رہے ہوں گے۔مہاجرین کی قربانیاں اور ان کے ثمرات یہ وہی نمائندگی ہے جس نے ہمیں کے ایچ خورشید، سہروردی، پروفیسر عبدالعزیز سلہریا، عبدالمجید سلہریا، خلیل قریشی، جسٹس منظور گیلانی جیسے نابغہ روزگار افراد دیے، جنہوں نے ریاستی اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ جموں، راجوری اور پونچھ سے آنے والے مہاجرین نے اپنے خاندانوں کی قربانی دی، جن میں بعض خاندان مکمل طور پرختم کر دیے گئے۔ ان قربانیوں کو فراموش کرنا ایک تاریخی جرم ہو گا۔موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم مہاجرین اور انصار دونوں کو شفاف، منصفانہ اور دیانت دار قیادت فراہم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اس کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔مہاجرین کی متناسب نمائندگی کو برقرار رکھا جائے۔انتخابی نظام کو شفاف بنایا جائے۔سیاسی قیادت کو تحریک آزادی کے ساتھ جوڑنے کے لیے ادارہ جاتی کوششیں کی جائیں۔
سوشل میڈیا یا عوامی سطح پر ایسی بحثوں سے گریز کیا جائے جو دستوری و نظریاتی اساس کے خلاف ہوں،قومی اتفاق رائے کے ساتھ ایک جامع اصلاحاتی پروگرام ترتیب دیا جائے،مہاجرین کی نشستیں محض سیاسی مراعات نہیں بلکہ تحریک آزادی کے خون سے لکھی گئی قربانیوں کا تسلسل ہیں، ان نشستوں کو ختم کرنا محض ایک سیاسی اقدام نہیں، بلکہ ایک نظریاتی انحراف ہو گا۔ ہمیں ہوا کے رخ پر نہیں، نظریاتی اساس پر کھڑے ہو کر نئی نسل کی رہنمائی کرنا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں مقبوضہ وادی میں موجود اپنے بھائیوں تک بھی پہنچانا ہے کہ آزاد خطہ آج بھی ان کی آواز ان کی امید اور ان کے مستقبل کی نمائندگی کرتا ہے۔