مشکل فیصلے اور آگے کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’مشکل فیصلے کیے مگر آگے بھی سفر آسان نہیں ہے۔‘‘ اگرچہ اس دوران معیشت میں بہتری کے اشارے ملے ہیں۔ دو سال پہلے کے مقابلے میں اب جس قسم کے معاشی حالات ہیں، اس میں ڈیفالٹ کی بازگشت شامل نہیں ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر اب زیادہ بے چینی اور بے یقینی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ ایک سال یا ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے جب آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر پاکستانی حکام کو بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنی پڑی تھی۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی اس سلسلے میں بہتر رہی ہے ۔
آج کل کی معاشی صورت حال مئی جون 2022 سے کافی مختلف ہے۔ پاکستان نے 2020 اور 2021 کے دوران کووڈ19 کا سامنا کیا تھا۔ جب ہر قسم کے کاروبار، تجارت اور چھوٹی بڑی دکانیں کمپنیاں دفاتر اسکول، کالجز وغیرہ کبھی 10 یوم ،کبھی 12 یوم کے لیے بند کردیے گئے تھے۔ دنیا کووڈ19 کی پابندیوں میں جکڑی ہوئی تھی، جس کے بھیانک اثرات پاکستان پر بھی محسوس ہو رہے تھے ۔ پاکستان کا خزانہ خالی تھا، خالی ہاتھ دیکھ کر آئی ایم ایف نے بھی 2020 کے دوران اپنی وصولی روک دی تھی۔
چند سال انتہائی مشکل ترین گزرنے کے بعد معیشت میں قدرے استحکام آیا ہے۔ اس کی ایک وجہ عالمی سطح پر بہت سے ملکوں کی معیشت جوکہ کووڈ19 کے سلسلے میں انتہائی مشکلات کا شکار ہو کر رہ گئی تھیں اور بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں مسلسل کووڈ کے سلسلے میں لمبی پابندیاں عائد تھیں، جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔ 2020 میں یعنی 23 مارچ کے بعد سے تقریباً ایک ماہ اس کے بعد کچھ دن پھر 2021 میں بھی چند ہفتوں کی بات تھی لہٰذا دیگر ملکوں کی نسبت ہماری معیشت بہت کم بند رہی۔ ان تمام خراب تر معاشی حالات کے باوجود اس وقت کی حکومت کا زور درآمدات میں اضافے پر ہی رہا۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 56 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات 2020-21 کے دوران کی گئیں اور اس سے اگلے برس 2021-22 میں درآمدات 80 ارب ڈالر سے زائد کی رہیں۔جب 2022-23 کے دوران 55 ارب 33 کروڑ ڈالرزکی درآمدات ہوئیں اور تجارتی خسارہ ساڑھے 27 ارب ڈالرز کا رہا۔ اور 2023-24 کا تجارتی خسارہ 24 ارب ڈالر تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اب بات یہ ہے کہ معیشت میں بہتری اتنی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، بہرحال آگے کا سفر آسان نہیں ہے اگر بہتری آئی ہے تو اس کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے اور اس میں تیزی آنی چاہیے۔ معیشت میں مندی کے آثار اب بھی موجود ہیں لہٰذا درآمدات کا متبادل تیار کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
امریکا نے چین پر لگے ہوئے ٹیکس میں اضافہ کردیا ہے جس سے چین میں موجود کمپنیاں شدید تشویش میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ ان کی طرف سے جلد ہی ایسے اقدامات اٹھائے جانے کی توقع ہے کہ وہ اپنے کارخانے دیگر ترقی پذیر ملکوں میں منتقل کر دیں۔ پاکستانی حکام اور صنعتکار مل کر ایسا لائحہ عمل تیارکریں اور اس بارے میں صلاح و مشورہ کریں کہ ایسی کمپنیاں جوکہ لیبرکی طلب زیادہ کرتی ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ مزدوروں کی کھپت ہو سکتی ہو ان کمپنیوں کو پاکستان آ کر کارخانے، صنعتیں لگانے کی ترغیب دی جائے۔ اب یہاں پر صرف چینی نژاد صنعتکاروں تک بات محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ چین میں موجود غیر ملکی کمپنیاں اور غیر ملکی صنعتکاروں کو بھی مدعو کیا جائے۔
اب جب کہ ملکی گوادر پورٹ اور گوادر کے ہوائی اڈے کا بھی حال ہی میں افتتاح ہوا ہے وہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں گوادر اور بلوچستان کے حالات کے ساتھ ساتھ اب خیبرپختونخوا کے حالات سے پاکستان کی معیشت شدید متاثر ہونے کی جانب گامزن ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کی صورت میں ہی معیشت میں ہلکی پھلکی بہتری کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
اس طرح اس معمولی معاشی ترقی کو جوکہ ہو رہی ہے اس کا تسلسل اس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے کہ معاشی و صنعتی ترقی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ممکن ہو سکے اور معیشت میں بہتری کے آثار جب ہی محسوس کیے جائیں گے جب ملک سے بے روزگاری کی شرح کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جاسکے۔
صنعتی ترقی کی رفتار میں اضافے کا ایک مطلب یہ ہے کہ بندکارخانے کھل جائیں، نئے کارخانے قائم ہونے لگیں اور معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ، روزگار کی شرح میں اضافہ، بے روزگاری کو بڑھنے سے روک دینا، لوگوں کی آمدن میں اضافہ، غربت کی شرح میں کمی، برآمدات جوکہ گزشتہ مالی سال محض ساڑھے تیس ارب ڈالر تک محدود رہی، اس میں مزید نصف مالیت کا اضافہ، اس کے علاوہ قرض پر انحصارکو زیادہ سے زیادہ کم کرنا اور دیگر بہت سے معاشی امور اور معاشی فیصلے ایسے ہیں۔
جن کے مثبت اثرات کے حصول کے لیے فیصلے کرنے کا وقت آ پہنچا ہے تاکہ حکومت نے اگر ٹھان لی ہے کہ اب آگے بڑھنا ہے تو اس میں معاشی صنعتی ماحول میں بہتری لانے کے ساتھ اب سیاسی ماحول کو بھی بہتر بنانا ہوگا تاکہ معاشی ترقی کے تسلسل کی رفتار کو تیز تر کیا جاسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زیادہ سے زیادہ میں اضافہ سلسلے میں میں بہتری ارب ڈالر کے دوران کی شرح
پڑھیں:
خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری معاشی بہتری کیلئے ناگزیر ہے:وزیراعظم
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملک کی معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے، جبکہ حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ نجکاری کے عمل کو مؤثر، جامع اور شفاف طریقے سے مکمل کیا جائے۔سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے وزیراعظم آفس میں سرکاری اداروں کی نجکاری کی پیشرفت کا جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔وزیراعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملک کی معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے، جبکہ حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ نجکاری کے عمل کو مؤثر، جامع اور شفاف طریقے سے مکمل کیا جائے۔وزیراعظم نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ منتخب اداروں کی نجکاری میں تمام قانونی تقاضے اور شفافیت کی شرائط پوری کی جائیں.انہوں نے کہا کہ ’ قومی اداروں کی قیمتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، تاہم نجکاری کے عمل کے دوران قومی اداروں کی قیمتی زمینوں کے تصرف میں ہر ممکن احتیاط برتی جائے۔’وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کے دوران خصوصی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ اداروں کے مرحلہ وار نجکاری کے اہداف مارکیٹ کے اقتصادی حالات کے مطابق مقرر کیے جائیں تاکہ قومی خزانے کو ممکنہ نقصانات سے ہر قیمت پر بچایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ’ تمام فیصلوں پر مکمل اور مؤثر عمل درآمد ہونا چاہیے، میں نجکاری کمیشن میں جاری کام کی پیشرفت کی باقاعدگی سے نگرانی کروں گا. مزید برآں، نجکاری اور اداروں کی تنظیم نو کے عمل میں ماہرین کی مشاورت اور بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھا جائے۔اجلاس کے دوران وزیراعظم کو 2024 کی نجکاری فہرست میں شامل اداروں کی نجکاری کی پیشرفت پر بریفنگ دی گئی، کمیشن حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری قانونی، مالیاتی اور شعبہ جاتی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے۔مزید یہ کہ کابینہ کی منظوری سے طے شدہ پروگرام کے مطابق منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری مقررہ مدت میں مکمل کی جائے گی اور نجکاری فہرست میں شامل تمام اداروں، بشمول پی آئی اے اور بجلی کی ترسیلی کمپنیاں (ڈسکوز)، کی نجکاری طے شدہ اقتصادی، ادارہ جاتی اور انتظامی اہداف کے مطابق کی جائے گی۔اجلاس میں وفاقی وزرا سردار اویس خان لغاری، احد خان چیمہ، چیئرمین نجکاری کمیشن محمد علی، وزیر مملکت برائے خزانہ و ریلوے بلال اظہر کیانی اور دیگر متعلقہ حکام اور سینئر افسران نے شرکت کی۔