بے امنی نے سندھ کا امن،کاروبار ،معیشت اور تعلیم تباہ کردی،کاشف شیخ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
سکھر(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ بدامنی کی صورتحال نے سندھ کا امن، کاروبار، معیشت اورتعلیم تباہ کردی ہے،سرکاری سرپرستی میں ڈاکوراج نے خوشحال سندھ کوبھوک، غربت وافلاس میں مبتلا کردیا ہے باقی رہی سہی کسردریائے سندھ پرمزید6نہریں نکال کرپوری کی جارہی ہے۔جماعت اسلامی اس ظلم اورسندھ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف سندھ کے عوام کے
ساتھ کھڑی ہے۔سکھر اے پی سی میں اعلانیہ بحالی امن ایکشن کمیٹی کے تحت 16فروری کو بدامنی اورڈاکوراج کی سرکاری سرپرستی کے خلاف انڈس ہائی وے شکارپورپرزبردست عوامی دھرنا ہوگا۔جس میں تمام سیاسی سماجی تنظیمیں ،وکلا، صحافی، اقلیتی اورسول سوسائٹی کے نمائندے شرکت کریں گے۔دھرنے میں مزید آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔پولیس انتظامیہ نے اگر بزور طاقت تشدد کے ذریعے پر امن دھرنے کو روکنے کے لیے رکاوٹ ڈالی تو بھی بہرصورت دھرنا جاری رہے گا۔حکومت اپنی آئینی ذمے داری کو سمجھے اور امن و امان کے قیام عوام کے تحفظ کو اپنی ترجیح بنائے بصورت دیگر آئندہ مرحلے میں دھرنوں لانگ مارچ اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے گھیراؤ کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے سندھ میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر مہران مرکزمیںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹریز علامہ حزب اللہ جکھرو،امداداللہ بجارانی ،امیرضلع زبیرحفیظ شیخ،مقامی امیر سرفرازاحمد صدیقی اورسیکرٹری اطلاعات عبدالمالک تنیو بھی اس موقع پر موجود تھے۔صوبائی امیر کا مزید کہنا تھاکہ پورا سندھ اس وقت بدامنی کی لپیٹ میں ہے، اور حکومت صورتحال پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ڈاکو راکٹ لانچرزمیں لپیٹ کرتاجروں کو بھتے کی پرچیاں بھیج رہے ہیں جس کے خلاف عوام وتاجرسراپا احتجاج ہیں کہاں ہے پولیس اورحکومت؟۔ جماعت اسلامی نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے سکھرمیں آل پارٹیز کانفرنس بلائی جہاں مختلف مکاتب فکر کے افراد کو مدعوکیا تھا۔سندھ پولیس کے مطابق سال 2024ء میں کاروکاری اور قتل کے سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ ڈویژن میں ہوئے جبکہ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، سندھ میں 450 کے قریب افراد اغوا ہوئے، جن کے اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان طلب کیا جا رہا ہے، پولیس مکمل طور پر امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے، جس کے باعث جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں، معصوم بچی پریا کماری، فضیلہ سرکی تاحال بازیاب نہیں ہوئیںجبکہ شہید جان محمد مہر ،نصراللہ گڈانی کے قاتل بھی گرفتار نہ ہوسکے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس جرائم کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔امیر جماعت اسلامی سندھ نے کہا کہ سی ایس ایس پاس افسران امن و امان بہتر کرنے کے بجائے وزیروں اور وڈیروں کے بنگلوں پر چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں بارہا سوال کیا گیا کہ کچے میں ڈاکوؤں کو جدید ترین اسلحہ کون فراہم کر رہا ہے، لیکن آج تک کوئی جواب نہیں دیا گیا، جماعت اسلامی سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے خلاف عملی طورمیدان میں ہے، اے پی سی ،احتجاجی مظاہروں کے بعد اب 16 فروری کو شکارپور کے کندن بائی پاس انڈس ہائی وے پر عوامی دھرنا دیا جائے گا، جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سندھ میں امن بحال نہیں ہوتا۔ کاشف سعید شیخ نے ایک سوال کے جواب میں پیکا ایکٹ اور 26 ویں آئینی ترمیم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے کالا قانون قرار دیا انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہمیشہ صحافیوں کے حقوق کے لیے کھڑی رہی ہے اور آئندہ بھی ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کے خلاف نے کہا
پڑھیں:
میئر کراچی کی گھن گرج!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-2
کراچی آج جس صورتحال سے دوچار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ملک کے اقتصادی پہیے کو رواں دواں رکھنے والے اس شہر کے مسائل و مشکلات کو مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجے میں روشنیوں کا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی و بربادی، سڑکوں کی خستہ حالی، واٹر ٹینکرز اور ڈمپرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیوریج کے نظام کی خرابی، کچرا کنڈیوں سے اٹھتے ہوئے تعفن کے بھبکے، بے ہنگم ٹریفک، پانی کا مصنوعی بحران، جابجا کھلے مین ہول، اربن فلڈنگ، سیوریج لائن کا پانی کی لائنوں سے ملاپ، برساتی نالوں کی عدم صفائی، تجاوزات کی بھرمار، فٹ پاتھوں پر پتھارے داروں کا قبضہ اور صفائی ستھرائی کی مخدوش صورتحال شہر کے اختیارات پر قابض میئر کراچی کی اعلیٰ کارکردگی کا مظہر ہیں، یہ اعلیٰ کارکردگی اس وقت اور مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب شہر میں بارش کی چند بوندیں برس جائیں۔ قومی خزانے سے شہر میں جہاں جہاں تعمیر و ترقی کے کام ہورہے ہیں اس کا حال بھی یہ ہے وہ بارش کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کی واضح مثال شاہراہ بھٹو اور نئی حب کینال ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود آج بھی شہر کی مختلف سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہے۔ شہر کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جماعت ِ اسلامی طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے، حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی کو ہنگامی طور 500 ارب روپے اور صوبائی حکومت ہر ٹائون کو 2 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دے۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ کے اختیارات ٹائون کو منتقل کیے جائیں۔ جماعت ِ اسلامی کے ان مطالبات اور تنقید پر غور کرنے کے بجائے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ شہر میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 2003 میں شہر کا ماسٹر پلان ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، شہر کی پوری سڑکوں کو کمرشل کرنے کی اجازت جماعت اسلامی نے دی تھی، اب اس شہر میں منافقت نہیں چلنے دوں گا اور ان کو سخت الفاظ میں جواب دوں گا۔ لیجیے بات ہی ختم۔ کسی بھی سطح پر اقتدار کے منصب پر فائز افراد کا یہی وہ طرز عمل ہے جس نے تعمیر و ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے، خیر سگالی پر مبنی تنقید پر مثبت طرز عمل کو بالائے طاق رکھ کر جب اسے انا کا مسئلہ بنادیا جائے تو اسی طرح منافقت کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور ترکی بہ ترکی جواب دینے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بارشوں سے اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی بدانتظامی، نااہلی اور بدعنوانی سے ہوئی ہے، کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا میڈیٹ جماعت ِ اسلامی کے حوالے کیا تھا مگر اس میڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس ڈاکے کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔ میئر کراچی کو آپے سے باہر ہونے اور الزامات عاید کرنے کے بجائے شہر کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانیاں صرف کرنی چاہییں۔ کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کراچی کے شہری روز جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور شہر عملاً جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر لفظوں کی گھن گرج اور منافقت کے الزامات سے پردہ نہیں ڈلا جا سکتا۔ شہر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے محض بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں عمل کے میزان میں دعوؤں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے اور بحیثیت میئر انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔