WE News:
2025-11-05@01:10:36 GMT

عراق جنگ کے محرک سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی انتقال کرگئے

اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT

عراق جنگ کے محرک سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی انتقال کرگئے

امریکا کے سابق نائب صدر ڈک چینی جو سنہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے مرکزی منصوبہ ساز تصور کیے جاتے تھے 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور اریکا کرک کی گلے لگنے کی ویڈیو وائرل، شادی کی قیاس آرائیاں

ان کے اہل خانہ کے مطابق وہ پیر کی رات نمونیا اور قلبی و شریانی امراض کی پیچیدگیوں کے باعث چل بسے۔

ڈک چینی ایک وقت میں امریکی تاریخ کے سب سے بااثر نائب صدور میں شمار کیے جاتے تھے۔ انہوں نے سنہ 2001 سے سنہ 2009 تک صدر جارج ڈبلیو بش کے نائب کے طور پر خدمات انجام دیں۔

وہ واؤمنگ سے ریپبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس اور سابق وزیرِ دفاع بھی رہ چکے تھے۔

چینی نے اپنی سیاسی زندگی میں امریکی صدارتی اختیارات کے اضافے کے لیے بھرپور کوشش کی۔

مزید پڑھیے: ممکن ہے صدارتی انتخابات پھر سے لڑوں، سابق امریکی نائب صدر کملا ہیرس

وہ وائٹ ہاؤس میں ایک طاقتور قومی سلامتی ٹیم کے سربراہ رہے جس نے متعدد بار پالیسی سازی میں صدر سے بھی زیادہ اثر و رسوخ دکھایا۔

عراق جنگ کا معمار

ڈک چینی عراق پر حملے کے سب سے بڑے حامیوں میں سے تھے۔

انہوں نے سنہ 2003 میں عراق میں مبینہ طور پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کیا جسے بعد میں غلط ثابت کیا گیا۔

انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ امریکی فوج کو عراق میں آزاد کنندگان کے طور پر خوش آمدید کہا جائے گا تاہم یہ جنگ تقریباً ایک دہائی تک جاری رہی۔

چینی کو اس پالیسی پر اپنے کئی ساتھیوں بشمول سابق وزرائے خارجہ کولن پاؤل اور کونڈولیزا رائس سے سخت اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے دہشتگردی کے مشتبہ افراد پر سخت تفتیشی طریقے جن میں واٹر بورڈنگ اور نیند کی محرومی شامل تھے کی بھی حمایت کی جنہیں بعد ازاں امریکی سینیٹ اور اقوامِ متحدہ نے تشدد قرار دیا۔

سیاسی و خاندانی وراثت

ڈک چینی کی بیٹی لِز چینی بھی امریکی ایوان نمائندگان کی رکن رہ چکی ہیں۔ انہوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مؤقف اختیار کیا اور 6 جنوری سنہ 2021 کو امریکی کانگریس پر حملے کے بعد ان کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا جس کے نتیجے میں انہیں اپنی نشست سے محروم ہونا پڑا۔

ڈک چینی نے اس پر اپنی بیٹی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سنہ 2024 کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی جمہوریت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

قلبی امراض، متنازعہ وراثت

چینی کو اپنی جوانی سے ہی دل کے عارضے لاحق تھے اور انہوں نے 37 برس کی عمر میں پہلا ہارٹ اٹیک برداشت کیا۔ سنہ 2012 میں ان کا دل کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

ان کا کردار سنہ 2018 کی ہالی ووڈ فلم’ Vice’ میں اداکار کرسچن بیل نے ادا کیا تھا جنہوں نے گولڈن گلوب ایوارڈ جیتتے ہوئے طنزیہ طور پر کہا کہ میں نے یہ کردار ادا کرنے کے لیے شیطان سے رہنمائی لی۔

مزید پڑھیں: پاکستانی حملے سے قبل امریکی نائب صدر نے بھارت کو کیا پیغام دیا؟

ڈک چینی اپنی سخت گیر پالیسیاں، غیر متزلزل مؤقف اور امریکا کی عالمی پالیسی پر گہرے اثر کی وجہ سے ہمیشہ ایک متنازع مگر فیصلہ کن رہنما سمجھے جاتے رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی نائب صدر ڈک چینی امریکی نائب صدر ڈک چینی کا انتقال.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی نائب صدر ڈک چینی نائب صدر ڈک چینی امریکی نائب صدر انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں

اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا

عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔

داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔

مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔

غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ  قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔

نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239  ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔

عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔

فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔

احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔

علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔

سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔

امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی تاریخ میں طاقتور نائب صدر رہنے والے ڈک چینی چل بسے
  • امریکا؛ سابق نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کرگئے
  • سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
  • شمالی کوریا: حکمران خاندان کے وفادار سابق علامتی سربراہِ مملکت انتقال کر گئے
  • دنیا کے معمر ترین سابق اولمپک چیمپئن چارلس کوست 101 برس کی عمر میں انتقال کرگئے
  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • شکارپور:سابق وزیردفاع آفتاب شعبان میرانی کراچی میں انتقال کرگئے
  • جماعت اسلامی کے رکن محمد حمید انتقال کرگئے
  • موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں