سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ انتقال کر گئے
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
جسٹس (ر) عظمت سعید پانامہ لیکس کیس سننے والے بینچ کا حصہ بھی رہے، عظمت سعید نے ایل ایل بی ڈگری کی تکمیل کے بعد 1978ء میں راولپنڈی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، 1981ء میں وہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ کے طور پر شامل ہوئے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ لاہور میں انتقال کر گئے۔ اہل خانہ کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کچھ عرصے سے علیل اور ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ عظمت سعید شیخ 2019ء تک سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات رہے، سپریم کورٹ تعیناتی سے قبل وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔
جسٹس (ر) عظمت سعید پانامہ لیکس کیس سننے والے بینچ کا حصہ بھی رہے، عظمت سعید نے ایل ایل بی ڈگری کی تکمیل کے بعد 1978ء میں راولپنڈی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، 1981ء میں وہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ کے طور پر شامل ہوئے۔ جسٹس (ر) عظمت سعید نے یکم جون 2012ء کو سپریم کورٹ کے مستقل جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور جولائی 2019ء میں قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کورٹ کے
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔