صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں 6 مستقل اور ایک قائمقام جج کی تقرری کی منظوری دے دی
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
صدرمملکت آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں چھ مستقل اور ایک قائم مقام جج کے تقرر کی منظوری دے دی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صدرمملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر سپریم کورٹ میں چھ نئے ججوں کے مستقل تقرر اورایک قائم مقام جج کے تقرر کی منظوری دے دی ہے.
جسٹس ہاشم خان کاکڑ،جسٹس محمد شفیع صدیقی،جسٹس صلاح الدین پنور،جسٹس شکیل احمد،جسٹس عامر فاروق اور جسٹس اشتیاق ابراہیم کو سپریم کورٹ کا مستقل جج تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔
اس کے علاوہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں ایک سال کیلئے قائم مقام جج تعینات کیا گیاہے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر ان ججوں کی تقرری کی ایڈوائس صدر کو بھیجی تھی۔
صدرمملکت سے منظوری ملنے کے بعد وزیراعظم سمری وزارت قانون کو بھیجیں گے جو کسی بھی وقت ان ججوں کے تقرر کے نوٹیفکیشن جاری کر دے گی، ان ججوں کی حلف برداری آج جمعرات کو متوقع ہے۔
دوسری جانب جسٹس عتیق شاہ کے قائم مقام چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور جسٹس جنید غفار کے قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ میں کی منظوری
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔